تیرے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزول کتاب
گرہ کشا ہے نہ رازی نہ صاحب کشاف
ڈاکٹر علامہ اقبال مرحوم نے ایک جگہ لکھا ہے،اور متعدد مواقع پر اپنے محبین اور متعلقین کے سامنے فرمایا بھی تھا کہ جب میں سیالکوٹ میں پڑھتا تھا، تو صبح اٹھ کر روزانہ قرآن پاک کی تلاوت کرتا تھا ،والد محترم درود شریف اور دیگر وظائف سے فرصت پاکر آتے اور مجھے دیکھ کر گزر جاتے،ایک دن صبح کو میرے پاس سے گزرے،تو مسکرا کر فرمایا،، کہ کبھی فرصت ملی تو تم کو ایک بات بتاؤں گا،، ۔
میں نے دو چار دفعہ بتانے کا تقاضا کیا، تو فرمایا کہ جب امتحان دے لو گے تب، جب امتحان دے چکا اور لاہور سے مکان آیا تو فرمایا،جب پاس ہو جاؤ گے، تب ،جب پاس ہوگیا اور پوچھا تو فرمایا کہ بتا دوں گا، ایک دن صبح کو جب حسب دستور قرآن کی تلاوت کر رہا تھا، تو وہ میرے پاس آگئے اور فرمایا ،، بیٹا ! کہنا یہ تھا کہ جب قرآن پڑھو تو یہ سمجھو کہ قرآن تم ہی پر اترا ہے، یعنی اللہ تعالیٰ خود تم سے ہم کلام ہے،،
اس واقعہ سے ہم مسلمانوں کو سبق لینے کی ضرورت ہے کہ آج ہمارا رویہ قرآن مجید کے ساتھ کیسا ہے؟ کیا ہم قرآن کو اس کی روح، معانی، مفہوم اور گہرائی اور گیرائی کے ساتھ پڑھتے ہیں؟ کیا ہمارے دل اور ضمیر پر نزول کتاب کی کیفیت ہوتی ہے؟ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ آج لوگ زیادہ تر قرآن کو نقالی سے پڑھتے اور یہ سمجھتے ہیں کہ اس میں خدا ہم سے ہم کلام نہیں ،یا ایھا الذین آمنوا اور یا ایھا الناس چودہ سو سال پہلے والوں کے لیے ہے،ان کو خطاب کیا جارہا ہے ،جس سے ان کا کوئی سروکار نہیں،اسی غفلت اور بے توجہی کا نتیجہ ہے کہ ہماری تلاوتیں کیفیت اور تاثیر سے خالی ہیں ۔
علامہ اقبال مرحوم کہتے ہیں کہ والد صاحب کا یہ فقرہ میرے دل میں اتر گیا اور اثر کرگیا اور اس جملہ کی لذت دل میں اب تک محسوس کرتا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
علامہ اقبال مرحوم نے اپنے لائق باپ کی فاضلانہ اور حکیمانہ بات کو اپنے ایک شعر میں بڑی خوبصورتی سے موزوں کیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ
تیرے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزول کتاب
گرہ کشا ہے نہ رازی نہ صاحب کشاف
دوستو!
قرآن مجید آخری آسمانی، ربانی اور الہامی کتاب ہے، اس کتاب کی اہمیت اور عظمت و شان کے لیے یہی کافی ہے کہ خود اللہ رب العزت نے اس کے بارے میں فرمایا ،، انا عرضنا الامانة علی السموات و الأرض و الجبال فابین ان یحملنھا و اشفقن منھا و حملھا الانسان، انہ کان ظلوما جھولا ۔ الاحزاب 72۔۔
ہم نے پیش کی یہ امانت آسمانوں اور زمین کو اور پہاڑوں کو پھر کسی نے قبول نہ کیا کہ اس کو اٹھائیں اور اس سے ڈر گئے اور اٹھا لیا، اس کو انسان نے ، بیشک وہ ظلوم و جہول ہے ۔
اور دوسری جگہ ارشاد فرمایا ،، لو انزلنا ھذا القرآن علی جبل لرائیته خاشعا متصدعا من خشیة اللہ ،، الحشر ۔21.
اگر ہم اس قرآن کو کسی پہاڑ پر نازل کرتے تو تم دیکھتے کہ وہ دب جاتا اور پھٹ جاتا خدا کے خوف سے ۔
قرآن مجید وہ کتاب حکمت و معرفت تدبر و دانائی علم و بصیرت اور سر چشمہ فلاح و ھدایت ہے، جس کی مدح و توصیف میں انسان کی زبان قال نہ صرف یہ کہ عاجز و قاصر ہے، بلکہ انسان کا مادی فہم و ادراک عقل و شعور اس کی وسعت و رفعت اور عظمت و آفاقیت کا مرقع پیش کرنے پر بھی کما حقہ قادر نہیں ۔آج بھی انسان جس قدر اس میں غور و خوض اور تدبر و تفکر کرتا جائے گا اس کے رموز و اسرار اور حکمت و دانائی نیز معرفت انسان پر آشکارا اور مشعل راہ ہوتے رہیں گے ۔
تاہم اقبال کی نظر میں اس کتاب مبین سے مکمل طور پر اور کماحقہ مستفید ہونے اور اس کے علم و حکمت اور ہدایت و معرفت سے دل و دماغ کو منور و مجلا کرنے ،اس کے جمال و جلال اور صباحت و آہنگ سے رگ جاں میں خون حرارت دوڑانے اور اس کی حلاوت و سحر انگیزی سے روح کو سرشار کرنے کے لیے ایمان و یقین اور کامل اعتماد کی ضرورت ہے کہ یہ کتاب اس ذات باری کی نازل کردہ ہے جو کائنات کا خالق اسرار حیات و کائنات کا رازداں ،تمام مخلوقات کا نگہبان و بہی خواہ اور تمام مہربانوں میں سب سے بڑا کریم مہربان ہے ۔جب مومن بندہ اس یقین و اعتماد اور ایمان و اتقان کے ساتھ تلاوت کرتا ہے تو قرآن مجید کی ایک ایک سورہ اس کے لیے روشنی کا مینار ایک آیت اس کے لیے شمع فروزاں اور اس کا ایک ایک لفظ اپنی صوت و آہنگ کے ساتھ نغمئہ حیات کی پرکیف لذت و سرور سے سرشار کرتا چلا جاتا ہے ۔اور بندئہ مومن یہ محسوس کرتا ہے کہ یہ چودہ سو سال قدیم کتاب نہیں بلکہ اس کے سیاق و سباق حالات و واقعات حکمت و معرفت سے بھری آیات اور ندرت و جدت سے لبریز اسلوب و آہنگ تازہ بہ تازہ نو بہ نو خم بہ خم اور جام و جم اہل ظرف اور طلب گار ہدایت کے لئے اترتے چلے جارہے ہیں اور اس کے نور و سرور سے مومن کا ضمیر ،اس کا قلب اور اس کے رگ و ریشے گنگنا اٹھتے ہیں اور اس کا ضمیر انوار و معرفت کی ایسی جلوہ گاہ ہوتا ہے جہاں امام رازی کی تمام تر نکتہ سنجیاں ہیچ اور امام زمخشری کی تمام عقدہ کشائیاں بے مایہ ہوکر رہ جاتی ہیں اور مومن کا دل پکار اٹھتا ہے ۔۔
آشکارا ہیں مری آنکھوں پر اسرار حیات
کہہ نہیں سکتے مجھے نومید پیکار حیات
(مستفاد از مضمون مولانا زاہد حسین ندوی/ معہد دار العلوم ندوة العلماء لکھنؤ پندرہ روزہ تعمیر حیات شمارہ اکتوبر ۔نومبر 2004ء)
ازقلم : محمد قمر الزماں ندوی
مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ 9506600725