عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّةِ وَإِنَّمَا لِامْرِئٍ مَا نَوَی فَمَنْ کَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَی اللَّهِ وَرَسُولِهِ فَهِجْرَتُهُ إِلَی اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَمَنْ کَانَتْ هِجْرَتُهُ لِدُنْيَا يُصِيبُهَا أَوْ امْرَأَةٍ يَتَزَوَّجُهَا فَهِجْرَتُهُ إِلَی مَا هَاجَرَ إِلَيْهِ
صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 430 (متفق علیہ)
It has been narrated on the authority of Umar bin al-Khattab that the Messenger of Allahﷺ said: (The value of) an action depends on the intention behind it. A man will be rewarded only for what he intended. The emigration of one who emigrates for the sake of Allah and His Messengerﷺ is for the sake of Allah and His Messengerﷺ; and the emigration of one who emigrates for gaining a worldly advantage or for marrying a woman is for what he has emigrated.
اردو ترجمہ:-سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایا : ” عملوں کا اعتبار نیت سے ہے اور آدمی کے واسطے وہی ہے جو اس نے نیت کی، پھر جس کی ہجرت اللہ اور رسول کے واسطے ہے تو اس کی ہجرت اللہ اور رسول ہی کے لیے ہے اور جس کی ہجرت دنیا کمانے یا کسی عورت کے بیاہنے کے لیے ہے تو اس کی ہجرت اسی کے لیے ہے “
فوائد ومسائل:-اس حدیث کوحضرت عمر ابن خطاب رضی اللہ عنہ سے ہی امام بخاری نے صحیح بخاری میں6 جگہ، امام مسلم نے 2 جگہ، امام ابودائود نے ایک جگہ، امام نسائی نے 3 جگہ اور امام ترمذی نے ایک اور امام احمد نے 2 مقام پر روایت کیا ہے
تمام مسلمانوں کا اس حدیث کی اہمیت وعظمت پر اجماع اور اتفاق ہے، اس حدیث کے فوائد بہت زیاد ہیں؛فقہائے کرام فرماتے ہیں کہ یہ حدیث ثلث اسلام ہے امام شافعی فرماتے ہیں کہ اس حدیث کے فقہ میں ستر ابواب ہیں۔
*نیت* کا معنی ہوتا ہے قصد وارادہ سے کسی کام کو معین کرنا، حدیث مذکورہ میں ہے ’’انماالاعمال بالنیات‘‘ اعمال کا دارومدار نیوتوں پر ہے۔ اس حدیث سے باب مسائل میں ائمہ مجتھدین کا اختلاف ہے چناچہ ائمہ ثلاثہ نے اسکا معنی ’’صحت اعمال کا مدار نیت پر ہے‘‘ نکالتے ہوئے باب طہارت میں اسے واجب قرار دیا ہے کہ بغیر نیت کے وضو،غسل نہیں ہوگا۔ جبکہ امام اعظم ابوحنیفہ اور آپ کے اصحاب نے اسکا معنی ’’کاملیت اعمال یا ثواب اعمال کا مدار نیت پر ہے‘‘ بیان فرمایا اور باب طہارت میں اسے واجب نہیں بلکہ سنن ومستحبات میں شمار کراتے ہوئے فرمایا کہ اگر کوئی شخص بغیر نیت کے صرف اعضائے وضو وغسل دھولے تو اسکا وضو وغسل ہوجائے گا۔ امام مالک علیہ الرحمہ سے بھی ایک روایت میں یہی منقول ہے
بہرحال باب فضائل میں اسکا کردار نہایت اہم ہے چناچہ امام سمعانی فرماتے ہیں کہ جو اعمال عبادات سے خارج ہیں اگر ان میں بھی عبادات کی نیت کرلی جائے تو ان پر بھی ثواب ملتاہے، مثلاً کوئی شخص کھانے،پینے میں عبادت کے لئے تقویت حاصل کرنے کی نیت کرے، اور سونے میں تھکاوٹ زائل کرکے مزید عبادت کرنے کے لئے توانائی حاصل کرنے کی نیت کرے، اور مجامعت میں گناہوں اور بےحیائیوں سے بچنے کی نیت کرے تو اس پر اسے ثواب ملے گا۔
علاوہ ازیں فقہائے کرام نے یہ بھی فرمایا ہے کہ ایک عمل میں متعدد اعمال کی نیت کرلی جائے تو اسکا بھی ثواب ملتا ہے اگرچہ دیگر اعمال کرنے کا موقع میسر نہ آئے یہاں تک کہ فقہائے کرام نے صرف ایک عمل یعنی نماز پڑھنے کے لئے مسجد جانے پر چالیس سے زائد اعمال کی نیت بیان فرمائی ہے
ازقلم:محمد شعیب رضا نظامی فیضی
خادم التدریس والافتا دارالعلوم امام احمد رضا بندیشرپور،سدھارتنگر یوپی
رابطہ نمبر9792125987