بیٹا یہ سوکھی روٹی بھی تمہارے لیے نعمت عظیم ہے کیا تم نہیں جانتے کہ ہم پناہ گزین ہیں ۔ کیمپ میں دوسرے لوگوں کی حالت بد سے بدتر ہے ۔۔۔
اگر یہ روٹی آپ کھانا نہیں چاہتے تو میں ہمسایہ کے گھر میں دے آتی ہوں ۔
ام فاطمہ دس سالہ حمران کو تنبیہ کررہی تھی ۔۔
یہ سوکھی ہے اور ہمارے پاس پانی بھی اتنا کم ہے کہ آپ دو گھونٹ ہی پینے دیتی ہیں ۔۔ حمران کا جسم کھانے کی قلت اور گرد و پیش کے حملے کی بنا پر انتہا کمزور ہوچکا تھا ہونٹ پر جمی پپڑیاں کئی دنوں کی فاقہ کشی کا اظہار کررہی تھیں ۔۔
لیکن حمران کھانے کے نام پر سوکھی روٹی کھانے کےلیے تیار نہ تھا ۔۔۔
ام فاطمہ ایک طشتری لی اس میں کچھ پانی ڈالا ، روٹی کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کر کے اسے پانی والی طشتری میں ڈال کر رکھ دیا جب روٹی کے ٹکڑے نرم پڑ گئے تو اس میں گھر میں رکھے کچھ مسالے اوپر سے ڈال دیے ۔۔ یہ نئی غذا تناول کرو میرے بیٹے ۔۔۔ تمہیں پسند آئی گی ۔۔ بھوک کی شدت نے انکار کے جواز کو ختم کردیا تھا لہذا حمران طشتری میں سے چند ٹکڑے اٹھا کر کھانے لگا۔۔۔
ﷲ ﷲ ۔۔۔۔ امی یہ تو ذائقہ دار ہے اسے آپ بنالیا کریں میں کھالیا کروں گا ۔۔
ام فاطمہ کے پاس غذا کا کوئی دوسرا نعمل البدل بھی نہیں تھا ۔۔۔ لہذا سر ہلا کر رہ گئی ۔۔۔ ایجینسی سے آج کچھ روٹی مل گئی تھی وہی غنیمت ہے ورنہ پے درپے حملے کے باعث غزہ پٹی اور اطراف و اکناف کے علاقے کھنڈر میں تبدیل ہوچکے تھے ۔۔ حتیٰ کہ مریضوں کے علاقے پر بھی حملوں کی رفتار میں اضافہ ہوچکا تھا ۔۔۔ ایسی حالت میں غذائی اجناس کے ذخائر تباہ و برباد ہوچکے تھے ۔۔ چند بین الاقوامی اداروں کی جانب سے فلسطینی ایجینسی کو جو امداد فراہم کی جاتی اسی کا حصہ پناہ گزینوں میں تقسیم کردیا جاتا ۔ جبکہ کچھ لوگوں کو کھالی ہاتھ جانا پڑتا کیوں کہ چیزیں پناہ گزینوں کی تعداد سے کم ہوتی ۔۔۔ ایسی صورت میں جنھیں خرد و نوش کی اشیاء نہیں ملتی وہ صبر اور دوسرے دن کی باری کے انتظار کے سوا کچھ نہیں کرسکتے ۔۔
آج گردو غبار میں حبس کا احساس زیادہ تھا ۔۔ رات بھر مسلسل اسرائیلی حملوں نے غزہ کو راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کردیا تھا ۔۔۔
ام فاطمہ رفح سے قریب خندق بناکر رہ رہی تھی ۔۔ یہ طریقہ کار فلسطینوں کی عارضی حفاظت کرتا تھا جیسے سپاہیوں کی اچانک دراندازی یا آنسو گیس چھوڑے جانے کی صورت میں خندق تک پہنچنا نا ممکن ہوتا تھا لہذا ابو الفتتاح کے شہید ہوجانے کے بعد سے ام فاطمہ حمران کے ساتھ کیمپ میں خندق کے اندر زندگی گزار رہی تھیں ۔۔ اور اسی طرح کئی خندقیں کھودی گئی تھی جس مین چند لوگ محفوظ زندگی گزار رہے تھے ۔۔
خندق کے باہر اسرائیلی جیپوں کی گشت تیز ہونے لگی ۔۔ مائیک سے اعلان کیا جارہا تھا ۔۔ یحییٰ السنوار کو مار دیا گیا ۔۔۔ حماس کا کمانڈر فوت ہوگیا ۔۔
یہ سنتے ہی خندق کے اندر افراد میں غم کی لہر دوڑ گئی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے ۔۔ عظیم قائد ، عظیم لیڈر ، عظیم انسان ۔۔۔ اخیی۔۔۔ اخیی ( میرا بھائی ، بھائی )۔۔۔ یحییٰ السنوار ۔۔۔ اخیی۔۔۔۔ ام فاطمہ کی دلدوز چیخوں نے کہرام مچا دیا ۔۔۔۔ اخیی ۔۔۔
حمران ، ابوالفتتاح کے بعد اب اپنی امی کو اس قدر زار و زار چیخ کر روتے دیکھ رہا تھا۔۔۔
یہ بہت بڑا خسارہ تھا ۔۔۔
پورا دن ام فاطمہ غم سے نڈھال دعائیں کرتی رہی ۔۔
دن کے اختتام پر ام فاطمہ اور حمران سونے کےلیے کھردری زمین پر ایک چادر پھیلا کر لیٹے تھے ۔۔
امی آپ ابو کے بعد پہلی بار اتنا روئیں ہیں کیا آپ ماموں (یحییٰ السنوار)کے بارے میں کچھ بتائیں گی تاکہ میں بھی ان کے جیسا بنوں ۔۔۔
ام فاطمہ تو اپنے بیٹے کو بہادر اور جنگجو ہی دیکھنا چاہتی تھی ۔۔۔
ام فاطمہ ماضی کے خونی اواراق کو دوہرانا شروع کردی ۔۔۔
حمران ۔۔۔ وہ انسان ایک عظیم جنگجو تھا ۔۔۔ باطل کی کھال ادھیڑ دینے والا ۔۔ غداروں کو زندہ دفن کرنے والا ۔۔۔ دشمنوں کو صف ہستی سے نابود کردینے والا ۔۔۔ وہ عظیم تھا ۔۔۔ ﷲ ہمیں اس کا بہترین نعمل البدل عطا کرے ۔۔۔
ام فاطمہ کی آنکھوں سے آنسو چپکے سے نکل کر کہیں پوشیدہ ہوگئے کہیں حمران دیکھ نہ لیں ۔۔
امی کیا وہ ابو سے بھی زیادہ بہادر تھے ۔۔۔
بیٹا جنگجو بہادر ہوتے بہت بہادر ۔۔۔ اور تمہارے ابو بھی دلیر انسان تھے ۔۔۔
لیکن یحییٰ السنوار کے پاس بہادری کے ساتھ اثر پیدا کرنے والی شخصیت تھی وہ جب مخاطب ہوتے تو لوگوں کو گرویدہ کرلیتے ۔۔۔ دشمن متاثر ہوۓ بنا نہیں رہتے۔۔
حمران جب السنوار قید میں تھے تو انہوں نے دیکھا قیدیوں پر ظلم و ستم کے روز نئے عذاب برپا کیے جاتے ۔ غذا کی مقدار کم اور مقوی غذا بھی نہیں ہوتی ۔۔ سونے کےلیے صرف رات مختص ہوتی اس میں بھی چند گھنٹوں بعد جاگنے کی شرط اگر کوئی اتفاق سے نہیں جاگا تو اس پر ایک درد دینے والی سزا مختص کردی جاتی ۔۔۔۔ دن میں اگر کسی نے سونا چاہا تو اسے رات بھر تیز روشنی کے سامنے رسیوں میں جکڑ کر بٹھایا جاتا ۔۔ قیدی آپس میں گفت و شنید نہیں کرسکتے تھے ۔۔ بیت الخلاء کےلیے بھی ایک وقت متعین تھا اس سے پہلے اور بعد میں جانے کی گنجائش نہیں تھی ۔۔ اگر کسی کو حاجت ہوتی تو اس پر بھی سزا دی جاتی ۔۔۔ قیدیوں کے ساتھ جانوروں سے بھی بدتر سلوک کیا جاتا ۔۔۔ لہذا السنوار نے ایک ترکیب سوچی اور کسی طریقے سے اشاروں کنایوں کے ذریعے اکثر قیدیوں کو اس بات پر رضامند کرلیا کہ وہ بھوک ہڑتال کریں تاکہ ان کی بنیادی ضروریات کو پورا کیا جاۓ اس طرح پہلی مرتبہ اسرائیلی قید خانے میں تبدیلی لائی گئی اور قیدیوں پر سے چند پابندی ہٹالی گئی ۔۔
امی کیا ماموں جان کو جیل میں ہی شہید کردیا گیا ۔۔ نہیں بیٹے وہ زندگی کے ٢٢ سال قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے کے بعد رہا ہوکر آۓ تو ان کے عزائم مزید پختہ ہوگئے تھے ۔۔ وہ مخلتف تنظیموں کو متحد کرنے لگے ۔۔۔ الشائطی ، القاسم ، الفتح ، حماس کو متحد کردیا اور دشمنوں کو شکست دینے کی ترکیب کرتے رہیں ۔۔۔ آخر کار وہ دن بھی آیا جب پوری دنیا نے دیکھا اس عظیم جنگجو نے جدید ترین مسلح سے لیس ملک پر چند میزائیل کے حملے سے یہ ثابت کردیا کہ باطل اگرچہ طاقتور کیوں نہ ہو فتح حق کی ہوتی ہے ۔۔۔
بیٹا وہ عظیم جنگجو دشمنوں کے نرغے میں بھی دلیری و بہادری کے ساتھ ڈٹے رہنے والے انسان تھے ۔۔۔ اس نے اسرائیلی فوج کو آئینہ دکھایا ہے ان کی ذلالت کا ۔۔ ان کے غرور کو پاش پاش کیا ہے ۔۔۔ اسرائیلی کمانڈر کو اپنے دفاعی نظام پر بلا کا اعتماد تھا ۔۔۔ ۷ اکتوبر کے حملے نے ان کے اس اعتماد اور ناقص دفاعی نظام کی قلعی کھول دی ۔۔
ہم اسے فرشتہ کہتے ہیں ۔۔
وہ طالبِ علمی کے دور سے نڈر تھا ۔۔۔ مسجد اقصیٰ کے صحن میں بیٹھ کر اس کی حفاظت کی ہے ۔۔ قابض دھمکاتے رہے گھسیٹتے رہے لیکن اس کی استقامت پر قربان نہ وہ خود وہاں سے ہٹے اور نہ ہی وہاں جمع لوگوں کو ٹس سے مس ہونے دیا ۔۔۔ وہ قائد تھے حق کے قائد ۔۔۔
امی ماموں (یحییٰ السنوار) قید و بند کی صعوبتوں کا تذکرہ کرتے تھے میں نے بھی کبھی کبھی سنا تھا ۔۔ وہ کہتے تھے مومن مسلسل آزمائیشوں میں مبتلا ہوتا ہے ۔۔
ہاں میرے بیٹے مؤمن کی آزمائشیں لحد میں جانے کے بعد ہی ختم ہوتی ہیں ۔۔۔
وہ کئی ایام کینسر کے مرض میں مبتلا رہیں ۔۔۔ لیکن بیٹا کینسر بھی ان کے عزائم کو ہلا نہ سکا ۔۔۔ ﷲ نے شفا یاب کیا ۔ اور وہ عظیم شخص
خدا کی راہ میں شہید ہونے کی دعا کرتا رہا ۔۔۔ وہ چاہتے تو قید سے رہائی کے بعد بیرون ملک جاکر بھی اپنی کارروائی جاری رکھ سکتے تھے لیکن انہوں نے سر زمین حق کو چنا ، شہادت کو چنا اور میرے ﷲ نے انہیں ایسی شہادت نصیب کی کہ یہاں کا بچہ بچہ عزائم و ہمت کا پیکر بن کر ابھرا ہے ۔۔۔
وہ رپوش ہوکر حماس کی مسلسل رہنمائی کرتے رہیں ۔۔ لیکن غدار ۔۔۔ آواز مین سختی درآئی ۔۔ کچھ اپنے ہی لوگ غربت اور ایمان کی کمزوری کے باعث اسرائیلی فوج کی جاسوسی میں حصہ لینے لگے اور انہوں نے یحیٰ آلسنوار کی نقل و حرکت کو برابر اسرائیلی افواج کو بتاتے رہے جس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے ۔۔ وہ شھید ہوگئے ۔۔۔ وہ عظیم جنگجو شہد ہوگیا ۔۔
آپ غزہ کے دیگر لوگوں کی طرح کسی ہیرو کی طرح شہید ہوئے۔ آپ کسی ٹنل میں نہیں چھپے، قیدیوں کے پاس پناہ نہیں لی بلکہ جب آپ کا دشمن سے سامنا ہوا تو آپ اپنے ساتھیوں کے ساتھ ان کا مقابلہ کر رہے تھے۔۔۔
ﷲ ہمیں اس کا بہترین نعمل البدل عطا کرے ۔۔۔
حمران بہادری و دلیری کے اس پیکر کے قصے کو سن کر جوش اور ولولے سے بھر گیا ۔۔۔
میں بھی فلسطین تحریک میں حصہ لوں گا ۔۔ امی میں بھی ماموں السنوار کی طرح مظاہرہ کروں گا ۔۔ ہم سب السنوار بنیں گے ۔۔۔ بہادر ، جرات مند ، دلیر ، بے خوف ۔۔۔ دشمنوں کے نرغوں میں داخل ہوکر انہیں ختم کرنے والے ۔۔۔ ایک یحییٰ السنوار کی شہادت ہزاروں السنوار پیدا کرے گی ۔۔۔ یہ ہی حق کی کمال صفت ہے کہ یہ کبھی دبتا نہیں ، جھکتا نہیں مرتا نہیں بلکہ یہ ابھرتا ہے ، پھیلتا ہے اور پھر ایک دن ایسا آتا ہے جب حق غالب آجاتا ہے ۔۔۔
ازقلم: خان شبنم بنت محمد فاروق