ازقلم: مجیب الرحمٰن، جھارکھنڈ
پہلی اور دوسری قسط میں ابتدائی چیزوں کا بیان ہوا تھا اب یہاں سے روزہ کے اہم مسائل کا بیان شروع ہو رہا ہے ۔ اس میں شک نہیں کہ تمام عبادتوں کا دارو مدار نیتوں پر ہے اگر نیت خالص ہو تو وہ عمل قابل قبول ہے لیکن اگر برعکس ہو تو وہ عمل ردی ٹوکری میں ڈال دیا جاتا ہے، اس قسط میں روزے کی نیت کے مسائل پیش کئے جائیں گے تاکہ مسائل نیت سے واقف ہوکر ہم روزہ کو صحیح طور پر کامیاب بنا سکیں۔
مسائل نیت
ہر عبادت کی صحت کیلئے نیت کا ہونا شرط ہے، مشکواۃ کی پہلی حدیث ۔ انماالاعمال بالنیات۔ یہ بتلا رہی ہے کہ روزہ کی صحت بھی نیت پر موقوف ہے، روزہ خواہ فرض ہو یا نفل قضاء ہو یا نذر، نیت کے بغیر صحیح نہیں ہے آدمی نیت کے بغیر تمام دن بغیر کچھ کھائے پیئے گزار دے کوئی فائدہ نہیں، اتنی سی بات ضروری ہے کہ نیت کے الفاظ زبان سے کہنا ضروری نہیں ہے بلکہ سحری میں اٹھنا اور سحری کھانا بھی نیت میں شمار ہوتا ہے، البتہ زبان سے نیت کا اظہار کرنا زیادہ بہتر ہے،
مسئلہ۔ رمضان کے ہر روزے میں نیت کرنا ضروری ہے ایک روز نیت کرلینا تمام روزوں کیلئے کافی نہیں ( علم الفقہ ج ٣ ص ١٨)
مسئلہ۔۔ رمضان شریف کے روزے کی اگر رات سے نیت کرے تب بھی فرض ادا ہوجاتا ہے اور اگر رات کو روزہ رکھنے کا ارادہ نہ تھا صبح ہوگئ تب بھی یہ خیال رہا کہ آج میں روزہ نہیں رکھونگا پھر دن چڑھے یہ خیال آیا کہ فرض چھوڑدینا بری بات ہے اس لئے اب روزہ کی نیت کر لی تب بھی روزہ ہوگیا لیکن اگر صبح کو کچھ کھا پی لیا تو اب نیت نہیں کرسکتے، ( بہشتی زیور حصہ سوم ص ٣)
نیت کا آخری وقت
اگر کچھ کھایا پیا نہ ہو تو دن کے ٹھیک دوپہر سے ایک گھنٹہ پہلے پہلے رمضان کے روزے کی نیت کرلینا درست ہے،
صبح صادق سے غروب آفتاب تک کل وقت کے نصف کو نصف النہار شرعی کہا جاتا ہے صبح صادق اور طلوع آفتاب کے درمیان جتنا وقت ہوتا ہے نصف النہار شرعی و نصف النہار عرفی ( وقت زوال) کے درمیان اس کا نصف ہوتا ہے ، مثلاً صبح صادق سے طلوع آفتاب تک ڈیڑھ گھنٹہ ہو تو نصف النہار عرفی سے پون گھنٹہ پہلے نصف النہار شرعی ہوگا اس وقت کی مقدار ہر موسم میں اور ہر مقام میں مختلف ہوتی ہے اس لئے اس کی مقدار گھنٹوں سے متعین نہیں ہو سکتی ضابطہ مذکورہ کے مطابق عمل کیا جائے گا، ( مسائل روزہ ص47)
نصف النہار کی تعیین کا طریقہ
نصف النہار کی تعیین کا طریقہ یہ ہے کہ اول دیکھ لیا جائے کہ صبح صادق کتنے بجے ہوتی ہے اور سورج کتنے بجے غروب ہوتا ہے ان کے درمیان کے گھنٹوں کو شمار کرکے ان کا نصف لے لیا جائے اس نصف کے اندر اندر نیت کر لی گئی تو روزہ ہو جائے گا اور اگر نصف وقت پورا یا اس سے زیادہ گزر جاے تو روزہ نہ ہوگا، ( بہشتی زیور حصہ سوم ص ٣)
★ دل کے خیال کا نام نیت★
رمضان شریف کے روزے میں بس اتنی نیت کرلینا کافی ہے کہ آج میرا روزہ ہے یا رات کو سوچ لے کہ کل میرا روزہ ہے بس اتنی نیت سے بھی رمضان کا روزہ ادا ہو جائے گا اگر نیت میں خاص یہ بات نہ آئی ہو کہ رمضان کا روزہ ہے یا فرض کا تب بھی روزہ ہو جائے گا،
★رمضان کے روزے کا مطلق نیت سے ادا ہو جانا ★
رمضان کے مہینے میں اگر کسی نے یہ نیت کی کہ کل میں نفل روزہ رکھوں گا رمضان کا نہ رکھو گا بلکہ اس روزے کی کبھی قضا رکھونگا تب بھی رمضان ہی کا روزہ ہوگا نفل کا نہیں ہوگا، ( بہشتی زیور حصہ ٣, بحوالہ فتاویٰ ہندیہ ج ١ ص ١٩٤)
سحری کھانا نیت میں شمار ہوگا یا نہیں؟
ماہ رمضان میں ہر روز نیت کرنی چاہیے۔ سحری کھانا بھی نیت ہے یہ اور بات ہے کہ کھاتے وقت روزہ رکھنے کا ارادہ نہ ہو اگر ایسا ہے تو سحری کھانا نیت میں شمار نہیں ہوگا ، اگر اول شب میں نیت کی پھر طلوع فجر سے پہلے نیت توڑ دی تو یہ نیت کا توڑ دینا ہر قسم کے روزوں کی نیت میں معتبر ہوگا، ( کتاب الفقہ علی المذہب الاربعہ ج١ص٨٨١)
★ نیت کا زبان سے ظاہر کرنا ضروری نہیں★
نیت کا زبان سے ظاہر کرنا ضروری نہیں ہے صرف دل کا ارادہ کافی ہے حتیٰ کہ سحری کھانا خود نیت میں داخل ہے اس لیئے کہ سحری روزہ رکھنے کی غرض سے کھائی جاتی ہے ہاں اگر کسی کی نیت اس وقت کھانا کھانے کی ہو یا کوئی بد بخت ہو جو صرف سحری کھاتا ہو اور روزہ نہ رکھتا ہو تو اس کیلئے سحری کھانا نیت کے قائم مقام نہیں ہے،( علم الفقہ)
★مریض اور مسافر کی نیت کا حکم★
رمضان کے مہینے میں مریض کے روزے کی نیت کا حکم مذہب مختار کے مطابق تندرست اور صحیح و مقیم کی نیت کے حکم کے مانند ہے، یعنی اگر کوئی مریض آدمی رمضان کے مہینہ میں کسی دوسرے روزے کی نیت کرے تو اس کی نیت کا اعتبار نہ ہوگا اور رمضان کا روزہ ہی تمام حالتوں میں سمجھا جائے گا۔
البتہ مسافر رمضان کے مہینے میں کسی دوسرے روزے کی نیت کرے تو اس کی نیت کا اعتبار ہوگا اور جس نیت سے روزہ رکھے اسی کا ہوگا ( چاہے نفل ہو یا واجب) ۔۔۔ / شامی ج٢ ص ٨٦/
نیت کے بغیر بھوکا رہنے سے روزہ نہیں ہوگا،
اگر کسی نے پورے دن کچھ نہیں کھایا پیا شام تک بھوکا پیاسا رہا لیکن دل میں روزے کا ارادہ نہ تھا بلکہ بھوک ہی نہیں لگی یا کسی اور وجہ سے کھانے پینے کی نوبت نہیں آئی تو اس کا روزہ نہیں ہوگا اگر دل میں روزہ کا ارادہ کرلے تو روزہ ہوجاتا، ( بہشتی زیور حصہ سوم ص٣)
★نیت کرکے روزہ توڑنا ، ★
سوال۔۔ کسی شخص نے شب رمضان میں روزے کی نیت کی یا غیر رمضان میں رات کو یا دن کو نفل روزہ کی نیت کی اب وہ رات کو یا دن کو عذر کی وجہ سے یا بلا عذر نیت توڑ سکتا ہے یا نہیں؟
جوا۔۔۔۔ نیت کا رات کو توڑنا ممکن ہے اس طریقے سے کہ اگلے دن کھانے پینے کا ارادہ کرے لیکن دن میں جبکہ روزہ شروع ہوگیا تو اب نیت توڑنا لغو ہے۔ پس رمضان کے روزے میں اگر رات کو نیت کرکے توڑدی اور دن کو کھا پی لیا تو صرف قضا لازم آے گی،
اور اگر دن میں نیت توڑ کر کھا پی لیا تو کفارہ بھی لازم آے گا، اور اگر غیر رمضان میں رات کو نیت توڑ دی تو نہ قضا ہے نہ کفارہ اور اگر دن میں نیت ختم کرکے کھا پی لیا تو صرف قضا لازم آے گی، اور جن روزوں میں ان کا وقت متعین ہے اس میں بلا عذر نیت توڑ نا جائز نہیں اور غیر معین میں توڑنا بغیر عذر کے بھی جائز ہے، ( امداد الفتاوی، ج ١ ص ١٧٣)