دعا مومن کے لیے ہتھیار ہے

مکرمی!
اس وقت ہم مسلمان پوری دنیا میں مشکل ،کٹھن اور ناموافق حالات سے گزر رہے ہیں ،عالم عرب اور غزہ و فلسطین کی صورت حال کسی سے مخفی اور پوشیدہ نہیں ہے اور خود ملک عزیز ہندوستان اور برصغیر میں مسلمانوں کی صورت حال بھی اچھی اور بہتر نہیں ہے ،مسلمانوں کو کمزور کرنے اور انہیں بحیثیت کرنے اور ان کی شناخت، حیثیت عرفی اور ملی شناخت کو مٹانے کی کوشش پورے شباب پر ہے ،ہمارے اوقاف اور ملی جائیداد پر بھی دشمن کی پوری نظر ہے ،اس پر قابض ہونے کی مہم چلائی جارہی ہے اور ہماری بہت سی اوقافی جائیداد پر یہ لوگ قابض بھی ہوگئے ہیں ۔ ایسے وقت میں مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ باہمی اتحاد پیدا کریں ،آپس میں سیسہ پلائی دیوار بن جائیں اپنی شناخت ،عائلی قانون اور اوقاف کی حفاظت کے لیے متحدہ کوشش کریں اور ساتھ ساتھ اللہ سے لو اور قربت بنا کر خلوص دل سے دعا کریں ۔ ان شاءاللہ حالات بدلیں گے ،مشکلات ختم ہونگے مسائل کافور ہوں گے اور مسلمان اپنے سابقہ مقام و منزلت حاصل کریں گے ۔
آج کے اس مبارک دن یعنی جمعہ میں ہم آپ کے سامنے دعا کی حقیقت اور اہمیت پر گفتگو کریں گے اور یہ بتائیں گے کہ خلوص دل سے مانگی ہوئی دعا رد نہیں ہوتی اور اللہ تعالیٰ دعا کی برکت سے حالات بدل دیتے ہیں ، قضاء و قدر میں بھی تبدیلی پیدا فرما دیتے ہیں ، قضاء مبرم میں تو نہیں لیکن قضاء معلق میں تبدیلی ہو جاتی ہے ۔
ہم کو یہ یقین ہونا چاہیے کہ دعا کے ذریعہ زندگی میں انقلاب آجاتا ہے ،معاشرہ کو نیا موڑ ملتا ہے ،اونگھتی انسانیت کو تازگی اور زندگی کا سبق اور پیغام ملتا ہے ،یہ دراصل نعرہ اور ایک ضرب ہے ،اس سے جسم میں یکبارگی جنبش و حرکت پیدا ہو جاتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔ہزاروں بہاروں کے سرمایہ سے وہ کیفیت نہیں پیدا ہوتی جو دعا کی تاثیر سے پیدا ہو جاتی ہے ،یہ ہمتوں اور جذبوں کو بلند اور روح کو پرواز عطا کرتی ہے ۔۔ بڑے بڑے بادشاہوں کے دار الحکومت اور ان کے ظلم و جور کے کھلے جبڑوں سے بھی عدل و انصاف کو کھینچ کر گھنیری چھاؤں میں لا ڈالتی ہے ۔ نہ معلوم کتنی جراحتوں پر اس نے تازہ مرہم رکھا ہے ۔یہ دعا مومن کا ہتھیار ہے ۔۔۔اور خاص طور پر جہاں مولیٰ کا سحاب کرم جھوم کر برستا ہے جہاں کیف و اہتزاز اور نشاط و انبساط کا پورا سامان ہوتا ہے ۔۔
اس نازک وقت میں سب سے زیادہ ضرورت ہے کہ جہاں ہم تدبیر و عمل میں پیش قدمی کریں وہیں مولیٰ سے لگ لپٹ کر انسانیت کی صحیح تعمیر و تشکیل کے لئے اللہ تعالیٰ سے رحم و کرم اور عفو و درگزر اور امت کی سربلندی کی بھیک مانگیں ۔ آقا و مولا کو ترس آئے گا تو بگڑی بن جائے گی ،حالات بہتر ہو جائیں گے ، اندھیرے اجالے میں بدل جائیں گے اور چیختی چلاتی، بلکتی اور تڑپتی انسانیت کو چین اور سکون مل جائے گا ۔۔۔۔۔

اس امت کو نبی کریم ﷺ کے واسطہ سے دنیا و آخرت کی جو ہزاروں دولتیں ملی ہیں, اور انگنت احسانات و انعامات حاصل ہوئے ہیں، ان میں ایک قیمتی نعمت اور بیش بہا دولت ، دعا کی دولت اور انعام ہے۔ سینکڑوں ماثور و منقول دعائیں، تو وہ ہیں، جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کو سکھائیں اور ان کے واسطہ سے یہ قیمتی ، جامع اور موثر دعائیں ہم کو ملیں، جن کی جامعیت اور الفاظ و معانی کی بلاغت و فصاحت پر دنیا کے ادباء اور شعراء بھی سر دھنتے ہیں، جس کی جامعیت اور اثر پذیری کی مثال کسی اور زبان و ادب میں نہیں ہے، صرف طائف کے موقع کی دعا ہی، اس کی مثال کے لئے کافی ہے، دنیا میں خدا کے سامنے درخواست، فریاد، التجا اور اپنی بے کسی و بے بسی کو پیش کرنے کی کوئی مثال کہیں اور نہیں ملتی۔۔۔۔۔

دعا میں انسان اپنے رب العزت سے راز و نیاز کی باتیں کرتا ہے، اپنی اور امت کی بگڑی بنانے کی درخواست کرتا ہے، وہ خدا کے سامنے اپنی عاجزی، بے کسی، فروتنی اور بے بسی کا اظہار کرتا ہے، اللہ کو اپنے بندے کی یہ ادا بہت پسند آتی ہے، اور اس کے عرض و مدعا کو سن کر اس کو نواز دیتا ہے،اللہ تعالیٰ نے دعا کے اندر اتنی تاثیر رکھی ہے، کہ اگر بندہ صدق دل، خلوص نیت اور سچے جذبہ سے اللہ سے مانگتا ہے، تو اس کی دعا اللہ ضرور قبول کرلیتا ہے۔ دعا کے اندر یہ طاقت ہے کہ وہ تقدیر کو بھی بدل دیتی ہے، تقدیر مبرم تو نہیں، لیکن تقدیر معلق میں تبدیلی پیدا ہوجاتی ہے۔ مولانا سید حسین احمد مدنی رح کے بارے میں آتا ہے کہ وہ تہجد کی نماز کے بعداللہ تعالیٰ سے اس انداز سے رو رو کر گریہ و زاری کے ساتھ دعا کرتے تھے، اور اللہ تعالیٰ سے اپنی بات منوانے کی درخواست کرتے تھے، جیسے بچے اپنے والدین کے سامنے ضد کرکے رو رو کے اپنی ضرورت اور مطالبات منواتے ہیں۔ آج ہماری دعا میں وہ درد،وہ سوز،وہ تڑپ ،وہ طلب ، وہ خوشامد، وہ بےچینی، وہ عاجزی اور الحاح نہیں پایا جاتا ہے، جس سے دعائیں بارگاہ رب العزت میں قبول ہوتی ہیں اور بندے کی آرزوئیں اور تمانئیں پوری ہوتی ہیں۔۔ اللہ تعالیٰ تو اپنی شان کے مطابق عطا کرتا ہے، شرط یہ کہ بندہ اسی جذبہ سے مانگے تو سہی۔۔
مشہور واقعہ ہے کہ محمود غزنوی کا دور تھا، ايک شخص کی طبیعت ناساز ہوئی تو طبیب کے پاس گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور کہا کہ مجھے دوائی بنا کے دو! طبیب نے کہا کہ دوائی کے لئے جو چیزیں درکار ہیں ، سب ہیں سوا شہد کے تم اگر شہد کہیں سے لا دو، تو میں دوائی تیار کئے دیتا ہوں، اتفاق سے موسم شہد کا نہیں تھا ۔۔
اس شخص نے حکیم سے وہ ڈبیا پکڑی اور لوگوں کے دروازے کھٹکھٹانے لگا، مگر ہر جگہ مایوسی ہوئی،کہیں کامیابی نہیں ملی۔۔۔۔۔۔
جب مسئلہ حل نہ ہوا تو وہ بادشاہ وقت محمود غزنوی کے دربار میں حاضر ہوا ۔۔۔
کہتے ہیں وہاں ایاز نے دروازہ کھولا اور دستک دینے والے کی رواداد سنی، اس نے وہ چھوٹی سی ڈبیا دی اور کہا کہ مجھے اس میں شہد چاہیے ایاز نے کہا آپ تشریف رکھیئے میں بادشاہ سے پوچھ کے بتاتا ہوں ۔۔
ایاز وہ ڈبیا لے کر بادشاہ کے سامنے حاضر ہوا اور عرض کی کہ بادشاہ سلامت ایک سائل کو شہد کی ضرورت ہے ۔
بادشاہ نے وہ ڈبیا لی اور سائیڈ میں رکھ دی، ایاز کو کہا کہ تین کین شہد کے اٹھا کے اس کو دے دیے جائیں ۔
ایاز نے کہا حضور اس کو تو تھوڑی سی چاہیے ۔۔
آپ تین کین کیوں دے رہے ہیں ؟
بادشاہ نے ایاز سے کہا: ایاز وہ مزدور آدمی ہے ,اس نے اپنی حیثیت کے مطابق مانگا ہے،ہم بادشاہ ہیں، ہم اپنی حیثیت کے مطابق دیں گے۔
مولانا رومی فرماتے ہیں :
آپ اللہ پاک سے اپنی حیثیت کے مطابق مانگیں وہ اپنی شان کے مطابق عطا کریگا شرط یہ ہے کہ مانگیں تو سہی ۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
علماء نے لکھا ہے کہ دعا بندے کی پکار اور رب کے حضور میں اس کی درخواست ہے ،ایک مسلم و مومن شخص خدا کو چھوڑ کر کسی دوسرے کو نہیں پکارتا ۔اس کی زبان پر خدا کا ذکر ہوتا ہے ،خدائے واحد کی عظمت و کبریائی کے اظہار کے لئے اس کی زبان وقف ہوتی ہے ۔اس کے عمل میں ساری کائنات اس کی ہمنوا ہوتی ہے ۔مومن صرف اپنے رب سے مانگتا ہے ،اسی سے سوال کرتا ہے ،اسی کو مشکل کشا سمجھتا ہے ،اسی کو حاجت روائی کے لئے پکارتا ہے ،حالات کی اصلاح کے لئے اسی سے رجوع کرتا ہے،اسی کو اپنا پناہ دہندہ اور کار ساز سمجھتا ہے ،یہی اس کا دین اور ایمان ہے ۔۔ مومن اور مسلم مکلف اور پابند ہے کہ وہ صرف خدا کو پکارے اور صرف اسی سے اپنی امیدیں وابستہ رکھے ۔۔
دعا جو عبادت کا مغز، حاصل، لب لباب اور خلاصہ ہے، دعا کا ہماری زندگی سے گہرا ربط و تعلق ہے ۔وہ شخص جو خدا کی ہدایت کے مطابق نظام زندگی کو استوار کرنا چاہتا ہے ۔اسے ہر وقت اس کی ضرورت ہوتی ہے کہ خدا کی توفیق اور مدد اس کے شامل حال ہو ۔اس کے بغیر وہ ایک قدم بھی راہ حق پر نہیں چل سکتا اور نہ اس کے بغیر وہ ان شیاطین انس و جن سے مقابلہ کرسکتا ہے ،جو اس کو حق سے برگشتہ و منحرف کرنے کے لئے ہمہ وقت اپنا زور صرف کرتے رہتے ہیں ۔
لیکن افسوس کہ آج اس کا کماحقہ اہتمام ہی ہماری زندگی میں نہیں ہے، ہم صرف رسمی طور پر ہاتھ اٹھا لیتے ہیں اور دعا کر لیتے ہیں، اس میں یقین، خلوص، درد ، تڑپ اور اللہ سے الحاح اور اصرار نہیں ہوتا، جس کی وجہ سے ہماری دعا ہمارے نصیبہ کو نہیں بدل پاتی ہے۔۔۔ اگر مومن بندہ صدق دل سے دعا کرے اور اس کے جو تقاضے،آداب اور شرائط ہیں اس کی رعایت کرے تو اللہ اس کی دعا ضرور سنتا ہے، کبھی فوری کبھی دیر سے اور کبھی اس کے بدلے میں کوئی اور چیز عطا کرتا ہے۔۔۔ مومن بندے کی کوئی دعا رد نہیں ہوتی ہے۔۔۔ الا یہ کے وہ دعا کرنے والا خلاف شرع چیز مانگے یا مال حرام سے بچتا نہ ہو۔۔۔۔
دعا کا اہتمام ہر مومن کو کرنا چاہیے، کیونکہ دعا عبادت کا خلاصہ اور مغز ہے، اگر بندہ اللہ سے مانگنا چھوڑ دیتا ہے تو اللہ اس سے ناراض ہوجاتا ہے۔۔۔ اس لیے ہر ایک کے لئے ضروری ہے کہ وہ اللہ سے ضرور مانگے اور اپنی حیثیت کے مطابق مانگے اللہ اسے اپنی شان کے مطابق عطا فرمائیں گے۔۔۔۔

دعاء کے معنی پکارنے اور مانگنے کے ہیں، انسان کا اپنے خالق و رازق سے مانگنا دعاء ہے۔۔ اس محتاج انسان کو جگہ جگہ دعا کی ضرورت ہے، محتاج انسان کی ضرورت پوری کرنے والا صرف وہی قادر مطلق ہے، جو ہر ایک کی سنتا ہے اور جس کا وجود ضروری ہے اور جو ازلی اور ابدی ہے۔۔۔ جس کے ایک اشارہ پر کائنات متحرک رہتی ہے، جس کے حکم سے مہر و ماہ لوگوں کے لئے اپنی آنکھوں کو جلاتا ہے اور پاوں تھکاتا ہے، جن سے اس کا کوئی نفع و نقصان متعلق نہیں، یہ ذات خالق کائنات کی ہے۔۔۔ جس کے خزانہ قدرت میں ہر چیز اتھاہ اور بے پناہ ہے۔۔ خلاصہ یہ کہ محتاج مطلق کا قادر مطلق کے سامنے ہاتھ پھیلانا دعاء ہے۔۔
انسان قول و عمل کے ذریعہ ناگواری کا اظہار کرے نہ کرے تو سوال و طلب پر کم سے کم دل میں تکلیف، اورگرانی محسوس کرتا ہے۔۔ لیکن اللہ اکبر خدا کی شان یہ ہے کہ سوال ہی اس کو سب سے زیادہ محبوب ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی چیز اللہ کو دعاء سے زیادہ محبوب نہیں ہے اور اس کی شان کریمی یہ ہے کہ دست سوال کو خالی واپس کرتے ہوئے حیاء کرتا ہے ، اس لیے تو آقا مدنی ﷺ نے دعا کی خاص ترغیب دی اور اس کو عبادت کا مغز قرار دیا۔۔۔۔ (ترمذی) ۔ ۔۔۔۔۔
ایک حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ،، دعا مومن کا ہتھیار ہے اور دین کا ستون اور آسمان و زمین کا نور ہے ۔( حاکم فی المستدرک عن ابی ھریرہ رض)
ایک جگہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ،، کہ اللہ تعالیٰ سے اس کا فضل مانگا کرو ،کیونکہ اللہ تعالیٰ سوال اور حاجت طلبی کو پسند فرماتا ہے اور سب سے بڑی عبادت یہ ہے کہ سختی کے وقت آدمی فراخی کا انتظار کرے ۔(ترمذی عن ابن مسعود رض)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دعا سے عاجز نہ ہو کیونکہ دعا کے ساتھ کوئی ہلاک نہیں ہوتا ۔( ابن حبان ۔حاکم عن انس رض)
غرض دعا کے اصل معنی تو پکارنے کے ہیں ،لیکن اکثر استعمال کسی حاجت و ضرورت کے لئے اللہ کو پکارنے کے لئے ہوتا ہے ، کبھی مطلق ذکر اللہ کو بھی دعا کہا جاتا ہے ۔ امت محمدیہ کا خاص اعزاز ہے کہ ان کو وقال ربکم ادعونی استجب لکم الخ کی آیت کے ذریعہ دعا مانگنے کا حکم دیا گیا اور اس کی قبولیت کا وعدہ کیا گیا اور جو دعا نہ مانگے اس کے لئے وعید آئی ہے ۔حضرت قتادہ رح نے کعب احبار سے نقل کیا ہے کہ پہلے زمانے میں یہ خصوصیت انبیاء کرام کی تھی کہ ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم ہوتا تھا کہ آپ دعا کریں میں قبول کروں گا ۔امت محمدیہ کی یہ خصوصیت ہے کہ یہ حکم تمام امت کے لئے عام کردیا گیا ۔( ابن کثیر)

یہ بات یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ بندہ جو اللہ سے مانگتا ہے وہ قبول ہوتی ہے ،مگر بعض اوقات انسان یہ بھی دیکھتا ہے کہ دعا مانگی وہ قبول نہیں ہوئی اس کا جواب یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ،، کہ مسلمان جو بھی دعا اللہ سے کرتا ہے، اللہ اس کو عطا کرتا ہے بشرطیکہ اس میں کوئی گناہ یا قطع رحمی کی دعا نہ ہو اور قبول فرمانے کی تین صورتوں میں سے کوئی صورت ہوتی ہے ایک یہ کہ جو مانگا وہ مل گیا ،دوسرے یہ کہ اس کی مطلوب چیز کے بدلے اس کو آخرت کا اجر و ثواب دیدیا گیا ۔ تیسرے یہ کہ مانگی ہوئی چیز تو نہ ملی مگر کوئی آفت و مصیبت اس پر آنے والی تھی وہ ٹل گئی ۔( مسند احمد ۔ تفسیر مظہری)۔۔۔۔۔۔
قرآن مجید میں بظاہر قبولیت دعا کے لیے کوئی شرط نہیں ۔یہاں تک کہ مسلمان ہونا بھی قبولیت دعا کی شرط نہیں ہے ۔کافر کی بھی دعا اللہ تعالیٰ قبول فرماتا ہے ۔یہاں تک کہ ابلیس کی دعا تاقیامت ژندہ رہنے کی قبول ہوگئی ۔نہ دعا کے لیے کوئی وقت شرط نہ طھارت اور نہ باوضو ہونا شرط ۔ مگر احادیث معتبرہ میں بعض چیزوں کو دعا کے لیے رکاوٹ بتایا گیا ہے ۔ان چیزوں سے اجتناب لازم ہے ۔ جیسا کہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بعض آدمی بہت سفر کرتے ہیں اور آسمان کی طرف دعا کے لیے ہاتھ اٹھاتے ہیں اور یا رب یا رب کہہ کر اپنی حاجت مانگتے ہیں مگر ان کا کھانا حرام ۔پینا حرام ۔لباس حرام ۔ان کو حرام ہی سے غذا دی گئی تو ان کی دعا کہاں قبول ہوگی ۔۔ مسلم شریف ۔۔۔
اسی طرح غفلت و کوتاہی لاپرواہی کے ساتھ بغیر دھیان دئے دعاء کے کلمات پڑھیں تو حدیث میں اس کے متعلق بھی آیا ہے کہ ایسی دعا بھی قبول نہیں ہوتی ۔( ترمذی عن ابی ھریرہ رض)

اس وقت پوری دنیا میں اور خاص طور پر ہندوستان میں ہم مسلمان جن مشکلات اور ناموافق حالات کا سامنا کر رہے اور جس طرح باطل طاقتیں اور حکومت وقت ہم کو بے بس اور مجبور کر رہی ہے اور مسلمانوں کی عزت و آبرو اور جان ومال کے پیچھے پڑی ہے اور جس کسم پرسیی میں ہم لوگ جی رہے ہیں ، اس کی کاٹ کے لئے اور اس کے خاتمہ کے لئے قانونی چارہ جوئی اور تدبیر بھی ضروری ہے ، حکومت و انتظامیہ سے گفت و شنید کی بھی ضرورت ہے، لیکن اس سے لاکھ گناہ زیادہ ضرورت ہے کہ ہم پہلے اللہ کے حضور توبہ و استغفار کریں اپنی کوتاہیوں اور کمیوں پر نادم اور شرمندہ ہوں اور صدق دل سے درد و سوز کے ساتھ دعاؤں میں مشغول ہوجائیں اور اپنا حال اور ماجرہ سنا کر اس کی ذات کواپنی طرف متوجہ کرلیں ۔ ان شاءاللہ اگر دعا میں یہ کیفت پیدا کرلیں گے تو خدا کو ہماری حالت زار پر ترس آئے گا اور دشمن کے سارے ناپاک عزائم اور ارادے خاک میں مل جائیں گے ۔۔
آئیے ہم سب عہد کریں کہ ہم سب اپنے رب سے مانگیں گے، اس کے سامنے ہاتھ پھیلائیں گے، اس کے سامنے اپنی ضرورت رکھیں گے، اس کی ذات سے رحم و کرم امن و امان اور سکون و عافیت کی بھیک مانگیں گے، اور یہ کہ اپنے مقام کے مطابق مانگیں گے، یقیناً وہ اپنی شان۔ کے مطابق عطا فرمائیں گے۔

تحریر : محمد قمر الزماں ندوی
استاد: مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ 9506600725
ناشر / مولانا علاؤ الدین ایجوکیشنل سوسائٹی جھارکھنڈ 9506600725

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے