ان الدین عنداللہ الاسلام یقیناً اللہ کے نزدیک دین اسلام ہی ہے۔دین کے سلسلہ میں کوئی زور زبردستی ،جبرو اکراہ نہیں لا اکراہ فی الدین۔ اسلام دین رحمت ہے اور اس دین کے پھیلنے میں قرآنی تعلیمات بالخصوص عدل وانصاف، خیر خواہی، مساوات، اخوت وبھائی چارہ اور مذہبی رواداری کو بڑا دخل ہے۔کتاب کا آغاز ہی بسم اللہ الرحمن الرحیم سے ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے اپنی صفت رحمت کا تذکرہ ہزاروں بار کیاپھرآخری پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا فیصلہ کیا تو آپ کو بھی رحمۃ للعالمین بنایا۔اسلام نے مذہبی رواداری کے سلسلہ میں واضح احکامات پیش کئے ہیں۔اس سلسلہ میں اسلام جس کشادہ دلی اور فراخ دلی کا مظاہرہ کرتاہے اس کی مثال دنیا کے کسی مذہب میں نہیں ملتی۔
’’کسی منفی رجحان کے نتیجہ میں اپنے سخت ردعمل پر قابو پالینا تحمل و برداشت کہلاتاہے اور ردعمل کے طور پر منفی رویے کی بجائے مثبت حسن سلوک کو روا رکھنا رواداری کہلاتاہے۔‘‘
اسلام امن،رواداری اوربقائے باہمی کو فروغ دیتا ہے اور قرآن کے ہر صفحہ پر یہ چیزیں نظر آتی ہیں۔ امن و سلامتی ،رحمت ،الفت و محبت ہمدردی اور احترام انسانیت کا داعی ہے۔اسلام نے اپنی تعلیمات میں جہاں خیرخواہی، رواداری، امن سلامتی، عدل وانصاف پر ابھارا ہے تاکہ معاشرہ میں خیروبھلائی، ہمدردی ،ایک دوسرے کا احترام وتکریم، جان مال، عزت وآبرو، ہر ایک کا دین و مذہب حتیٰ کہ حسب ونسب کا تحفظ باقی رہے اسی طرح معاشرہ سے لوٹ مار،دھوکہ دہی، کرپشن، ظلم و تشدد، ناانصافی، حقوق تلفی، ناحق قتل وغارت گری،چوری،ڈکیتی اورفتنہ وفساد کے خاتمہ کے لئے احکامات حدود و تعزیرات اور سزائیں بھی مقرر کیں اورجان کے بدلے جان کے لئے حکم قصاص کا نفاذ بھی کیا تاکہ معاشرہ جرائم وبرائیوں سے محفوظ رہے یہ سراسر انصاف ہے۔چنانچہ دور نبوت و دورخلافت میں ان تعلیمات پر عمل کیاگیا جس کے نتیجہ میں جرائم اوربرائیوں کی شرح کم سے کم رہی۔ یہ احکامات معاشرہ وملک میں امن وسلامتی کی ضامن ہے۔ کسی ایک انسان کے ناحق قتل کو اسلام نے ساری انسانیت کے قتل کے مترادف کہااورکسی ایک جان کو بچانا درحقیقت ساری انسانیت کا تحفظ ہے۔ قاتلین اور دہشت گردوں کو قتل نہ کیاجائے تو معاشرہ و سماج میں مزید قتل و خونریزیاں ہوں گی اس لئے اسلامی دارالخلافہ میں ایسے تعزیری احکامات کا نفاذ امن و سلامتی کا باب الداخلہ ہے اور فتنہ و فسادکی سرکوبی اور خاتمہ کا پیش خیمہ ہے۔و قاتلواھم حتی لاتکون فتنۃ ۔لفظ امن وسلامتی،ہمدردی اور رواداری کے پس منظر میں ایک مسلمان کی حقیقی تعریف حدیث میں اس طرح بیان کی گئی کہ المسلم من سلم المسلمون من لسانہ و یدیہ۔سچا مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرا مسلمان محفوظ رہے، ہر مسلمان اپنی زبان اورہاتھ پر کنٹرول کرلے اور اسے درست کرکے مناسب جگہ استعمال کرلے تو دوسرے بھی پرامن ہوںگے اور کسی کو دوسرے سے خوف ،اذیت،تکلیف و پریشانی کا خدشہ نہیں ہوگا بس سلامتی ہی سلامتی کی فضا ہموارہوگی۔اسلام نے کسی کو دوسروں کے مذہبی معاملات میں مداخلت کی اجازت نہیں دی۔ فرمایاگیا لکم دینکم ولی دین اور من شائ فلیومن و من شاء فلیکفر تمہارا دین تمہارے لئے اور میرا دین میرے لئے ہے اور جو ایمان لانا چاہے وہ ایمان لائے اورجو کفر پر باقی رہنا چاہے اس کی مرضی ہے۔
اسلامی رواداری کے اصول : اسلام اللہ تعالی کا نازل کردہ دین ہے جو ساری انسانیت کی فلاح ،رہبری اور نجات کا ضامن ہے۔ ساری انسانیت آدم کی اولاد ہیں۔عربی کوعجمی پر،گورے کو کالے پر کوئی فوقیت اور مرتبہ نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے پاس معیار شرافت تقوی و پرہیزگاری ہے۔ مسلمانوں کو باہمی حقوق کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ اپنے پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید کرتا ہے۔اگرکوئی مسلمان نے اپنے غیرمسلم پڑوسیوں کوناحق ستایا ظلم وستم کیااور اس کو اذیت دی توایسے مسلم کو بھی جہنم کی وعید سنائی حتیٰ کہ نمازی عبادت گزار تہجد کی پابند خاتون نے ایک بلی کو باندھ کر رکھنے پر جہنم رسید ہونے کی خبر دی گئی۔کسی کافر، یہودی اور آتش پرست کوبھی کافر کہہ کر پکارا اوراذیت دی تو ایساخطاب کرنے والا مسلمان گنہگارہوگا۔
عدل وانصاف،امن اور رواداری کی بہترین مثال ہے۔ اس سلسلہ میں کہا گیا کہ کسی قوم کی دشمنی تمہیں عدل و انصاف سے نہ روک دے۔ انصاف کرو کیوں کہ یہ تقویٰ کے قریب کرنے والی چیز ہے۔ (المائدہ) دعوت و تبلیغ کی حکمت بیان کرتے ہوئے بھی کہا کہ دانشمندی ،حکمت وعظ و نصیحت کو ملحوظ رکھو اور بحث ومجادلہ کرنے والوں سے بھی حسن سلوک سے پیش آؤ۔(النحل 125 )جنگی معاہدے میں دشمنوں کے ساتھ اس طرح حکم دیاکہ تم طے شدہ مدت تک اس کو پورا کرو۔ (التوبہ۔ 4) یہی نہیں بلکہ مشرکین اگرپناہ طلب کریں تو انہیں پرامن طریقہ سے رکھنے کی تاکید و تلقین کی۔(التوبہ۔ 6) خاتم المرسلین نے امن و رواداری کے سلسلہ میں اپنی حیات طیبہ میں حسن سلوک کی بڑی تاکید فرمائی۔ مشرک والدین کے ساتھ بھی اچھا سلوک، رشتے داروں، پڑوسیوں، مسکینوں، اجنبی لوگوں،مسافروں،غلاموں کے ساتھ حسن سلوک پر زور دیا۔(النساء۔ 36)
رواداری کو فروغ دینے کے لئے اسلام سب سے پہلے اپنے ماننے والوں کو اپنی ذات کی اصلاح اپنے نفس کی پاکیزگی وطہارت کا حکم دیتا ہے۔ قد افلح من تزکی اور پھر اس کو اپنے رب کی بندگی و عبادت کا حکم دیتا ہے کہ وہ پانچ مرتبہ اس کی بارگاہ میں جھکے گا تو وہ دوسروں کو تکلیف دینے سے بچے گا۔ خود اس کی ذات میں نیکی آئے گی، فحش و منکرات سے بچے گا۔(سورۃ الانعام 82)میں فرمایا کہ جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اپنے ایمان کو ظلم یعنی شرک سے خلط ملط نہیں کیا تو انہیں امن نصیب ہوگا یعنی یہ امن کے پیکر بن جائیں گے۔
اخوت وبھائی چارہ بھی رواداری کے فروغ میں مددگار ہے۔ انما المومنون اخوۃ۔ مومن آپس میں بھائی ہیں۔ اپنی پسند ناپسند اپنے بھائی کی پسندناپسند بن جائے تو پھر معاشرے میں ظلم کیسے رہے گا۔ ہم جس ملک و معاشرہ میں رہتے ہیں وہ مختلف مذاہب اور تہذیبوں کا مجموعہ ہے جس میں ہرایک اپنی اپنی سمجھ اور عقل و نظریہ سے اپنا عقیدہ و مذہب اختیار کئے ہوئے ہیں۔ اس لئے یہ ملک جمہوریت کا علمبردار ہے اوریہ جمہوری آزادی ہندوستان کے دستور کاایک اہم پارٹ ہے۔ یہ آئین ودستور کی آرٹیکل سے ہمیں بھی فائدہ اٹھانا چاہئے یعنی اپنے عقیدہ ومذہب پر باقی رہ کر اس کا پرچار کرنے کا قانونی حق حاصل ہے، مگرجبر واکراہ سے نہیں بلکہ پرامن طریقہ سے اپنی بات اپنے برادران وطن کے سامنے رکھ سکتےہیںجس میں حکمت وموعظمت ہو۔زور زبردستی نہیں کیوں کہ لااکراہ فی الدین کے اصول کے ہم سب پابند ہیں۔ہم جانتے ہیں کہ اسلام الفت محبت اور اخلاق حسنہ سے پھیلا تلوار سے نہیں۔اسلام نے تو میدان جنگ میں بھی رواداری کو خوب ملحوظ رکھا کہ جنگ سے پہلے کبھی دعوت اسلام پیش کی جائے یہ جنگ سے بہتر ہے کہ دشمن تمہارے حسن سلوک اور سلامی محاسن کو سن کر دائرہ اسلام میں آجائے۔خود آپؐ نے غزوہ خیبر کے دن حضرت علیؓسے فرمایا کہ تمہارے ذریعہ آج ایک آدمی بھی راہ راست پر آتا ہے تو یہ تمہارے لئے سرخ اونٹوں سے بھی زیادہ بہتر ہے۔ اسی طرح رواداری کی ایک عظیم مثال قائم کرتے ہوئے اسلامی تعلیم دی گئی کہ تم لوگ دوسرے مذاہب والوں کو اورجن کی وہ لوگ پوجا کرتے ہیں بُرا بھلا مت کہو اس سے مزید بدامنی اورانتشار پھیلے گا۔آج ہمارے ملک میں مذہبی منافرت پھیلنے کی ایک وجہ یہی گندی سیاست اور جھوٹے میڈیا ہے جو کرسی و اقتدار کے نشے میں اور جانبدار میڈیا دولت کی حرص و لالچ اور جھوٹی شہرت کے لئے مذہب اسلام اس کے شعائر،پیغمبر اسلام اور قرآن کریم کو نشانہ بناتے ہوئے گستاخانہ تقاریر، مضامین اور کارٹون پھیلادیئے ہیں۔سورۃ الکافرون میں بھی مذہبی رواداری کی دلیل ہے کہ تم تمہارے خداؤں کی اوراپنے رب کی عبادت کرتا ہوں تمہارا دین ومذہب تمہارے لئے اورمیران دین میرے لئے ہے۔ کوئی ٹکراؤ کی بات نہیں۔ حقیقی رواداری یہی ہے کہ میں اپنی توحید پر مضبوطی سے ڈٹ کر ایک اللہ کی عبادت کروں، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کروں، ایسا نہیں کہ تمہارا مذہبی رسومات وتہوار کو میں مانو اورتم ہمارے مذہبی تقدسات وعقائد کوتم مانو دونوں ایک دوسرے کے مذہبی تقدسات کو مانتے ہوئے شرکت کریں یہ بھی رواداری اور اسلامی اصول کے خلاف ہے۔ بظاہر کچھ فرقے اور تنظیمیں اسے رواداری سمجھ رہی ہے جبکہ یہ دین کے بنیادی عقائد کے خلاف ہے۔ اللہ تعالیٰ ساری کائنات کا اکیلا تنہا خالق ومالک ہے اوروہی معبود حقیقی ہے اس کے برابر کوئی ذات نہیں اس کی آل اولاد بیوی بچے نہیں۔ اسلام کے علاوہ ہر مذہب میں دوتین یا اس سے زائد خداؤں کی عبادت کا تصور ہے یہی وہ گناہ کبیرہ ہے جس کو ختم کرنے کے لئے حضرت آدم سے لے کر حضرت محمدصلی للہ علیہ وسلم تک سارے پیغمبروں نے دعوت توحید یعنی الہ واحد کی دعوت دی۔غور کرنے کی بات ہے کہ ہمیں دوسرے مذاہب کے خلاف کہنے سے اوران کے خداؤں کو برا بھلا کہنے سے روکتا ہے۔ منع کرتا ہے وہ اپنے ہم عقیدہ ایک کلمہ گو مسلمان بھائی کو کافر یا خوارج کہنے کی اجازت دے گا؟بدامنی اور انتشار کی ابتدا فتنہ تکفیر سے ہوتی ہے اوریہ امت میں فرقہ بندی حزبیت اور فتنوں کا دروازہ کھولتی ہے۔ قارئین حضرات :دین اسلام میں دوسروں کے عقائد، اقدار، جذبات اور تہذیب و ثقافت کا لحاظ رکھنا مذہبی رواداری کہلاتی ہے۔ آپؐ نے لوگوں کے درمیان بہتر تعلقات کو فروغ دینے کی تلقین کی۔نرم روی، نرم خوئی، میانہ روی اور اصلاح ذات البین کی اہمیت وفضیلت بیان کی۔ دوسروں پر رحم کرنے پر زور دیا۔شاعرکہتا ہے’’کرو مہربانی تم اہل زمیں پر۔خدا مہرباں ہوگا عرش بریں پر ‘‘احترام انسانیت، انسانیت نوازی اورپورے سماج کے درمیان رحم کی عام تاکید فرمائی۔ پڑوسیوں کی خبر گیری اوران کے ساتھ حسن سلوک کی تعلیم دی گئی،لوگوں کے دکھ درد میں شریک ہونے ،ان کے مسائل حل کرنے اور ان کی پریشانیوں میں کام آنے کی فکر،فقر وفاقہ میں ان کی مدد کرنے، ان کی بیماری میں تیمارداری یہ سب کچھ اسلامی رواداری کی مثالیں ہیں۔اسلام کی وہ زرین تعلیمات جن سے اسلام کے جذبہ رواداری اورانسانیت نوازی کا بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ وہ انسانی ہمدردی معاشرتی رواداری میں کسی تفریق کاقائل نہیں وہ قیام عدل کے لئے آیا۔ وہ تمام مذاہب کے ماننے والوں کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کی آزادی فراہم کرتاہے،وہ شرک پر واقعی ضرب کاری کرتا ہے،مگر جن کو شریک کیاجاتاہے ان کے متعلق واضح ہدایات ہیں جو حکمت مصلحت اور برداشت کے اصولوںپر مبنی ہیں جیسا کہ فرمایا ادفع بالتی ھی احسن۔ (فصلت۔34) دوسروں کی طرف سے مخالفت ومزاحمت پرصبر کی تلقین کرتاہے، رب کی توحید کی دعوت حکمت و موعظمت کے ساتھ دینے کی تاکید کرتاہے۔ اسلام افہام وتفہیم کا قائل ہے۔ آفاق وانفس کے دلائل سے توحید کے اثبات اور شرک کے ابطال پر نشانیاں پیش کرتا ہے۔ اسلام کے پھیلنے کے بہت سارے اسباب ہیں جن میں سے اہم سبب محسن انسانیت حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ جو قرآن کریم کا عکس اور اس کی ترجمانی تھی جسے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ نے کہا تھا کان خلقہ القرآن آپؐ کے اخلاق سرتا پا قرآن تھے خود قرآن نے کہا و انک لعلی خلق عظیم درحقیقت آپ اخلاق کے عظیم مرتبہ کے مالک تھے۔
(جاری)
ازقلم: ڈاکٹر سید آصف عمری، حیدرآباد
موبائل نمبر: 9885650216