دو مہینے پہلے کی بات ہے کہ ممبئی کے مضافات میں واقع میرا روڈ کے عزیزیہ مسجد میں جمعہ کی نماز پڑھنے گیا ہوا تھا ۔منبر پر بیٹھے ڈاکٹر عمری جو مدینہ سے عالم کی ڈگری حاصل کیے ہیں اور لکھنؤ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کیے ہوۓ ہیں تقریر کر رہے تھے ۔تقریر کا موضوع بچوں پر ماں باپ کے درمیان طلاق کا اثر کیا ہوتا ہے ؟ طلاق کی اہم وجہ مغربی معاشرے کا اثر بھارت کے مسلم سماج پر بھی پڑ رہا ہے ۔عورتیں بھی آزادی چاہتی ہیں اور گھر کے حدود تک رہنا نہیں چاہتی ہیں یعنی عورتیں بھی خود کفیل بننا چاہتی ہیں اور عورتیں جب خود کفیل بنتی ہیں یا نوکری کرتی ہیں تو بچوں کی پرورش میں کوتاہی ہوتی ہے اور اسلام میں گھر کی عورت پر ذمےداری عائد کی گئی ہے کہ وہ بچوں کی پرورش کرے جبکہ گھر چلانے کی ذمےداری مردوں کو دئ گئی ہے ۔
میں نے اپنے ہفتہ روزہ پہلی خبر میں اُسی ہفتے کے اخبار میں ڈاکٹر عمری کی باتوں سے اتفاق کرتے ہوئے ایک اداریہ لکھا کہ میاں بیوی کے طلاق کی ڈاکٹر عمری نے یہ ایک پہلو بتائے جو اسلامی نکتہ نظر سے بالکل صحیح ہے لیکِن طلاق کی ایک اور وجہ گھر میں پیسے کی کمی بھی ہے ۔ساتھ ہی میاں بیوی کے درمیان طلاق نہ بھی ہو آج کے دور میں پیسے نہیں ہو تو بچّے کی اچھی پرورش نہیں ہو سکتا ہے ۔اور بھارت کے مسلم سماج کی حقیقت یہ ہے کہ نوّے فیصدی مسلمان دس ہزار یا اس سے کم کماتے ہیں یہ میں نہیں سچر کمیٹی کی رپورٹ کہتی ہے ۔اور اگر گھر کا مرد بیمار پڑ جائے یا کسی بیماری سے موت ہو جائے تو اس گھر کی عورت پر اچانک گھر کی ذمےداری آ جاتی ہے اور وہ جس کے لیے تیار نہیں ہوتی ہیں۔یہ بھی حقیقت ہے کہ گھر کا مرد چلا جائے یا معذور ہو جائے تو رشتے دار بھی نظر پھیر لیتے ہیں ۔ایسے میں گھر کی چہار دیواری میں رہنے والی عورت اپنے بچوں کے پیٹ کی بھوک مٹانے کے لئے خیراتی ادارے کے باہر لائن لگاتی ہیں یا بچوں کی پرورش کے لئے غلط کام کرنے پر مجبور ہو جاتی ہیں ۔ایسے میں اگر گھر کی عورت شروع سے گھر خرچ میں ہاتھ بنٹائے تو مرد کو زائد بوجھ اٹھانے نہیں پڑتے ھیں ۔ساتھ ہی ناگہانی حالات میں گھر کی عورت بھیک مانگنے پر مجبور نہیں ہوتی ہیں۔
میرے اس اداریے پر مولانا عمری نے پانچ جمعہ تقریر کی لیکِن یہ ماننے کے لئے تیار نہیں ہوئے کہ عورتوں کو بھی شروع سے کام کرنے کی اجازت ہو۔اس سے پہلے جمعیت علماء ہند ارشد مدنی مہاراشٹر کے اس وقت کے سیکرٹری اور اب صدر کے عہدے پر فائز مولانا حلیم اللہ قاسمی سے یہی سوال کیا تھا تو وہ غصے میں آ گئے اور کہنے لگے کہ آپ چاہتے ہیں کہ عورتوں کو باہر کام کرنے کی اجازت دی جائے یہ ممکن نہیں ہے ۔عورت کو قدرت نے بچہ پیدا کرنے اور اُسکی پرورش کے لیے اللہ نے دنیا میں بھیجا ہے اور اسی کام کی اجازت ہے ۔
میں بار بار اس مسئلے کو اٹھاتا رہا ہوں ۔جماعت اسلامی کے منچ سے بھی اس مسئلے کو اٹھایا لیکن عام لوگ تو میری بات سے اتفاق کرتے ہیں لیکِن مذہبی قیادت کا دھیان اس اہم مسئلے کی جانب نہیں جا رہا ہے۔لیکِن یہ سماج کی ضرورت بنتی جا رہی ہے ۔ٹھیک اسی طرح کسی شخص کا فوٹو نکالنا مولانا حرام بتایا کرتے تھے اور اب فوٹو نکالنا جائز ہو گیا ہے۔ کیونکہ یہ اب ضرورت ہو چکی ہے ۔پرنٹنگ مشین کو استعمال کرنے میں مسلمانوں کو دو سو سال لگ گئے لیکِن جب ضرورت بن گئی وہ جائز ہو گیا۔ایسے کئی مشال ہیں جو ہمارے علماء کی وقت کے پہلے حالات کا سہی مشاہدہ نہیں کرنے کی وجہ سے مسلمانوں کو تنزلی کا شکار ہونا پڑ رہا ہے ۔خدا را ہمارے علماء دور اندیش بنیں ورنہ وقت کے ساتھ اپنا وقعت کھو دیں گے یا ضرورت آپ کی قیادت کو بے معنی اور بے قدر کر دے گا۔
تحریر: مشرف شمسی
میرا روڈ ،ممبئی
موبائیل 9322674787