آپ ﷺ رحمت للمسلمین نہیں رحمت للعالمین

از قلم: شیبان فائز، جلگاؤں

میرا قلم عاجز ، میرا ذہن محدود ، میری بصیرت ادنیٰ ، میری سوچ معصوم ۔ سمجھ نہیں آتا اس مبارک عنوان کا آغاز کیسے اور کہاں سے کروں ۔ پھر بھی میری ادنیٰ سی کوشش پیشِ خدمت ہے۔
ائے پیغمبر ﷺ ہم نے آپ کو سارے جہانوں کے لیے رحمت ہی رحمت بنا کر بھیجا ہے ۔ ( القرآن سورہ انبیاء)
اس کا نام محمد ہوگا اور وہ اس زمین پر انسانیت کے نجات دہندہ بن کر آئے گے ۔ (انجیل )
ائے نبی ﷺ ہم نے بھیجا ہے آپ کو گواہ بنا کر ، خوشخبری دینے والا ، ہم نے آپ کا نام المتوکل رکھا ۔ آپ ہمارے بندے اور رسول ہے ۔ (تورات)
ایک معلمِ روحانی اپنے اصحاب کے ساتھ ظاہر ہوگا جس کا نام محمد ہوگا ۔ ( بھوشیہ پران ، ہندو دھرم )
ائے پاک لوگوں رب کا کلمہ محمد کا نام ملا کر پڑھو جو خدا کا حبیب ہے ۔ ( بقول گرونانک سکھ دھرم )
اللّٰہ کی آخری کتاب قرآن مجید کے ساتھ ساتھ دیگر آسمانی کتب ، ہندو و سکھ دھرم کی مقدس کتب اور پیشن گوئیاں آپ ﷺکی آمد اور رحمت للعالمین ہونے پر شاہد ہیں ۔ اس سے بڑھ کر اور کیا شہادت ہوسکتی ہے کہ محمد ﷺ کو رحمت للعالمین کا لقب خود خالقِ ارض و سماں نے عطا کیا ۔
لفظ رحمت بڑا ہی جامع لفظ ہے ۔ جس میں محبت ، شفقت ، ہمدردی ، اخوت ، بھائی چارگی اور فضل و احسان کے سارے پہلوں بیک وقت سما جاتے ہیں ۔ پھر عالمین لفظ میں جو نکتہ پوشیدہ ہے وہ بھی اہلِ علم سے مخفی نہیں کہ آپ ﷺ صرف عالمِ انسانیت کی کی طرف مبعوث نہیں ہوئے بلکہ جن و بشر ، چرند و پرند جیسی دیگر مخلوقات کو بھی آپ ﷺ کی رحمت کا دائرہ محیط ہے ۔ آپ ﷺ نے انسانوں کے ساتھ ساتھ جانوروں اور پرندوں کے ساتھ بھی نرم روی اور رحمدلی کا برتاؤ کیا اور اپنے اصحاب کو بھی اس کی تلقین کی۔


کہہ رہا ہے ایک ایک بابِ حیاتِ مصطفیٰ ﷺ
دیکھ انسان ! سیرتِ انساں کا یہ معیار ہے

بیشک ! آپ ﷺ کی ذاتِ مبارکہ سرتاپا رحمت ہی رحمت ہے ۔ آئیے چند ایک اشاروں پر نظر ڈالیں جن کی خاموش صدائیں گونج بن کر ہمیں بار بار بیدار کرتی رہتی ہیں ۔

کچرا پھینکنے والی بوڑھی عورت کے ساتھ حسنِ سلوک
غزوات میں ہاتھ لگے غلام ، جنگی قیدی و باندیوں کے ساتھ حسنِ سلوک
دشمنانِ اسلام کے ساتھ صلہ رحمی و حسنِ سلوک
فتح مکہ کے بعد تاریخی عام معافی کا اعلان
طائف کے میدان میں حددرجہ تکلیف سہنے کے باوجود اہلِ طائف کے حق میں دعائے خیر
چرند و پرند کے ساتھ حسنِ سلوک پر بار بار تلقین
دورانِ جنگ اسلامی رہنما اصول
انسانیت کے نام پر حجتہ الوداع کا تاریخی خطبہ
حضرات اس دور کو یاد کیجیے جب معاشرہ انسانی برائیوں کی آماجگاہ تھا ۔ انسان مضطرب و بے قرار تھا ۔ عدل و احسان کا فقدان تھا ۔ ظلم و جہل کی گرم بازاری تھی ۔ انسانیت امن و سلامتی کو ترس رہی تھی ۔ انسانی دل نڈھال ، دماغ تھکا ہوا ، ضمیر بےحس و مردہ تھا ۔ ظلم و جبر کی اندھی و بہری قومیں انسانیت کے وجود سے تہذیب و اخلاق کا پیرہن نوچ رہی تھیں۔
اللہ اللہ ! رحم رحم ! پھر کیا تھا ۔ عرشِ الٰہی کو جوش آیا اور محمد ﷺ مبعوث ہوئے اور پھر رت بدلی ، سماں بدلا ، معاشرہ نے اپنی حقیقی آنکھیں کھولی اور ایسا پر امن ماحول وجود میں آیا کہ دوسروں کی عزت اپنی عزت بن گئی ، دختر کشی کی ناپاک رسموں کا صفایا ہوگیا ، ایثار و اعتراف کے نئے باب قائم ہوئے ، دنیا کا ضمیر جاگ گیا ، قومی نسلی غرور ٹوٹ گیا ، کمزوروں اور بے بسوں کی ڈھارس بندھ گئی غرض دیکھتے ہی دیکھتے دنیا بدل گئی ۔ جہاں انسانوں کی بستی میں کوئی انسان نظر نہ آتا تھا وہاں لاکھوں کی تعداد میں ایسے انسان پیدا ہوگئے جو اندھیرے و اجالے میں خدا سے ڈرنے والے تھے ۔ جو یقین کی دولت سے مالا مال تھے ۔ جو دشمن کے ساتھ بھی انصاف کرتے تھے ۔ جو رات کے عبادت گزار اور دن کے شہسوار تھے جنھوں نے کفار کے نرغے میں جاکر کلمہ حق بلند کیا ۔ جن کی عظمت و درخشانی پر ہر مورخ انگشت بدنداں ہے ۔
مگر یہ ثمرات رسول ﷺ عربی کو یونہی حاصل نہیں ہوئے ۔ اس کے لیے آپ ﷺ نے سخت جانفشانی و عرق ریزی سے کام لیا ۔ پانی کی ہر بوند کو گوہر اور ذرہ کو آفتاب بنانے کا ہنر آپ ﷺ جانتے تھے ۔ بہتے پانی کا رخ اور چلتی ہواؤں کے تیور آپ ﷺ سمجھتے تھے ۔ آفتاب کی کرنوں کو سمیٹنے کا گر آپ ﷺ کے پاس تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ دینِ فطرت کا یہ روشن چراغ عرب کی سنگلاخ وادیوں سے نکلا اور پورے عالم پر روشنی بکھیر دی ۔ محمد ﷺ نے اپنے اوصافِ پارینہ سے پوری دنیا کو یہ بتلا دیا کہ اسلام انسانی اجسام پر نہیں بلکہ انسانی قلوب پر حکومت کرتا ہے کیونکہ اللّٰہ رب العالمین ہے اور محمد ﷺ رحمت للعالمین۔

محمد ﷺ نے دعائیں دے کر بتلایا یہ دشمن کو
کہ اکثر پھول سے ٹکرا کر پتھر ٹوٹ جاتے ہیں