ایسا کہاں سے لاؤں تجھ سا کہیں جسے! آہ ڈاکٹر اقبال نیر بھی اب روپوش ہو گئے

ازقلم: مجیب الرحمٰن، جھارکھنڈ

زندگی کیا ہے ، ایک تماشا ہے جو اپنا کام کرکے فنا ہو جاتا ہے ، بھلا کسی تماشا اور تماشا باز کو دوام کب حاصل ہوا اور ہو بھی کیسے بقا تو صرف ایک ذات کی ہے باقی کیلئے فنا لکھ دیا گیا ہے ، پھر اے انسان تجھے غرور کس بات کا ہے ؟ تو اپنی منزل سے غافل کیوں ہے ، فنا کو دیکھ اور عبرت کی نگاہ ڈال کر اندھیری کوٹھری کیلے خود کو تیار کرلے۔

آج بروز۔ جمعہ۔و 18مارچ 2022 قریبا دوپہر کے وقت یہ خبر موصول ہوئی کہ ڈاکٹر اقبال نیر صاحب دار بقا کی طرف کوچ کر گئے ہیں ، دل دھک سے ہوگیا ، آنکھوں تلے اندھیرا چھا گیا ، بدن میں رعشہ طاری ہو گیا ، کلیجہ گویا منہ کو آگیا ، لرزتے لرزتے اپنے ایک برادر عزیز مفتی اسلم صاحب ندوی کو فون ملایا چونکہ یقین نہیں آرہا تھا اس لیے شک کو دور کرنے کیلئے ان سے بات کرنی ضروری تھی بلاآخر انہوں نے تصدیق کردی اور یوں مجھے ایک مربی سے یتیم ہونا پڑا۔
ڈاکٹر اقبال نیر صاحب ضلع لاتیہار، صوبہ جھارکھنڈ سے تعلق رکھتے تھے ان کی شخصیت ہمہ جہت پہلو پر محیط تھی وہ ایک عالم ہونے کے ساتھ ساتھ ایک داعی ، ایک قائد ، ایک رہبر و رہنما ، ایک مشیر اور مصلح کار بھی تھی ، طبیعت کی ناسازی کے باوجود بھی اپنے مشن کو کوتاہ دستی سے محفوظ رکھا اور قوم و ملت کے مسائل کو اپنا مسئلہ سمجھتے ہوئے عدالت کو بھی چیلنج کیا ،۔ جس سے ان کی بے باکی اور نڈر ہونے کا پتہ چلتا ہے۔

ڈاکٹر اقبال نیر صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے میری کوئی ملاقات تو نہیں رہی البتہ فون پر رابطہ ضرور رہا میری بڑی تمنا تھی ملاقات کی یہی معاملہ ان کے ساتھ بھی تھا لیکن قدرت کے فیصلے اپنے طور پر نافذ ہوتے ہیں اسی لئے کہا جاتا ہے کہ بعض غم ایسے ہوتے ہیں جو مرنے کے بعد بھی ٹیس پہنچاتے ہیں یہ معاملہ کچھ ایسا ہی تھا ،
تقریباً 2018 سے رابطہ رہا جب میں نے ان کو اپنے مضامین کا مسودہ بھیجا تو پڑھ کر بے حد مسرت کا اظہار فرمایا چونکہ مجھے شائع کرانا تھا اس لئے انہوں نے کئی مفید مشوروں سے بھی نوازا۔
ڈاکٹر صاحب کتابوں کے رسیا تھے لکھنے کا بڑا ذوق تھا کئی کتابوں کے مصنف بھی ہیں جن میں سب سے زیادہ جو کتاب عوام و خواص میں مقبول ہوئی وہ،۔۔۔۔۔۔ سیرت سرکار دوعالم ۔۔ ہے۔ ان کی تصنیفی و تحقیقی صلاحیت کا میں اس وقت قائل ہوگیا جب معروف عالم دین حضرت مولانا سید سلمان حسینی دامت برکاتہم العالیہ کی زبانی اس کتاب کا گن گاتے ہوئے سنا یہاں سے ڈاکٹر صاحب سے ایک طرح کی قلبی الفت ہو گئی۔
ڈاکٹر صاحب کے صلاح و تقویٰ ، طہارت و پاکیزگی کا ہر کوئی قائل ہوا ان کے اخلاق و اطوار سے اپنے تو دور غیر بھی متاثر تھے یہ وہ خوبی ہے جو اللہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے نوازتا ہے ، ان کی اعلی ظرفی مجھے یہ دیکھنے کو ملی کہ جب بھی میں نے فون ملایا ہمیشہ جواب دیا اور خوش مزاجی سے گفتگو فرمائ ، آج کل ذرا سا عہدہ مل جائے تو لوگ خود کو زمین کا خدا سمجھنے لگتے ہیں ، لیکن ڈاکٹر صاحب نے کبھی خود کو بڑا ظاہر نہیں کیا اور اسی کسر نفسی میں پوری زندگی گزاردی۔

اب ڈاکٹر صاحب ہمارے درمیان نہیں رہے لیکن ان کی یادیں ان کے علمی کارنامے ہمیشہ ہمارے پاس رہیں گے اور ان سے روشنی حاصل کرتے رہیں گے ،۔ اہ۔ اے جانے والے حسرت دید کی ایک دنیا چھوڑ کر چلے گئے اس قلق کو میں کیسے سہاروں گا ، آنکھیں بھیک چکی ہیں لیکن خوش ہوں اس یقین کے ساتھ کہ اس ذات رحیم و کریم نے استقبال کیلئے فرشتوں کو فرش راہ کردیا ہوگا ،۔ اللہ آپ کو بہترین بدلہ عطا فرمائے۔
اپنی رحمت کے وسیع اور لامتناہی سمندر میں جگہ عطا فرمائے۔