آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ بہت حد تک ہندوستانی مسلمانوں کی ایک ایسی متحدہ و متفقہ تنظیم ہے جس کو ملکی پس منظر میں مسلمانوں کی نمائندہ اورترجمان کہا جاسکتا ہے۔ اس کے اصل مقاصد میں ہندوستانی مسلمانوں کے عائلی قوانین کا تحفظ، اس کیلئے مناسب اور ضروری حکمت عملی تیار کرنا، مسلمانوں کے نجی معاملات کو شرعی احکام کے مطابق ڈھالنےکیلئےماحول سازی، اس کے تعلق سے ہونے والی قانون سازی اور ملکی ماحول میں آنے والی تبدیلیوں کا جائزہ لے کر اس کی خوبیاں اور خامیاں اجاگر کرنا، اس کی تفہیم اور معاشرہ کی اصلاح کیلئے پروگرام بناکر ا س کی تنفیذ کی کوشش اور حتی الامکان سنجیدہ اقدامات کے ذریعہ اس میں ترمیم و اصلاح کی تگ و دو شامل ہے۔
لیکن ملک میں تیزی سے رونما ہونے والی تبدیلیوں اور بدلتے سیاسی و معاشرتی حالات میں بورڈ نے وقتی ضرورتوں، ملی تقاضوں اور عوامی و سماجی دباؤ و اصرار کے مدنظر مسلمانوں کی تعلیمی و معاشی پسماندگی، ان کے جان و مال، عبادت گاہوں اور اوقاف کے تحفظ، ملکی سطح پر دین پر عمل کی آزادی اور دیگرحقوق کی طرف بھی توجہ دی۔ لہذا بابری مسجد، یکساں سول کوڈ، جبراً تبدیلی مذہب، سی اے اے، این آرسی، ماب لنچنگ، بے قصوروں کی گرفتاری، مسلمانوں سے متعلق امور میں قانونی مشاورت و مدد، تحفظ اوقاف اور دیگر اہم امور سے بورڈ بے تعلق نہیں رہ سکا۔
بورڈ کا امتیاز ہے کہ اس میں ملکی سطح پر مسلم معاشرہ کے مختلف شعبہ ہائے زندگی میں سرگرم شخصیات کو شامل کرنے کی ممکنہ طور پر کوشش کی جاتی ہے، جن میں بالخصوص مذہبی رہنما، علماء و دانشوران، ماہرین قانون، سیاست داں اور دیگر میدانوں میں قابل ذکر افراد شامل ہوتے ہیں۔ لہذا اس میں بیشتر مسلم فرقوں، جماعتوں، جمعیتوں اور مسلکوں کے ممبران بحیثیت عہدیدار و ممبران یا مدعو خصوصی شریک کئے جاتے ہیں ۔اور اگر دیکھا جائے تو تعلیمی، دعوتی و سماجی ہی نہیں بلکہ قانونی سیاسی غرض ہر میدان میں سرگرم اور فعال ملی افراد اور اپنے اپنے حلقوں میں اچھا اثر و رسوخ رکھنے والے لوگ اس بورڈ کا حصہ ہیں۔ اس لئے یہ امید غلط نہیں کہ اگر کبھی سماج کے تمام طبقات، مسالک اور جماعتوں کو ساتھ لے کر متحدہ اور متفقہ طور پر پالیسی بنانے، اس کو نافذ کرنے یا اس سلسلہ میں ذہن سازی یا ماحول سازی کی ضرورت پیش آئے تو اس سے زیادہ مؤثر افراد کسی بھی تنظیم ،ادارہ اور جماعت میں نہیں مل سکتے اوراس طرح اس بورڈ کے ذریعہ جو اجتماعی کام کیا جاسکتا ہے وہ اس وقت مسلمانوں کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔
جہاں تک بورڈ میں اختیارات، قوت فیصلہ، منصوبہ بندی اور فیصلوں کے نفاذ کی بات ہے تو اس میں صدر بورڈ کو سب سے زیادہ اختیار اور اہمیت حاصل ہے۔ اس عہدہ پر 3 و 4 جون 2023 اندور کے اجلاس میں مولانا خالد سیف اللہ رحمانی جیسی مشہور علمی شخصیت کا انتخاب عمل میں آیا تھا ،جو بے شمار علمی کاموں، بیرون ملک اسفار اور مشغولیتوں کے ساتھ ساتھ بہت سے دیگر ایسے اداروں کے بھی ذمہ دار ہیں جن کا دائرہ کار محدود و معمولی نہیں۔ اسی طرح بورڈ میں مختلف مسلکوں اور جماعتوں کو بورڈ سے جوڑ کر اس کی متفقہ حیثیت کو برقرار رکھنے کے مقصد اور انھیں اس کا حصہ ہونے کا احساس دلانے کیلئے کئی نائب صدور بھی ہوتے ہیں لیکن بظاہر ان کے کچھ اختیار ات اور ذمہ داریاں نہیں ہوتیں اور نہ ہی بورڈ کی سطح پر ان کا کوئی سرگرم کردار نظر آتا ہے۔
بورڈ میں دوسرا اہم عہدہ جنرل سکریٹری کا ہے جس پر عملی طور پر بورڈ کے مقاصد کے حصول کے لئے پروگرام تیار کرنے اور اس کی منظوری کے بعد اس کی تنفیذ کی بڑی ذمہ داری ہوتی ہےجس پر اس وقت مشہور عالم دین اور تعلیمی و معاشر تی میدان میں سرگرم اور سیاسی و دیگر حلقوں میں بھی اچھا اثر و رسوخ رکھنے والے مولانا ٖفضل الرحیم مجددی صاحب فائز ہیں۔اور بظاہر سکریٹری جنرل کی مدد اور الگ الگ امور کی انجام دہی کیلئے بورڈ میں کئی سکریٹری بھی ہیں جن میں ندوۃ العلماء کے ناظم مولانا بلال حسنی ندوی، امارت شرعیہ کے امیر مولانا فیصل ولی رحمانی اور مولانا عمرین محفوظ رحمانی جیسی متحرک ، فعال اور سرگرم شخصیتوں سےامت و ملت کو بہت سی توقعات وابستہ ہیں۔ ان سکریٹریوں کو مختلف و متعین شعبوں کی ذمہ داری دے کر بورڈ کے کاموں میں مزید فعالیت، جوابدہی اور سرگرمی پیدا کرکے اس عہدہ کی شان اور افادیت کو بڑھایا اور مزید مفید بنایا جاسکتا ہے۔
اسی طرح بورڈ میں مختلف امور کی انجام دہی اور فیصلوں کیلئے عہدیداروں کے علاوہ مختلف مجلسیں اور کمیٹیاں ہیں جن میں مجلس عاملہ، مجلس تأسیسی خاص طور پر قابل ذکر ہیں ،میقاتی ممبران کا بھی انتخاب کیا جاتا ہے اور ایک بڑی تعداد کو مدعو خصوصی کی حیثیت سے بلایا جاتا ہے ۔بورڈ کے عہدہ ہی نہیں بلکہ اس کی کسی بھی کمیٹی میں انتخاب کسی اعزاز سے کم نہیں ہوتا اورملک و بیرون ملک اس ممبر کے علمی و سماجی قد اور قدر دونوں میں اضافہ کا ذریعہ اور مزید احترام اور اعتماد کا سبب بنتا ہے جس کی وجہ سے لوگ اس کے حصول کیلئے کوشاں بھی رہتے ہیں اور اس عہدہ کو اپنے نام کے ساتھ لکھنا باعث فخر سمجھتے ہیں۔ لیکن ان کی کوئی ذمہ داری جس کے تئیں وہ اپنے کو جوابدہ محسوس کریں اور جس کی بنیاد پر ان کا انتخاب یا اگلی میقات میں تجدید یا دوبارہ موقع ملنے یا نہ ملنے کا فیصلہ ہو میرے علم میں نہیں۔ حالانکہ یہ تمام ممبران عام طور پراپنے مسلک، جماعتوں، تعلیمی اداروں میں ہی نہیں بلکہ مختلف میدانوں میں سر گرم باحیثیت اورعوام و خواص میں مقبول ہوتے ہیں اور ان کے سرگرم اور فعال کردار سے بورڈ کے مقاصد کے حصول میں کافی مدد مل سکتی ہے۔
اب جبکہ بینگلورمیں بورڈ کا انتیسواں اجلاس منعقد ہونے جا رہا ہے جس میں عملی طور پر تأسیسی ممبران کی خالی نشستوں اورمیقاتی ممبران کا انتخاب بھی ہوگا اور آئندہ میقات کیلئے صدر اور بورڈ کے 40/ارکان عاملہ کے تعین اور اعلان کی رسم بھی اد ا کی جائے گی، حساب کا گوشوارہ بھی پیش کیا جائے گا اور بورڈ کی مختلف کمیٹیوں کی کارکردگی کا جائزہ لے کر آئندہ کے لائحہ عمل پر غور کیا جائے گا اور رسمی طور پر مجلس عاملہ کے مشورہ سے بورڈ کے عہدیداروں کی نامزدگی بھی ہوگی اورخاص طور پر صدر محترم کی طرف سے 10/ ارکان عاملہ کے ناموں کا اعلان کیا جائے گا جس سے بورڈ کے رخ اور آئندہ کے طریق کار اور رجحان کا کسی قدر اندازہ لگانا ممکن ہو سکے گا ۔
ہندوستان میں ملت اسلامیہ اس وقت جن اہم مسائل سےدوچار ہےاس کا اس نششت میں جائزہ لے کر آئندہ کے لائحہ عمل پر غور و خوض کیا جائے گا، جس میں جملہ ممبران اور مدعو خصوصی تما م شرکاء حصہ لیں گے۔ جن میں مسلم پرسنل لا سے متعلق مختلف عدالتوں میں دائر مقدمات، وقف ترمیمی بل کی روک تھام پر اب تک کی جانے والی کوششیں، یونیفارم سول کوڈ، عبادت گاہوں کا تحفظ وغیرہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
بینگلور کےاس اجلاس میں بورڈ کے تقریبا تمام ممبران، اہم ملی، سماجی، سیاسی ، تعلیمی و قانونی ماہرین و رہنما ملکی صورت حال، یہاں کے ملی مسائل ، اس کے حل اور اس کے لئے ذمہ داریاں اور ذمہ داروں کے تعین و تعیین کے لئے سر جوڑ کر بیٹھ رہے ہیں۔ میں امید کرتا ہوں کہ ملت اسلامیہ ہندیہ کیلئے یہ اجلاس ہر طرح سے خیر وبرکت کاسبب اور ان کی دینی ، تعلیمی اور سماجی فلاح و بہبود اور اس ملک میں اپنے تشخص کے ساتھ باوقار انداز میں رہنے کی امیدوں کا نقطہ اولیں ثابت ہوگا۔
تحریرْ: ذکی نور عظیم ندوی، لکھنؤ
zakinoorazeem@gmail.com