آپ کو یاد ہوگا کہ کرناٹک کے ضلع وکشن کنٹر کے گاؤں اتوار میں کداہامرد ڈالا روڈ پر واقع ایک مسجد میں گھس کر چند فرقہ پرستوں نے جے شری رام کا نعرہ لگایا تھا اور کہا تھا کہ مسلمانوں کو نہیں چھوڑیں گے، معاملہ سنگین تھا اور اس حرکت کی وجہ سے وہاں کا ماحول خراب ہوا تھا، سی سی ٹی وی کیمرے کی مدد سے ملزمین کی شناخت کی گئی اور ان پر نامزد ایف آئی آر درج کرائی گئی، اس واقعہ کے دو سرغنہ کی گرفتاری بھی 295A کے تحت عمل میں آئی، پولیس نے ملزمین پر دفعہ 447 (کسی کے گھر میں مجرمانہ طورپر گھسنا) 505 (فساد بھڑکانے کی نیت سے دیا گیا عوامی بیان) 506 (مجرمانہ دھمکی) 34 (مشترکہ طورپر بُرے ادارے) 295A (دانستہ بدنیتی پر مبنی کاروائی) کے دفعات لگائے جو صورت حال کے بالکل مطابق تھے، ان فرقہ پرستوں نے کرناٹک ہائی کورٹ سے رجوع کیا اور ایک نفری بنچ کے جج جسٹس ایم ناگ پرسنا نے ایف آئی آر کو یہ کہتے ہوئے منسوخ کردیا کہ ”وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ مسجد میں داخل ہوکر جے شری رام کا نعرہ لگانے سے کس طرح فرقہ وارانہ ہم آہنگی خراب ہوسکتی ہے“ معزز جج کے علم وآگہی پر کوئی تبصرہ تو میں نہیں کرسکتا، البتہ ان کے علم میں یہ بات آنی چاہئے تھی کہ جبراً جے شری رام کے نعرے لگوانے، نہ لگانے پر ماب لنچنگ کے ذریعہ قتل، مسجد کی دیواروں پر جے شری رام کے نعرے لکھنے سے خیرسگالی، باہمی ہم آہنگی کو فروغ نہیں ہوتا، بلکہ فرقہ پرستوں کے حوصلے بلند ہوتے ہیں اور ہم آہنگی کا جنازہ نکل جاتا ہے، کیا معزز جج صاحب اس بات کو گوارہ کریں گے کہ مسلمان مندروں میں گھس کر اللہ اکبر کا نعرہ لگائیں اور وہ یہ فیصلہ دیں کہ اس سے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو نقصان نہیں پہونچتا ہے، ظاہر ہے وہ ایسا فیصلہ نہیں دے سکتے تو مسجدوں کے بارے میں اس قسم کا فیصلے کا پیغام اس کے علاوہ اور کیا ہوسکتا ہے کہ فرقہ پرست مسجد میں گھس گھس کر جے شری رام کا نعرہ لگائیں اور عدالت کے اس فیصلے کے مطابق عمل شروع کردیں کہ اس سے بین المذاہب ہم آہنگی کو نقصان نہیں پہونچ رہا ہے اور اس کے نتیجے میں مختلف فرقوں کے لوگ آپس میں برسرپیکار ہوں، کرناٹک ہائی کورٹ کے ہی ایک جج نے مسلم اکثریتی علاقہ پر پاکستان کہہ کر تبصرہ کیا تھا جو انتہائی غیر مناسب تھا، یہ الگ سی بات ہے کہ بعد میں عدالتی دباؤ کی وجہ سے اپنا یہ تبصرہ انہیں واپس لینا پڑا تھا، مجھے نہیں معلوم کہ یہ تبصرہ رکارڈ سے بھی حذف کیا جاسکا یانہیں؟
موجودہ چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑکے ایک انکشاف نے تو فیصلے کی بنیاد ہی پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے وہ بابری مسجد کے فیصلے والی بنچ کے اہم رکن تھے اور بابری مسجد کی زمین رام کے حوالہ کرنے والے فیصلے میں شریک تھے، اب تک اس فیصلے کی بنیاد ثبوت وشواہد نہیں، آستھا کوقرار دیا جارہا تھا، لیکن چیف جسٹس یہ کہہ کر سوالوں کے گھیرے میں آگیے ہیں کہ انہوں نے بابری مسجد کے مقدمہ میں بھگوان کے آگے بیٹھ کر فیصلہ کرنے میں مدد کی درخواست کی تھی اور ظاہر ہے کہ یہ فیصلہ اسی بنیاد پر ہوا، اس انکشاف پر ماہر قانون وشینت دوبے، دہلی ہائی کورٹ کے سابق جج ریکھا شرما، صحافی سمیت ناکر سدھارتھ وردھا راجن اور کرن تھاپر نے سخت تبصرے کیے ہیں، لوگوں کی رائے ہے کہ اس طرح فیصلہ کرنا ہو تو نہ ہی دستور کی ضرورت ہے اور نہ عدالت کی، مبینہ طور پر جنہیں بھگوان مانتے ہیں ان کے سامنے مراقب ہوجائیں اور فیصلہ کردیں۔
اس قسم کے فیصلے اور بیانات سے عدالت کی شبیہ خراب ہوتی ہے اور ان کے فیصلوں سے اعتبار اور اعتماد کمزور پڑتا ہے، جو نہ عدلیہ کے لیے مناسب ہے اور نہ ہی ملک کے لیے، متین امروہوی نے بڑی صحیح ترجمانی کی ہے ؎
جے رام کا نعرہ اگر مسجد میں ہے جائز
مندر میں اذاں ہم کو بھی پڑھ دینے دیجئے
بھگوان کے کہنے سے گری بابری مسجد
پھر کام عدالت کا یہاں بند کیجئے۔
تحریر: (مفتی) محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھارکھنڈ