خوب تر تھی زندگی تیری علی
موت بھی اچھی رہی تیری علی
دن جمعہ تھا بن سنور کے تو چلا
تھی نرالی بندگی تیری علی
اپنی درویشی سے حیراں کر دیا
تھی انوکھی سادگی تیری علی
ہر عمل میں اپنے لا ثانی رہا
کھو گیا ہوں یاد بھی تیری علی
شخصیت اپنی کھپا کر رکھ دیا
سوچتا ہوں مخلصی تیری علی
تیرےجانے سے سبھی نوحہ کناں
برتری قائم رہی تیری علی
گوشے گوشے سے صدا آتی ہے آج
یاد آتی رہ گئ تیری علی
میکدہ کی ہر گلی ہے سوگوار
گفتگو میں چاشنی تیری علی
بات کڑوی تھی مگر تھی اس لیے
بات ہر دم تھی کھری تیری علی
حوصلہ مثل ھمالہ تھا تیرا
ہر طرف جلوہ گری تیری علی
مثل آئینہ نظر آتا تھا تو
پھول سی تابندگی تیری علی
چاہنے والوں کو یوں تڑپا گئی
صورت من موہنی تیری علی
ہے دعا یہ غمزدہ عثمان کی
قبر میں ہو روشنی تیری علی
از: محمد عثمان ندوی ومظاہری