غزل: زہریلی ہو گئی ہے چراغوں کی روشنی

سینے میں جس کے ہوگی کتابوں کی روشنی
پائیں گے وہ نصاب کے تاروں کی رو روشنی

پرتو سے کہ رہی ہے کناروں کی روشنی
ظلمت لیے ہے ساتھ چراغوں کی روشنی

نمناک چشم دیکھ کے ظلمت کدے تلک
پہنچیں گی خودبخود ہی شراروں کی روشنی

آتی ہے تیرے حسن کا صدقہ اتارنے
پڑتی ہے جو زمین پہ تاروں کی روشنی

اس واسطے ہی سارے پتنگے فنا ہوئے
زہریلی ہو گیئی ہے چراغوں کی روشنی

ذہنوں کی راہ کو بھی ملے چاہ اک نئی
جب آسماں پہ دیکھوں جہازوں کی روشنی

بدبخت ہیں جو پاکے بھی بہروں کے ہیں مثال
کانو میں آرہی ہے اذانوں کی روشنی

وہ دیکھتے ہیں مجھکو مگر دیکھتے نہیں
کمزور اس قدر ہیں نگاہوں کی روشنی

جاوید میری فکر کے طائر ہوں مدحہ خاں
آئے جو میری سمت غزالوں کی روشنی

نتیجۂ فکر: جاوید سلطانپوری

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے