پھر ایک مجاہد نے چمن خون سے سینچا

وہ پیکرِ الفت وہ ملنسار مسیحا

اسلام کی چودہ سو سالہ تاریخ شہداءکی قربانیوں سے بھری پڑی ہے ۔ تاریخ کا ہر ورق ان کے پاکیزہ خون سے معطر ہے ،عالم اسلام کے ان جری سپوتوں نے ہمیشہ شجرِ اسلام کو اپنے خون سے سینچا، اس چمن کی آبیاری میں ہمیشہ خود کام آئے۔
جب بھی عالمِ اسلام پر کفر کی یلغار ہوئی تو انہیں شہداوغازیوں کے قافلے ہرجگہ اپنے دین کی سربلندی کے لیے پہنچے۔
سرزمین فلسطین بھی مہبطِ انبیاء ہونے کے ساتھ ساتھ ہمیشہ سے ہی شہدا اور غازیوں کا مسکن رہاہے۔
اس مردم خیز مٹی نے القدس کی حفاظت کے لئے ایسے جری سپوت دیے ،جنہوں نے مسجد اقصی کی پاسبانی کی خاطر اپنا جان ومال، اولاد واعزا سب داؤ پر لگادیے انہی جانثارانِ صدق وصفا میں مجاہد اعظم یحیٰی السنوار رحمہ اللہ ہیں۔

ولادت باسعادت

یحیی سنوار 19 اکتوبر 1962 کو غزہ کے خان یونس کے ایک کیمپ میں یہ مرد مجاہد پیدا ہوا۔

تعلیم وتربیت

خان یونس کے اسکول میں ہی ابتدائی تعلیم حاصل کی ،بعد ازاں انہوں نے غزہ کی اسلامک یونیورسٹی سے عربی میں بیچلر کی ڈگری حاصل کی۔

ابتدائی اور یونیورسٹی کی تعلیم کے بعد کی مشغولیت

پانچ سال تک یونیورسٹی کے کونسل میں خدمت انجام دیں اس دوران کونسل کے چیئرمین اور وائس چئیرمین بھی رہے ۔
یحییٰ السنوار نے اپنی یونیورسٹی کی تعلیم کے دوران طالب علم کی ایک نمایاں سرگرمی کی تھی، کیونکہ وہ اسلامی بلاک کے ایک فعال رکن تھے، جو فلسطین میں اخوان المسلمون کی طلبہ کی شاخ ہے ۔
یحیی سنوار کو ایسے ہی غزہ پٹی کے صدر یا پھر سربراہ مقرر نہیں کیا گیا؛ بلکہ اس مرد مجاہد نے کئی گرفتاریاں اور اسرائیل کے مظالم۔ برداشت کر کے اس مقام کو حاصل کیا اور اسرائیل کو ناک میں دم کر دیا۔
یحیی سنوار 61 برس کے تھے اور انہیں عرف عام ابو ابراہم کے نام سے جانا جاتا تھا۔

سیاسی سرگرمیاں اور یحیٰی سنوار شہید کی گرفتاری

یحیی السنوار 1982 میں پہلی مرتبہ اسرائیل نے اس وقت گرفتار کیا تھا جب ان کی عمر 19 برس کی تھی وہ 4 ماہ کے لئے انتظامی حراست میں تھے ،اور اسکےبعد 6 ماہ تک جیل میں رہے یہ السنوار کی پہلی گرفتاری تھی۔

انکی زندگی نوجوانوں کےلیے مشعلِ راہ
عام طورپر پر ہم جیسے لوگوں کے لئے یہ عمر کھیل کود کے لیے ہوتی ہے لیکن یحیی سنوار جیسے مرد مجاہد کو اپنے روشن مستقبل کی فکر لاحق تھی تو عمر کی پروا کیے بغیر سلاخوں کی ہوا کھانا پسند کیا ۔

دوسری گرفتاری

انہیں انتہا پسند سرگرمیاں میں ملوث ہونے کی پاداش میں 1985 میں دوبارہ گرفتار کیا گیا تھا ،اور اس مردِ مجاہد کو 8 ماہ کی سزا سنائی گی اس کے بعد وہ رہا ہوئے یہ وہ وقت تھا جب انھوں نے حماس کے بانی شیخ احمد یاسین کا اعتماد حاصل کرلیا تھا ۔

"انسٹیٹیوٹ برائے نیشنل سکیورٹی سٹڑیز تل ابیب میں ”سینیر ریسرچر کوبی مائیکل“ کا کہناہے،
کہ شیخ احمد یاسین اور یحییٰ کے درمیان قربت میں بہت زیادہ اضافہ ہوگیا تھا ۔ یہ رشتہ السنوار کے تنظیم میں ان کے بارے میں تاثر کے حوالے سے گہرا اثر ڈالنے کا باعث بنا ۔
آپ حضرات کو ایک بات بتاتے چلوں کہ دو سال بعد یعنی 1987میں حماس کا قیام عمل میں آیا اور السنوار نے ہی گروپ کا داخلی سکیورٹی شعبہ قائم کیا جسے ”المجد“ کا نام دیا گیا وہ اس وقت صرف 25 سال کے تھے اسی پر بس نہیں ؛بلکہ”المجد“ کوئی معمولی سیکورٹی شعبہ نہیں تھا ؛بلکہ ایک مضبوط اور مستحکم سکیورٹی شعبہ تھا اس شعبہ کا کام تھا اسرائیل جاسوسوں کا سراغ لگانا اور ان کا تعاقب کرنا تھا ،اس کے علاوہ ان کا کام تھا شہر میں ہونے والے فحش کاموں کو روکنا اور اسرائیل کو تعاون کرنے والے کو سزا دینا اس کے علاوہ یہ تنظیم حماس تحریک کے داخلی سلامتی کی مضبوطی ان کا عین مقصد تھا ،اس ایک سال بعد 20 جنوری 1988 کو انہیں دوبارہ گرفتار کیا گیا اور ن پر اسرائیلی فوجیوں کے اغوا اور قتل کی قیادت کرنے اور اسرائیل کے تعاون کے شبہ میں 4 فلسطینوں کے قتل کے الزام میں مقدمہ چلایا گیا اور عمر قید کی سزا سنائی گی ۔
اپنی حراست کے دوران انہوں نے دو تنظیمی اجلاسوں کے لئے جیلوں میں حماس کے قیدیوں کی اعلیٰ قیادت کی باڈی کی قیادت سنبھالی، اور بھوک ہڑتالوں کی ایک سیریز کے دوران جیل سروس کے ساتھ صادم کو منظم کرنے میں اپنا حصہ ڈالا، جس میں 1992 1996 ، 2000، اور 2004 کئی جیلوں کے درمیان منتقل ہوتے رہے کچھ جیلوں کے نام ”المجدل“”حدارم“”رملا“”السبع“ اور ”نافہ شامل ہیں اس دوران یحیی السنوارکو صحت کے مسائل کا سامنا
کرنا پڑا ،جیسا کہ شدید پیٹ میں درد اور خون کی قے آنا،اسی طرح سر درد، درجۂ حرارت میں تیزی سے اضافے کا شکار تھے۔ قیدیوں کے زبردست دباؤ کے بعد ان کا طبی معائنہ کیا گیا، جس میں ان کے دماغ میں جمے ہوئے خون کے موجود گی کو ظاہر کیا گیا ،دماغ کی سرجری ہوئی جس میں 7 گھنٹہ کی طویل مدت لگی۔
پورے دورانِ سفرِ جیل وہ خاندانی ملاقاتوں سے محروم رہے اور انکے والد کو پورےسفرِ جیل میں صرف اور صرف دو مرتبہ ملنے کا موقعہ فراہم ہو پایا ۔
یحیی سنوار نے اپنی 23 سالہ قید کی مدت کو پڑھنے سیکھنے اور لکھنے میں صرف کیا جس کے دوران انہوں نے عبرانی زبان سیکھی اور اسرائیلی ذہنیت کو سمجھنے میں دلچسپی لی انہوں نے سیاسی سلامت اور ادب میں متعدد کتابیں اور ترجمے لکھے۔ ان کے سب سے نمایاں کاموں میں سے ہے
کارمی گیلون کی کتاب "شن بیٹ امنگ دی پیسز” کا ترجمہ، جو کہ اسرائیلی داخلی سیکورٹی سروس ( شن بیٹ ) کے بارے میں ایک کتاب ہے۔
کتاب کا ترجمہ "1992 میں اسرائیلی پارٹیاں”، جس میں اسرائیل کی سیاسی جماعتوں اور اس عرصے کے دوران ان کے پروگراموں اور رجحانات کو بیان کیا گیا ہے۔
"لونگ کے کانٹے” کے عنوان سے ایک ناول 2004 میں شائع ہوا اور اس میں 1967 سے لے کر الاقصیٰ انتفاضہ تک فلسطینیوں کی جدوجہد کی کہانی بیان کی گئی ہے ۔(کتاب "حماس: ٹرائل اینڈ ایرر” )
حماس تحریک کے تجربے اور وقت کے ساتھ ساتھ اس کی ترقی سے متعلق ہے۔
کتاب "گلوری” 2010 میں شائع ہوئی تھی اور اس میں صیہونی شن بیٹ کے معلومات اکٹھا کرنے، پودے لگانے اور ایجنٹوں کی بھرتی کرنے اور جسمانی اور نفسیاتی نقطہ نظر سے تفتیش کے ظالمانہ طریقوں اور طریقوں پر نظر رکھی گئی تھی، اس کے علاوہ نظریہ کی ترقی بھی۔ اور تحقیقات کے طریقے اور پیش آنے والی پیچیدگیاں اور ان کی حدود۔
یحییٰ سنوار کو 2011 میں رہا کیا گیا تھا، اور وہ ایک ہزار سے زیادہ قیدیوں میں سے ایک تھے جنہیں اسرائیلی فوجی گیلاد شالیت کے بدلے آزاد کیا گیا تھا جسے "آزاد کی وفاداری” کے معاہدے کا حصہ کہا جاتا تھا۔ یہ معاہدہ 5 سال سے زائد عرصے کے بعد مکمل ہوا جب شالیت نے غزہ میں قید میں گزارے، اور اسرائیل 2008 کے آخر میں پٹی کے خلاف اپنی جارحیت کے دوران اسے قید سے آزاد کرانے میں کامیاب نہیں ہوا۔

حماس کے پولیٹیکل بیورو کے طور پر انتخاب

جیل سے نکلنے کے بعد، السنوار 2012 میں تحریک کے داخلی انتخابات کے دوران حماس کے پولیٹیکل بیورو کے رکن منتخب ہوئے تھے۔ انہوں نے عزالدین القسام بریگیڈز کے عسکری ونگ کی ذمہ داری بھی سنبھالی، اور ان کے درمیان ہم آہنگی کا کام انجام دیا۔ تحریک کے پولیٹیکل بیورو اور بریگیڈز کی قیادت۔ انہوں نے 2014 میں غزہ پر اسرائیلی جارحیت کے دوران تحریک کے سیاسی اور عسکری فریقوں کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا ۔ اس جارحیت کے خاتمے کے بعد، السنوار نے فیلڈ کمانڈروں کی کارکردگی کی جامع تحقیقات اور جائزے کیے، جس کے نتیجے میں اہم رہنماؤں کو برطرف کر دیا گیا۔
2015 میں، حماس تحریک نے انہیں اسرائیلی قیدیوں کی فائل کا ذمہ دار مقرر کیا، اور انہیں اسرائیلی قبضے سے متعلق مذاکرات کی قیادت سونپی، اسی سال، ریاستہائے متحدہ امریکہ نے انہیں "بین الاقوامی دہشت گردوں” کی فہرست میں شامل کیا۔ اور اسرائیل نے اسے غزہ کی پٹی میں تخفیف کے لیے مطلوب افراد کی فہرست میں شامل کیا۔ اس عرصے کے دوران، اس نے غزہ میں حماس کی تحریک اور مغربی کنارے میں فلسطینی نیشنل لبریشن موومنٹ ( فتح ) کی زیر قیادت فلسطینی اتھارٹی کے درمیان تعلقات کو ٹھیک کرنے کی کوشش کی ، اور قومی مفاہمت کے تحت فلسطینی علاقوں میں سیاسی تقسیم کی حالت کو ختم کرنے کی کوشش کی۔ لیکن یہ کوششیں ناکامی پر ختم ہوئیں۔

السنوار کے مصر سے تعلقات

انہوں نے مصر کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے بھی کام کیا ، جہاں اس نے 2017 میں قاہرہ میں مصری انٹیلی جنس کے رہنماؤں کے ساتھ قیادت اور سیکیورٹی وفد کے ایک حصے کے طور پر ملاقات کی ، اور زندگی، سلامتی، انسانی ہمدردی اور سرحدی حالات پر معاہدے کیے گئے۔ مارچ 2021 میں، وہ تحریک کے اندرونی انتخابات میں دوسری 4 سالہ مدت کے لیے
غزہ میں حماس تحریک کے سربراہ منتخب ہوئے۔ ان کے گھر پر کئی بار بمباری کی گئی، کیونکہ 2012 میں غزہ کی پٹی پر جارحیت کے دوران، 2014 میں اور پھر مئی 2021 میں اسرائیلی فضائی حملوں کے دوران قابض طیاروں نے اس پر بمباری کی اور اسے مکمل طور پر تباہ کر دیا۔ السنوار کو ایک محتاط شخصیت کے طور پر بیان کیا جاتا ہے اور وہ عوام میں بہت کم دکھائی دیتے ہیں اور ان کا تحریک کے ارکان پر گہرا اثر ہے۔

HAARETZ

اخبار نے رپورٹ کیا ہے کہ اس نے غزہ میں حراست کے دوران
کچھ اسرائیلی قیدیوں سے ملاقات کی، اور انہیں کامل عبرانی میں بتایا کہ وہ محفوظ ترین جگہ پر ہیں اور انہیں کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچایا جائے گا۔ 6 دسمبر 2023 کو، اسرائیلی وزیر اعظم” بنجمن نیتن یاہو "نے اعلان کیا کہ اسرائیلی فوج نے سنوار کے گھر کو گھیرے میں لے لیا ہے، لیکن ان تک نہیں پہنچا تھا، فوج کے حکام کا خیال ہے کہ وہ حماس کے عسکری فوج کے باقی رہنماؤں کے ساتھ مل کر کارروائیاں کر رہے ہیں،زیر۴ زمین سرنگوں کا نیٹ ورک جسے فلانج نے بنایا تھا۔

وارنٹ گرفتاری

20 مئی 2024 کو بین الاقوامی فوجداری عدالت کے پراسیکیوٹر کریم خان نے اعلان کیا کہ انہوں نے عدالت میں نیتن یاہو، اسرائیلی وزیر دفاع یوو گیلنٹ کے خلاف وارنٹ گرفتاری جاری کرنے کی درخواست جمع کرائی ہے اور دوسری طرف سنوار، ڈیف ، اور ہنیہ
اکتوبر 2023 کے واقعات کے بعد جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کے ارتکاب کے الزام میں۔اس پڑھنے پر تبصرہ کرتے ہوئے تحریک حماس کے ایک رہنما صحافی ابو زہری نے رائٹرز کو بتایا کہ بین الاقوامی فوجداری عدالت کا فلسطینی تحریک کے 3 رہنماؤں کے خلاف وارنٹ گرفتاری جاری کرنے کی درخواست کا فیصلہ "متاثرہ اور جلاد کے برابر ہے۔” انہوں نے مزید کہا کہ عدالت کا فیصلہ اسرائیل کو اپنی ” خاتمی کی جنگ ” جاری رکھنے کی ترغیب دیتا ہے،

حافظ اسماعیل ہنیہ شہید:

ہنیہ کے بعد حماس کے سربراہ 31 جولائی 2024 کو حماس تحریک نے اعلان کیا کہ اسرائیل نے اس کے سیاسی بیورو کے سربراہ "اسماعیل ہنیہ” کو ایرانی دارالحکومت تہران میں ان کی رہائش گاہ پر اس اپارٹمنٹ پر بمباری سے ہلاک کر دیا جس میں وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ تھے ۔
اسماعیل ہنیہ ایرانی صدر مسعود پیزیشیکیان کی افتتاحی تقریب میں شرکت کے لیے تحریک کے ایک وفد کی سربراہی میں تہران میں تھیں ۔ حنیہ کو قطری دارالحکومت دوحہ میں دفن کیے جانے کے بعد ، تحریک نے ہنیہ کے لیے پس منظر کا انتخاب کرنے کے لیے اندرونی انتخابات کا آغاز کیا، اور منگل، 6 اگست 2024 کو اعلان کیا کہ اس کی شوریٰ کونسل نے متفقہ طور پر یحییٰ سنوار کو تحریک کا نیا سربراہ منتخب کیا ہے۔

سانحۂ ارتحال یحیٰی سنوار

جمعرات 17 اکتوبر 2024 کو اسرائیلی فوج اور شن بیٹ نے ایک مشترکہ بیان شائع کیا، جس میں انہوں نے غزہ کی پٹی میں قابض فوج کے آپریشن میں 3 افراد کی ہلاکت کا اعلان کیا۔ بیان میں کہا گیا ہے، "فوج اور شن بیٹ اس امکان کی چھان بین کر رہے ہیں کہ سنوار آپریشن میں مارا گیا ہے کیونکہ اس میں نشانہ بنائے گئے لوگوں کی شناخت کے بارے میں اس مرحلے پر یقینی طور پر کہنا ممکن نہیں ہے”۔
اسرائیلی آرمی ریڈیو نے کہا، "فوج غزہ کی پٹی میں سنوار کو مارنے میں کامیاب رہی۔” انہوں نے کہا کہ اسرائیلی فورسز ان کے ڈی این اے کی تصدیق کا عمل جاری رکھے ہوئے ہیں، جو انہوں نے حماس کے رہنما کی حراست میں ہونے کے بعد سے رکھا ہوا ہے۔ اسرائیلی میڈیا ذرائع نے فوج کے حوالے سے بتایا کہ رفح شہر میں السنوار کو نشانہ بنانے والے آپریشن کی منصوبہ بندی نہیں کی گئی تھی بلکہ اتفاق سے اس وقت پیش آیا جب فوج نے القسام کے 3 ارکان کو ایک عمارت میں دیکھا اور جھڑپ میں مصروف تھے۔ ان کے ساتھ جو ان کی موت کا باعث بنے، اور یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ان میں سے ایک السنور تھا۔

غم کی لہر
18 اکتوبر بروز جمعہ حماس نے اپنے رہنما یحییٰ سنوار پر سوگ منایا اور ان کی شہادت کی تصدیق کی۔ تحریک کے رہنماء خلیل الحیا نے الجزیرہ پر نشر ہونے والی ایک ویڈیو تقریر میں کہا کہ یحیی السنوار قابض فوجیوں کے ساتھ تصادم میں شہید ہوئے۔

حرفِ آخر یہ تھی مرد مجاہد یحییٰ السنوار کی حیات زندگی اور سیاسی سرگرمیاں واقعی یحییٰ السنوار کی شہادت فلسطین اور اسی طرح حماس اور غزہ کے خسارہ ہے یہی لیکن پورے امت مسلمہ کے لئے بھی خسارہ ہے اللہ تعالی انکے درجات بلند فرمائیں اور اہل خانہ اور اہل فلسطین اور اہل غزہ اور حماس کو صبرِ جمیل عطاء فرمایئے آمین ثم آمین یا رب العالمین۔

اثرِخامہ: شیخ محمود الرحمٰن القاسمی، گنٹوری آندھراپردیش
متعلم دورۂ حدیث دارالعلوم وقف دیوبند

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے