گستاخی رسول پر غصہ کیوں آتا ہے؟ (عام مغالطے کا ازالہ)

تحریر: خالد سیف اللہ صدیقی

مولانا مناظر احسن گیلانی ؒ لکھتے ہیں :
"بخاری شریف کا سبق ہو رہا تھا۔ مشہور حدیث گزری کہ ‘تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا ، جب تک کہ اس کے مال اور بال بچے اور سارے انسانوں سے زیادہ ‘میں’ اس کے لیے محبوب نہ ہو جاؤں’۔ ‘لایکون [یؤمن] احدکم حتی اکون احب الیہ من والدہ و ولدہ و الناس اجمعین’ کا جو حاصل اور ترجمہ ہے۔ مشہور حدیث ہے ، اور جانی پہچانی جاتی ہے۔ فقیر ہی نے [حضرت شیخ الہندؒ سے]عرض کیا کہ : ‘بحمداللہ عام مسلمان بھی سرکار کائنات کے متعلق محبت کی اس دولت سے سرفراز ہیں ، جس کی دلیل یہ ہے کہ ماں باپ کی توہین تو ایک حد تک مسلمان برداشت کر لیتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ گالیوں کے جواب میں وہ بھی گالیوں پر اتر آتا ہے ؛ لیکن رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی ہلکی سے سبکی بھی مسلمانوں کو اس حد تک مشتعل کر دیتی ہے کہ ہوش و حواس کھو بیٹھتے ہیں۔ آئے دن کا مشاہدہ ہے کہ جان پر لوگ کھیل گئے’۔ سن کر حضرت نے فرمایا کہ ‘ہوتا بے شک یہی ہے ، جو تم نے کہا ؛ لیکن ایسا کیوں ہوتا ہے ؟ تہہ تک تمہاری نظر نہیں پہنچی۔ محبّت کا اقتضا یہ ہے کہ محبوب کی مرضی کے آگے ہر چیز قربان کی جائے ؛ لیکن عام مسلمانوں کا جو برتاؤ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مرضی مبارک کے ساتھ ہے ، وہ بھی ہمارے تمہارے سامنے ہے۔ پیغمبر نے ہم سے کیا چاہا تھا ، اور ہم کیا کر رہے ہیں ، اس سے کون ناواقف ہے ؟ پھر سبکی آپ [صلی اللہ علیہ وسلم] کی ، جو مسلمانوں کے لیے ناقابلِ برداشت بن جاتی ہے ، اس کی وجہ محبت تو نہیں ہو سکتی’۔ خاکسار نے عرض کیا ، تو آپ ہی فرمائیں ، اس کی صحیح وجہ کیا ہے ؟
نفسیاتِ انسانی کے اس مبصر حاذق نے فرمایا کہ : ‘سوچو گے ، تو در حقیقت آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سبکی میں اپنی سبکی کا غیر شعوری احساس پوشیدہ ہوتا ہے۔‌ مسلمانوں کی خودی اور انانیت مجروح ہوتی ہے۔ ہم جسے اپنا پیغمبر اور رسول مانتے ہیں ، تم اس کی اہانت نہیں کر سکتے۔ چوٹ در حقیقت اپنی اسی ‘ہم’ پر پڑتی ہے ؛ لیکن مغالطہ ہوتا ہے کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت نے انتقام پر ان کو آمادہ کیا ہے۔ نفس کا یہ دھوکا ہے”۔ (احاطہ دارالعلوم میں بیتے ہوئے دن : ١٥٣-١٥٥)
اللہ اکبر! ہمارے بزرگوں کا طرز فکر اور منہج فکر کیا تھا۔ دینی امور میں وہ کس دقت نظر کے قائل تھے۔ دوسری طرف آج کے لوگ ہیں ، دین کے نام پر ہنگامہ بپا کیے ہوئے ہیں۔ دین کے نام پر طرح طرح کے امور اور سرگرمیاں انجام دے رہے ہیں۔ اور ان سب کا محرک اور محرِّض کیا ہے ؟ وہی سطحیت ، وہی جذباتیت ، وہی نفسانیت۔ ‘سر تن سے جدا’ ، ‘سر تن سے جدا’ جیسے نعرے لگاتے ہیں ، اور عملی زندگی میں مرضیاتِ رسول کی پروا نہیں کرتے۔ بھلا یہ کب سے عشق رسول اور محبت رسول کا پیمانہ ہوگیا ؟ عشق رسول یہ ہے کہ رسول کے ایک ایک حکم پر عمل پیرا ہوا جائے۔ رسول کی ایک ایک سنت اور ایک ایک ادا سے اپنی زندگی کو خوش بو دار اور معطر کیا جائے۔ اور جب ضرورت ان پڑے ، تو دینِ رسول (مراد : رسول کا لایا ہوا دین نہ کہ رسول کا بنایا ہوا دین) کے لیے خود کو قربان کر دیا جائے ، اور یہ سمجھا جائے کہ ‘حق تو یہ ہے حق ادا نہ ہوا’_جو ایسا کرے ، بس وہی عاشقِ رسول اور محبِ رسول ہے۔ باقی سب ڈھونگ ہے۔ فریب ہے۔ دھوکا ہے۔ مغالطہ ہے۔

(4/10/2024)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے