اپنے من میں ڈوب کر پاجا سراغ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنتا، نہ بن، اپنا تو بن
انسان قربانی، جفاکشی، جانفشانی، جدوجہد اور محنت و مجاہدہ ہی کے ذریعہ سے مقام بلند اور اعلیٰ رتبہ حاصل کرتا ہے، بے محنت پیہم کسی انسان کا کوئی جوہر نہیں کھلتا، کسی کو بغیر مجاہدہ اور بغیر مشقت برداشت کیے منزل نہیں ملتی ، یہی اس نظامِ کائنات کا اصول و ضابطہ ہے، کچھ استثنائی شکلیں ہوسکتی ہیں، لیکن وہ شاذ ہیں اور الشاذ کالمعدوم ہوتا ہے ،یعنی وہ ہونا نہ نہ ہونے کی طرح ہے، اس پر عمومی حکم نہیں لگایا جاسکتا۔
کوشش، محنت اور جد و جہد کے بعد کامیابی اور ترقی کے لیے ایک بنیادی اصول اور ضابطہ خود پر بھروسہ، اعتماد، آتم نربھر،اور خودی و خود اعتمادی بھی ہے، نیز اپنی صلاحیت کا ادراک اور احساس بھی، اس کے بغیر کامیابی کا تصور اور منزل کو پانے کی امید دیوانے کا خواب ہی سمجھا جائے گا،۔ اس لیے انسان کے لیے ضروری ہے کہ پہلے وہ اپنے اندر خود و خود اعتمادی پیدا کرے، اپنی حیثیت ،اہمیت اور مقام کو سمجھے اور اس کو پہلے اپنی قدر دانی کا احساس ہو، اسی لیے کہا جاتا ہے، من عرف نفسہ فقد عرف ربہ۔ اپنی قابلیت اور صلاحیت کو نکھارنے کے لیے خود محنت اور جد و جہد کرے، دوسرے سے امید لگانا کہ وہ اس کی کامیابی و کامرانی میں جی جان لگا دیں گے، وہ اس کی شخصیت کو نکھار دیں گے یہ غلط فکر اور سوچ ہے، دوسرے لوگ، سہارا کچھ تو بن سکتے ہیں، لیکن منزل اور ہدف تک آپ اپنی محنت، کوشش،لگن،شوق، اور مجاہدہ ہی سے پہنچ سکتے ہیں اس کے بغیر نہیں۔
ہمارے ایک جواں سال ندوی فاضل ہیں، جو اپنی زود نویسی میں اپنی مثال آپ ہیں ،ان کی ایک تحریر اس عنوان پر بہت اچھی لگی، انہوں نے اس میں انہی خیالات کا اظہار کیا ہے، جوکچھ راقم الحروف نے اوپر لکھا ہے، مناسب لگا کہ خود مزید کچھ نہ لکھ کر اس تحریر کو ہی من و عن آپ کی خدمت پیش کردوں تاکہ یہ تحریر ہماری اور آپ کی زندگی میں مہمیز کا کام کرے اور ہم سنبھل جائیں اور دوسروں کی امید اور سہارے پر جینے کے بجائے، اپنی منزل خود تلاش کرنے کی ترکیب اور ہنر معلوم کرلیں اور جو لوگ ہمیں ہماری سادگی اور سادہ لوحی کی وجہ سے استعمال کرلیتے ہیں ،بیوقوف بناتے ہیں، ایسے لوگوں سے ہم چوکنا اور ہوشیار ہوجائیں۔
پیش ہے وہ تحریر، اس کو پڑھیں اور خود کو؟؟؟؟؟؟؟
” زندگی میں خود کی قدر کرنا، اپنی اہمیت سمجھنا اور اپنے آپ کو کسی لائق بنانا سب سے زیادہ اہم ہے، وقت کے ساتھ ساتھ ہر چیز پیچھے چھوٹ جاتی ہے؛ لیکن جو کچھ آپ اپنے پر صرف کرتے ہیں اور اپنی صلاحیت و قابلیت کو نکھارنے میں محنت کرتے ہیں، وہی چیز دوام پاتی ہے اور تادم اخیر آپ کے ساتھ رہتے ہیں، بات سمجھنے کی ہے کہ انسان اگر اپنے آپ کو خود کیلئے استعمال نہیں کرتا, تو دوسرے اسے استعمال کرنے لگتے ہیں، اپنے اشاروں پر نچانے لگتے ہیں، ضرورت و حاجت کے نام پر، اور اگر آپ دین دار ہیں تو دین کے نام پر بیجا استعمال ہونے لگتے ہیں، بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ دین کے نام پر بیجا استعمال بھی جائز ہے؛ حالانکہ اسلام افراط و تفریط سے پاک مذہب ہے، اس میں بیجا کی کوئی گنجائش ہی نہیں، قرآن مجید نے صرف جائز ہی میں نہیں، بلکہ ناجائز میں بھی اسراف سے منع کیا ہے، اصل یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو بنایے، اپنی تعمیر کرے،اور اپنی شخصیت کو نکھارے، زندگی کی تگ و دو میں جہد مسلسل کرے، خود کو تھکائے اور زندگی کے نئے معیارات، نئی بلندیاں اور نئی اونچائیوں کو چھولے، اپنے ہدف کی تعیین کرے، جو بلند ہو، معیاری ہو اور عام سطح سے کہیں برتر ہو، پھر اس کیلئے جی جان لگا دے، انسان اپنا ایک مشن لیکر چلے، موت کی دہلیز تک پہنچنے سے پہلے زندگی میں واقع ہونے والے ہر پہلو پر بغور سوچے، جائزہ لے، تحلیل وتجزیہ کرے اور اپنی زندگی کو ایک نیا موڑ دے، آپ کہیں بھی رہیں، کچھ بھی کریں، دنیا کے کسی بھی خطے میں سانس لیں؛ لیکن یہ ہر گز نہ بھولیں کہ آپ ہی اپنی شخصیت کیلئے مخلص ہوسکتے ہیں، اپنی ترقی اور مستقبل کیلئے آپ خود بہتر سوچ سکتے ہیں، اپنی غلطیوں سے سیکھنا، سمجھنا اور حالات کو بھانپ کر قدم اٹھانا یہی تو اصل ہے، اگر آپ کا یہ خیال ہے کہ کوئی دوسرا آپ کو راستہ دے گا، آپ کی رہنمائی کرے گا اور آپ کی انگلی تھام کر منزل مقصود تک پہنچا دے گا تو آپ غلط فہمی میں ہے، آپ خواب و خیال میں جی رہے ہیں، آپ نے دنیا میں قدم رکھنے کیلئے ہزاروں مادہ کی ریس جیتی ہے، مادر رحم سے نکلنے کی دشواری برداشت کی ہے، شاید آپ بھول گیے ہیں کہ آپ نے تیز ترین بندوق کی گولی کی مشقت جھیلی ہے، آپ کی سانس پھول جایے اور جان اٹک جائے وہ دقتیں برداشت کی ہیں، پھر آپ موت کے لمحہ ، جس کے متعلق روایات میں آتا ہے کہ وہ انسانی جسم کے اندر سے یوں نکالی جاتی ہے، جیسے کانٹوں پر سے کوئی چادر کھینچی جارہی ہے، سوائے یہ کہ اللہ کسی کو اس تکلیف سے محفوظ رکھے، یہی آپ کی دنیا ہے.
پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ دنیا میں یونہی گزر جائیں، یقیناً زمانے میں وہ خوش نصیب ہوں گے، جن کے ساتھ ایسا ہوا کہ وہ منہ میں سونے کا چمچہ لیکر پیدا ہوا ہو؛ مگر عموماً ایسا نہیں ہوتا، زندگی کی کڑوی حقیقت یہ ہے ، کہ آپ کو پیدا ہونے سے لیکر موت تک تگ و دو، پتہ ماری، جہد مسلسل اپنے ہی بل بوتے کرنی ہے، اللہ تعالیٰ نے آپ کو بنایا ہے، اب آپ کو اپنی دنیا خود بنانی ہے، خود اپنے پیروں پر کھڑا ہونا ہے، اپنا سر اونچا کرنا ہے، طوفان کا مقابلہ کرنا ہے، باز و شہباز بن کر جھپٹنا ہے، مشاکل پر ٹوٹ پڑنا ہے، اعصاب و جوارح مضبوط کرنا ہے، اپنے آپ کو تھام لینا ہے، اسے کھلونا بننے نہیں دینا ہے، لوگوں کے ہاتھوں اور نفسیات کے پیرہن میں ملبوس نہیں ہونے دینا ہے اور یاد رکھنا ہے:وَ اَنْ لَّیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰی (نجم:٣٩) "اوریہ بات کہ ہر انسان کو وہی ملے گا ، جو اس نے کیا ہے ۔” واقعہ یہ ہے کہ اگر آپ نے اپنے آپ کو نہ بنایا اور زندگی کسی دوسرے کے خواب پورے کرنے میں صرف کردیئے ، تو آج نہیں تو کل آپ کے ہاتھوں رسوائی ہی آنی ہے، وہ شخص آپ کو آٹے سے بال کی نکال کر پھینکے گا، اپنا کام نکل جانے کے بعد نت نیئے اصول و ضابطے کی آڑ میں آپ کی زندگی حرام کردے گا، وہ جو کل تک آپ کی ترقی و تعمیر کا گواہ تھا، جس کی انگلی آپ کو چلانے کیلئے اٹھی تھی، اب وہ آپ کو بے چین کرنے کے کام آیے گی، آپ کو بے خوابی اور بے مروتی کے سمندر میں پھینک دینے اور عزت و شرف کو تار تار کردینے کے کام آیے گی، آپ کا استحصال کیا جائے گا، آپ کی سوچ وفکر پر بندش لگائی جائے گی، آپ کی زندگی کو ایک ایسے موڑ پر لا کر چھوڑ دیا جائے گا کہ آپ کے سامنے راستے تاریک ہوجائیں، زندگی کے روڑے ہیکل بن کر کھڑے ہوجائیں اور آپ کو اپنا ماضی افسوس، رنجیدگی اور افسردگی کے سوا کچھ نہ دے، ایک گھر بناتے ہوئے نہ جانے کتنے مزودر کام کرتے ہیں؛ لیکن جب وہ گھر تیار ہوجاتا ہے تو شاید ہی لوگ ان مزدوروں کا کم از کم شکریہ بھی ادا کرتے ہوں؛ بلکہ انہیں یوں نظر انداز کردیا جاتا ہے گویا کہ وہ کبھی اس زمین پر آیے ہی نہ تھے، ان کی شکل اجنبی بن جاتی ہے اور ان کا ہر کام بے گانہ ہوجاتا ہے، یہ دنیا ایک ریس بنی ہوئی ہے، ہر کوئی آگے نکلنا چاہتا ہے؛ لیکن افسوس اخلاق و اطوار اور دین و تقویٰ کو سولی پر چڑھا کر اسی رسی کے سہارے بلندی پانے اور ترقی حاصل کرنے کی ہوڑ میں ہے، اس لیے جو لوگ خود کو دوسروں کیلئے تھکاتے ہیں وہ نادان ہیں، وہ اپنا سر ایسے در پر پھوڑ رہے ہیں، جو پتھر ہے، وہ صنم خانہ ہے، جس کو آپ نے خدا جانا ہے، اس آستانے سے صرف مایوسی ہاتھ لگنے والی ہے، صرف بے عزتی آپ کے مقدر ہونی والی ہے، اپنا خون سکھانے اور جلانے والے آپ ہی جل کر خاک ہونے والے ہیں، عقل مند و دانش مند وہ ہے کہ جو اپنی منزل آپ پیدا کرے، وہ خود ایک جہاں بن جایے اور تعمیر شخصیت کو مطمع نظر قراردے” (مولانا محمد صابر حسین ندوی کی تحریر سے مستفاد)…۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر: محمد قمر الزماں ندوی
استاذ/مدرسہ نور الاسلام، کنڈہ، پرتاپگڑھ 9506600725
ناشر/مولانا علاؤ الدین ایجوکیشنل سوسائٹی جھارکھنڈ 9506600725