تحریر: محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار، اڈیشہ وجھارکھنڈ پھلواری شریف، پٹنہ
بیسویں صدی کی تاریخ، جن حضرات کی علمی، ادبی، سماجی، مذہبی خدمات کے ذکر کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتی اور جن کے تابندہ نقوش نئی نسل کے لیے مشعل راہ ہیں، ان میں ایک اہم نام سابق شیخ الحدیث جامعہ رحمانی مونگیر حضرت مولانا سید محمد شمس الحق صاحب چک اولیائ، ابابکر پور، ضلع ویشالی کا ہے، جو ویشالی ہی نہیں بہار کے نامور سپوت، علم وعمل کے جامع، زہد وورع میں ممتاز، گفتار وکردار کے دھنی، انابت الی اللہ اور تواضع للہ میں ضرب المثل تھے، ان کے انتقال سے مسند ارشاد وتدریس سونی ہوگئی اور یہ سوناپن دور تک محسوس کیا گیا اور دیر تک محسوس کیا جاتا رہے گا، مولانا کی زندگی اسوئہ رسول ﷺ کا نمونہ تھی، اور اس حوالہ سے ان کی حیات وخدمات بعد والوں کے لیے مشعل راہ ہے۔
لیکن زمانہ کا وطیرہ بدل گیا ہے، آج ہماری تحقیق کا مرکز وہ لوگ بن گئے ہیں جن میں سے بیش تر کی زندگی عمل سے بے نیاز ہوتی ہے، اور جن میں سے کئی کی زندگی کا امتیاز معصیت میں ممتاز ہوا کرتا ہے، زندگی نہ بولے تو فن پارے محض نعرے رہ جاتے ہیں اور فن کی اثر آفرینی میں کمی ہوجاتی ہے، اس کے برعکس اگر ان حضرات کی زندگی ہماری تحقیق کا موضوع بنے؛ جن کے یہاں ادب ہے، شاعری ہے، صلاحیت ہے، صالحیت ہے اور ان کی زندگی اخلاق حمیدہ اور اوصاف نیک سے عبارت ہے، تو فن بھی پاکیزہ ہوگا اور فنکار کی پاکیزگی ’’از دل خیزد بردل ریزد‘‘ کا سبب بنے گی اور قاری کو پورے طور پر متاثر کرے گی۔ خواجہ الطاف حسین حالیؔ کی مسدس اور علامہ اقبال کے کلام کے زندہ رہنے کی یہی وجہ ہے ، حالیؔ کی مسدس پر قوم کے مرثیہ کی جتنی پھبتی کسی جائے؛ لیکن اس کی تاثیر اول روز کی طرح آج بھی قائم ہے اور اقبال کے کلام کو پڑھ کر ان کی فکر کی پاکیزگی عمل پر ابھارتی ہے اور کچھ کرنے کا حوصلہ ملتا ہے۔ ان کے مقابلہ میں جوشؔ، فراقؔ، ساحرؔ لدھیانوی، فیض احمد فیضؔ کی شاعری کو لیں تو محسوس ہوگا کہ الفاظ کی بازیگری ہے۔ جوشؔ جوش دلاکر رہ جاتے ہیںِ ساحرؔ کے یہاں زندگی کی محرومیاں رقصاں ہیں، فیضؔ ، لینن اور مارکس کے سائے میں ہیں، پڑھ لیجیے، واہ واہ کر لیجیے، وقتی طور پر محظوظ ہو لیجیے اور بس۔ جگرؔ اور خمارؔ بارہ بنکوی کے دونوں دور کے اشعار پڑھیے تو آپ ہماری ان باتوں کی تائید کے لیے اپنے کو مجبور پائیں گے۔
یہی وہ احساسا ت تھے جس کی وجہ سے میں نے اپنے برادر عزیز محمد صباء الہدی صباء کو یہ مشورہ دیا کہ اپنے تحقیقی مقالہ کے لیے کسی ایسے عالم کا انتخاب کرو، جن کے یہاں ادب وشاعری پورے لوازمات کے ساتھ اور حیات وشخصیت پوری صالحیت کے ساتھ جلوہ فگن ہو؛ چنانچہ انہوں نے مولانا سید محمد شمس الحق کی حیات وعلمی وادبی خدمات کو اپنی تحقیق کا موضوع بنایا اور ڈاکٹر ممتاز احمد خان صاحب ریڈر شعبۂ اردو بی آر امبیڈکر بہار یونیورسیٹی مظفر پور کی نگرانی میں اپنا مقالہ مکمل کیا۔ ڈاکٹر صاحب خود بھی اسلامی ادب کے غواص اور اسلامی افکار واقدار کے ترجمان ہیں، اس لیے انہوں نے اس موضوع کو پسند کیا اور مولانا کی ہمہ جہت شخصیت اور خدمات پر بھر پور مقالہ تیار ہوگیا، ممتحنین حضرات نے بھی اطمینان کا اظہار کیا اور الحمد للہ ڈگری ایوارڈ ہوگئی۔
عام طور پر پی ایچ ڈی (Ph.D.)کے مقالے چھپتے نہیں ہیں؛ کیوں کہ وہ تحقیق کے معیار پر پورے نہیں اترتے، اس لیے ڈگری ملنے کے بعد ریسرچ اسکالر اطمینان کی سانس لیتا ہے، اور ملازمت وغیرہ میں جو سہولیات ملتی ہیں اس کو پاکر قانع ہوجاتا ہے؛ کیونکہ ان دنوں پی ایچ ڈی کے مقالہ کی خصوصیت دفتیوں کے درمیان چند اوراق لکھے ہونے کی رہ گئی ہے۔ کئی دفعہ ایسا بھی دیکھا گیا ہے کہ جس مقالے پر پہلے ڈگری ایوارڈ ہوچکی ہے، اس پر ٹائٹل بدل کر دوسری یونیورسیٹی سے ڈگری لے لی گئی، اور کام چل گیا، ایسے میں پی ایچ ڈی کے مقالہ کو چھپوانا عام طور پر اپنی رسوائی کا سامنا کرنا ہوتا ہے۔
لیکن برادرم محمد صباء الہدی صباؔ کا معاملہ دوسرا ہے، انہوں نے جس محنت سے تحقیق کی ہے، موضوع کے مالہ وماعلیہ کو سمیٹا ہے اور جس طرح تحقیق کے تقاضوں کو برتا ہے اور اس خارزار وادی کو عبور کیا ہے، اس سے ان کے اندر ایک طرح کی خود اعتمادی پائی جاتی ہے اور انہیں اطمینان ہے کہ اس مقالہ کی اشاعت سے حضرت مولانا سید محمد شمس الحق کی حیات وخدمات لوگوں کے سامنے آجائیں گی اور اس سے آنے والی نسلوں کو فائدہ پہنچے گا، ان کا خیال بجا، ان کی جرأت قابل داد اور ان کی تحقیق لائق ستائش ہے، انہوں نے اسلوب بھی علمی رکھا ہے اور ان کی نثر بھی پاکیزہ ہے۔