آندھرا پردیش کے انامیا ضلع کے رائچوٹی علاقے میں پیش آنے والا یہ افسوسناک واقعہ تعلیمی اداروں میں اقدار کی گراوٹ کے نتیجے میں بڑھتے ہوئے تشدد کے سنگین مسئلے کو اجاگر کرتا ہے۔ رائچوٹی ضلع پریشد اردو میڈیم ہائی اسکول میں 42 سالہ فزکس/ریاضی کے استاد محمد اعجاز کی موت ایک المناک مثال ہے، جہاں استاد کی جانب سے طلبہ کو شرارت پر ڈانٹنے کے نتیجے میں ان پر حملہ کیا گیا۔ اور ان کے سینے پر گھونسے مارے گۓ جس کی وہ تاب نا لا سکے اور کلاس سے باہر نکل کر زمین پر گر گیے ۔ اس المناک واقعے کو سوچ کر رونگھٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔
احساس ذمہ داری سے سرشار محمد اعجاز جیسے تجربہ کار معلم، جو نسلوں کو تعلیم و تربیت فراہم کرنے جزبہ رکھتے ہوں، اور ان میں تعلیم کو پروان چڑھانے کا جزبہ فکر احساس ذمہ داری ہوں وہ ایسے افسوسناک انجام کا شکار ہوں، تو یہ نہ صرف تعلیمی نظام بلکہ معاشرتی اقدار پر بھی گہرا اثر ڈال سکتا ہے۔ مذکورہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب نویں جماعت کے تین طلبہ نے استاد پر غصے میں حملہ کیا، جس کے بعد محمد اعجاز کو قے ہوی اور وہ کلاس روم میں بے ہوش ہو گئے معاون اساتذہ انھیں اسپتال لے گئے دوران علاج محمد اعجاز انتقال کر گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون ۔۔
یہ المناک واقعہ تعلیمی اداروں پر ہی نہیں بلکہ ہمارے معاشرے کے بگڑتے اخلاقی نظام پر سوالیہ نشان ہے ۔
1۔ طلبہ میں اس قدر غصہ اور تشدد کی ذہنیت کیسے پروان چڑھ رہی ہے؟
2۔ کیا اسکولز میں اساتذوں کے تحفظ کے لیے مناسب اقدامات کیے جا رہے ہیں؟
3۔ والدین اور تعلیمی ادارے طلبہ کی تربیت اور اخلاقیات پر کتنا زور دے رہے ہیں؟
متوفی کی بیوی رحیم النساء نے پولیس میں شکایت درج کرائی ہے، اور اس واقعہ پر تفتیش جاری ہے۔ تاہم، اس سانحے کا ایک اہم سبق یہ ہے کہ تعلیمی اداروں میں نظم و ضبط اور اخلاقی تربیت کو بہتر بنانے کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں۔ حکومت اور اسکول انتظامیہ کو اساتذہ کے تحفظ کے لیے مضبوط پالیسیز اپنانے کی ضرورت ہے تاکہ آئندہ ایسے المیہ سے بچا جا سکے۔
محمد اعجاز کی موت ایک یاد دہانی ہے کہ استاد کا مقام معاشرے میں بلند ہونا چاہیے، اور ان کے ساتھ ایسا سلوک ہرگز ناقابل قبول ہے۔ اس واقعے پر غور کرنا اور عملی اقدامات اٹھانا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔
آج کے طلباء و نوجوانوں میں اخلاقی گراوٹ اس قدر سراعت کر گئ ہے کہ وہ اپنے حقیقی والدین کو بھی معمولی وجہ پر زدو کوب کرنے اور مارنے یا قتل جیسے گھناؤنا کام بھی کر گزر رہے ہیں…اور استاد جو انھیں غلط کاموں پر ٹونکتے ہیں ایسے اساتذہ ان کے لیے دشمن ہے ۔ اس لئے وہ استاد کو مارنے بے عزتی کرنے اور قتل جیسے کام کو بھی کرنے سے نہیں ڈر رہیں ہیں۔ مستقبل قریب میں ایسے مزید واقعات رو نما ہوسکتے ہیں. اس کے تدراک کے لیے، تعلیمی اداروں میں اخلاقی لیکچرس ، علماء کے خطاب ،کونسلنگ ،نیز دینی و اخلاقی سرگرمیوں کا انعقاد وغیرہ کے علاوہ اخلاقی بہتری کے لیے ضروری اقدامات لازمی ہے۔