مولانا غفران ساجد قاسمی چیف ایڈیٹر بصیرت آن لائن وڈائرکٹر بصیرت جنرلزم اینڈ لنگویج اکیڈمی ممبئی، انتہائی فعال، متحرک انسان ہیں، میری یادداشت کے مطابق علماء طبقہ میں آن لائن صحافت اور پورٹل کے ذریعہ خبر رسانی کا کام انہوں نے ہی پہلے پہل شروع کیا تھا، بعد میں بہت سارے لوگ علماء طبقہ سے اس میں جڑے،اپنی خدمات پیش کیں اور اپنا آن لائن چینل شروع کردیا، اس حوالہ سے جو بھی اور جہاں کہیں بھی خدمت انجام دیا ہے، وہ ملت کی طرف سے شکریہ کا مستحق ہے، البتہ الفضل للمتقدم کہا گیا ہے، یقیناً بہت سارے چینل بصیرت آن لائن سے آگے بڑھ گئے، لیکن مولانا کی اصول پسندی، اشتہارات کے ضوابط اور شرعی تقاضوں کو ملحوظ نظر رکھنے کی وجہ سے بصیرت آن لائن کو جس قدر آگے بڑھنا تھا، نہیں بڑھ سکا، مولانا نے صحافت کی تربیت کے لئے ممبئی میں ایک ادارہ کھول رکھا ہے، میری حاضری وہاں ہوچکی ہے اور مولانا کی محبت کے طفیل وہاں داخل طلبہ سے بالمشافہ گفتگو کا موقع بھی ملا تھا، میں نے ان سے صحافت کے اصول اور عملی صحافت کے طریقہ کار پر تفصیل سے گفتگو کیا تھا، مولانا وضع قطع کے اعتبار سے پورے مولوی ہیں، خوبصورت چہرے پر کالی ٹوپی اور صدری انہیں خوب زیب دیتی ہے اور نگاہیں دور تک پیچھا کرتی رہتی ہیں کہ آخر یہ کون جارہا ہے۔
گذشتہ چار سالوں سے ان کے سر میں ایک اور سودا سمایا کہ علماء مدھوبنی کے تذکرے مرتب کرانے چاہئیں، ظاہر ہے یہ ایک بڑا پروگرام نہیں، بڑا پروجکٹ تھا اور ایک دفعہ اس پر کام کرنا دشوار بھی تھا، اس لیے انہوں نے تدریجاً اس کام کو آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا، اس کام میں ان کو عملی طورپر جس شخص کا مضبوط ساتھ ملا، ان میں مولانا مظفر رحمانی استاذ مدرسہ جامعۃ الفلاح کا نام خاص طور پر قابل ذکر ہے، وہ حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی دامت برکاتہم کے تربیت یافتہ ہیں، ان کے جسم میں ایک محبت کرنے والا دل ہے اور وہ یہ محبت اپنوں اور غیروں پر لٹاتے رہتے ہیں، ان کے علاوہ پچاس سے زائد اور نام ہیں، جن کا وہ شکریہ ادا کرنا اور مختلف عنوانات کے تحت ان کے ناموں کو چھاپنا ضروری سمجھتے ہیں، زیر سرپرستی، زیر نگرانی، کنوینر، مر تبین ، مجلس سرپرستان، مجلس استقبالیہ، مجلہ کمیٹی، ایوارڈ،کمیٹی وغیرہ.کام سب سے لینا ہے تو نام بھی سب کا دینا ہوگا، بعض کام بقول مولانا مناظر احسن گیلانی، بمد خوش کرنی کیے جاتے ہیں، ناموں کی اشاعت میں بھی اس بات کو ملحوظ رکھنا ہوتا ہے، صلاحیتیں مختلف قسم کی ہوتی ہیں، کوئی مضامین لکھتا اور جمع کرتا ہے، کوئی روپے کا نظم کرتا ہے، کوئی سمینار کا اہتمام کرتا ہے، کوئی اشتہار لاتا ہے،کوئی حوصلہ افزائی کرتا ہے اور کوئی زبانی مشورے سے کام چلا لیتا ہے، تعاون کے لیے دامے، درمے، قدمے، سخنے کی تجویز قدیم ہے اور ”دل بدست آرد کہ حج اکبراست“ کا فارمولہ بھی آج کا نہیں ہے، مولانا غفران ساجد قاسمی نے اس پرانی روش کو برقرار رکھا ہے۔
مولانا نے اب تک اس موضوع پر چار سمیناروں کا انعقاد کیا یااپنے احباب کے ذریعہ کروایا،ان سمیناروں میں مدھوبنی کی بائیس نامور شخصیات پر مقالے پڑھے گیے اور وہ تذکرہ علماء مدھوبنی کے نام سے بصیرت آن لائن کی خصوصی پیش کش کے طور پر شائع ہوئے، تذکرہ علماء مدھوبنی پر چوتھا سمینار 6/ نومبر 2024ء بروز بدھ بمقام مدرسہ اصلاح المسلمین بینی پٹی ضلع مدھوبنی میں منعقد ہوا، جس کی صدارت حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی دامت برکاتہم نے فرمائی اور سابقہ روایت کے مطابق تذکرہ علماء مدھوبنی کی چوتھی قسط مجلہ کی شکل میں سامنے آئی، ان سمینار میں کل گیارہ شخصیات پر مقالے پڑھے گیے اور اہل قلم حضرات نے مولانا عبد الرزاق مکیاوی، مولانا سعید احمد چندر سین پوری، مولانا عبد الحفیظ ململی، مولانا مفتی صدر عالم قاسمی، مولانا محمد الاثری، مولانا ابرار احمد قاسمی، مولانا جمیل احمد مفتاحی کو اپنی تحقیق کا موضوع بنایا اوربیش قیمت مقالے تیار کیے، ان مقالوں کو پڑھنے سے ان حضرات کی شخصیت کے پورے خد وخال اور ان کی خدمات کے تابندہ وپایندہ نقوش سے ہماری واقفیت ہوتی ہے، جو مقالہ نگار حضرات ہیں ان میں سے مفتی محمد اللہ قیصر کے چار، ڈاکٹر عمر فاروق قاسمی، مولانا احمد سجاد، مولانا فضیل احمد ناصری کے دو دو مضامین شامل اشاعت ہیں، اسی طرح بعض شخصیات پر کئی کئی مضامین کو جگہ دی گئی ہے، اگر ہر لکھنے والے کا ایک مضمون شامل ہوتا تو دوسرے کئی لکھنے والوں کو موقع مل سکتا تھا، اسی طرح اگر ایک شخصیت پر ایک ہی مضمون شامل کیا جاتا تو دوسرے اور کئی مرحومین کی حیات وخدمات سے اتنے ہی صفحات میں واقفیت بہم پہونچائی جا سکتی تھی، اس کی آسان شکل سمینار سے قبل اہل قلم کے درمیان شخصیات کی تقسیم ہے، اس طرح بہت جلداس پروجکٹ کی تکمیل بھی ہو سکتی ہے۔
اسی طرح تذکرہ علماء مدھوبنی کی اشاعت مجلہ کی سائز میں ہونے کے بجائے کتابی سائز میں ہو تو یہ زیادہ مفید اور دیرپا ہوگا، بقیہ رہ گئے اشتہارات، تاثرات وغیرہ ان کو آخر میں رکھ دیا جاسکتا ہے، جنہیں بعد میں حذف کردینا بھی ممکن ہوسکے گا۔
تذکرہ علماء مدھوبنی دوسرے اضلاع کے لیے بھی ایک تحریک ہے، ہر ضلع کے علماء، اس طرف متوجہ ہوں تو ہم بہت ساری اہم شخصیتوں کو جو مرور زمانہ کی وجہ سے ہمارے ذہن سے نکل گئے ہیں، زندہ کرسکیں گے۔
مختصر یہ کہ ”تذکرہ علماء مدھوبنی“ مولانا غفران ساجد قاسمی کی قابل قدر کوشش ہے، جو ”نام نیک رفتگاں ضائع مکن“ کے پیش نظر جاری ہے، یہ ایک تاریخی اور شاندار کارنامہ ہے، جس سے آنے والی نسلیں روشنی حاصل کرتی رہیں گی اور ہماری زندگی ان سے عبرت وموعظت لے کر اور ان کے نقش قدم پر چل کر مجلیٰ، مصفیٰ ہوگی اور اعمال کے اعتبار سے زندگی کا ورق ورق روشن ہوسکے گا، ہم مولانا غفران ساجد قاسمی کی اس کاوش کی قدر کرتے ہیں اور اس کے نفع کے عام وتام اور اس کے تسلسل کی دعا پر اپنی بات ختم کرتے ہیں۔
تحریر: (مفتی) محمد ثناء الہدیٰ قاسمی، نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھارکھنڈ