مہاراشٹر کے مسلمانوں کو نتیش رانے کی دھمکی، مسجدوں میں گُھس کر ماریں گے، گستاخ رسول پنڈت کی حمایت کا اعلان

مہاراشٹر کے بھاجپا ایم ایل اے نتیش رانے نے تمام حدیں پار کرتے ہوئے یہاں کے مسلمانوں کو مسجدوں میں گھس کر قتل کرنے کی دھمکی دی ہے ، مہاراشٹر کے مسلمانوں پر حملے کی یہ دھمکی نتیش رانے نے گستاخ رسول پنڈت رام گیری مہاراج کی حمایت میں دی ہے جوکہ مزید تشویشناک بات ہے۔
مہاراشٹر میں مسلمانوں کو مارنے پیٹنے اور قتل کرنے کی کھلے عام ایسی باتیں بھرے مجمع میں اتنی آزادی سے پہلے کبھی نہیں ہوئیں ،
مہاراشٹر میں ہی نہیں بھارت میں بھی ناموسِ رسالت پر گستاخی کے مجرموں کو سر پر بٹھانے اور ان کی حمایت میں ریلی نکالنے کی ہمت نہیں کی جاتی تھی لیکن اب لگتا ہے مہاراشٹر میں بھی مسلمانوں سے زمین تقریبآ چھین لی گئی ہے ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف بدتمیزی اور بدزبانی کرنے والے ہندو پنڈت کےخلاف کوئی کارروائی نہیں ہے البتہ جو مسلمان اس فسادی پنڈت کو گرفتار کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں ان کو مسجدوں میں گُھس کر مارنے کی بات کی جارہی ہے ،
دراصل مہاراشٹر کے مسلمانوں میں کئی طرح کی بیماریاں جڑ پکڑ رہی ہیں ورنہ انہیں بہت پہلے احساس ہوجاتا کہ ان کی حالت اس ریاست میں خدا نخواستہ دیگر ریاستوں کے مقابلے میں مزید ابتر و بدتر ہورہی ہے، مسلمانانِ مہاراشٹر کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ انہوں نے اکثر جگہوں پر اپنی سماجی قوت کو کھو دیا ہے پہلے ان کا مستقل وجود اور اثر ہوتا تھا لیکن ادھر کچھ سالوں سے مہاراشٹر کے کئی علاقوں میں مسلمانوں کا سماجی دیگر ذاتوں میں گم ہوتا جارہا ہے ان کا وجود شیو جینتی اور گنپتی سے جڑنے لگا ہے،
مہاراشٹر کے مسلمانوں کی دوسری بہت بڑی بیماری یہ ہے کہ اب یہاں پر مسلمانوں کی سیاسی قیادت صدر ہوچکی ہے انڈیا الائنس نے پہلے لوک سبھا میں پھر ایم ایل سی الیکشن میں مسلم نمائندگی کو زیرو پوائنٹ پر رکھا جو اس بات کی سب سے بڑی دلیل ہے کہ خود سیکولر پارٹیوں نے بھی سمجھ لیا ہےکہ مسلمان بحیثیت مہاراشٹرین مسلمان اپنی پہچان کھو رہا ہے،
مہاراشٹر میں مسلمانوں اب اس طرح گروپ در گروپ تقسیم ہوچکا ہے،
ایک گروپ کانگریس کا وفادار اور بےدام غلام
ایک گروپ اجیت پوار کا وفادار
ایک گروپ شرد پوار کا وفادار
ایک گروپ ایکناتھ شندے کا وفادار
اور اب ایک اور گروپ ادھو ٹھاکرے کا وفادار بھی پیدا ہورہا ہے۔
آپ مہاراشٹر کے کسی بھی علاقے میں چلے جائیے آپ کو وفاداریاں ایسی ہی نظر آئیں گی ان سیاسی گروپ بندیوں نے سماجی سطح پر یہاں کے مسلمانوں کو بےوزن کرنا شروع کردیا ہے لیکن انہیں احساس نہیں ہے، اور اگر اس معاملے پر بات کرنے کی کوشش کی جائے تو اتنی بڑی بڑی باتیں جواب میں آپ سنیں گے کہ بس سر دھنتے رہ جائیں گے ۔
حالانکہ میرا روڈ میں بلڈوزر چلنے سے لےکر ستارا کی مسجد میں ماب لنچنگ ، اور ریاست بھر میں نفرتی جرائم کے اعدادوشمار ہندوتوا واچ کے ریکارڈ کے مطابق بھی نہایت تیزی سے اس ریاست میں بڑھ رہے ہیں یہاں تک کہ مراٹھی زبان میں اللہ کے رسول کے خلاف بدتمیزی تک کروائی گئی۔ مہاراشٹر میں نفرت انگیز ہندوتوادی کارروائیوں کی رفتار اتنی تیز ہے کہ سپریم کورٹ کو اس ریاست کی پولیس کو یہ کہنا پڑا کہ ازخود ایف آئی آر درج کریں، اور اب مسجدوں میں گُھس کر مارنے کی باتیں کی جارہی ہیں گستاخ رسول کی حمایت میں جلوس منعقد ہورہے ہیں ۔
میں نے گزشتہ دو تین سالوں میں مرہٹواڑہ سے لےکر ودربھ تک اور کوکن سے لےکر خاندیش تک اور ممبئی اور بھیونڈی میں تو قیام ہی رہتا ہے کم از کم پچاس سے زائد نشستیں خواص کےساتھ کی ہیں تاکہ وہ ان ہندوتوادی خطرات کو روکنے کے لیے کوئی متحدہ وفاقی کوششیں کریں لیکن کوئی بھی سنجیدہ کام ہو نہیں سکا کیونکہ اکتر خواص کی اپنی اپنی سیاسی وابستگیاں ہیں اور وہ ان سے سرموانحراف کے لیے تیار نہیں ، اور اگر کچھ مخلصین ہمت کرکے تیار بھی ہوئے تو کانگریس ، پوار، شندے، اور ٹھاکرے سے محبت کرنے والے مسلمانوں نے انہیں کام نہیں کرنے دیا،
مہاراشٹر کے مسلمان سردست اپنے مضبوط وفاقی ڈھانچے سے محروم ہیں اور ان کی سماجی حیثیت مقامی غیر مسلم وابستگیوں میں برباد ہورہی ہے، جس کی وجہ سے نتیش رانے اور رام گیری مہاراج جیسے خبیث ناموسِ رسالت پر بڑھ چڑھ کر حملے کررہے ہیں ، حالانکہ مہاراشٹر کی ہندوتوادی طاقتوں کو یہاں کے مسلمانوں سے ہمیشہ خوف محسوس ہوتا ہے اور آج بھی وہ اسی خوف میں ہیں کہ مہاراشٹر کا مسلمان انہیں کھدیڑ سکتا ہے لیکن مسلمان سنجیدہ اور متحد نہیں ہیں اس میں کوئی دو رائے نہیں اور اگر ابھی بھی نہیں جاگے تو حالات پھر اگلی کئی دہائیوں تک قابو میں نہیں آئیں گے ۔
سکال ہندو سماج کے خلاف کارروائی ، نتیش رانے اور گستاخ رسول رام گیری کی گرفتاری کو موضوع بناکر مہاراشٹر کے مسلمانوں کو ان اہداف پر مشینری کام کی ضرورت ہے, آل مہاراشٹر سطح پر مستقل ایک ایسے آزاد فورم کی ضرورت ہے جو ہندوتوا خطرات کے مقابلے مسلمانوں کے وجود کا احساس کراتے رہے، جو سیاسی دباؤ سے آزاد ہو، ان اقدامات سے بہت سارے ہندوتوادی شریر اپنا سر اٹھانے سے پہلے ہزار بار سوچیں گے ۔
✍️: سمیع اللہ خان

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے