رمضان المبارک: احکام و مسائل (قسط نمبر1)

ازقلم: مجیب الرحمٰن، جھارکھنڈ

رمضان المبارک کا محترم مہینہ شروع ہونے کو ہے، کچھ ہی لمحہ رہ گئے ہیں چونکہ یہ مہینہ سال میں ایک مرتبہ آتا ہے اس لئے اس کے احکام ومسائل ذہن میں مستحضر نہیں رہتا پورے سال ذہن مختلف مراحل سے گزرتا ہے انسان مکمل طور سے دوسرے کاموں میں مشغول رہتا ہے جب رمضان کا مہینہ شروع ہوتا ہے تو پھر اس کے مسائل کی کھوج شروع کردیتا ہے اور پھر کتابوں کی ورق گردانی میں لگ جاتاہے ، چونکہ کتابوں میں سارے مسائل ایک جگہ جمع نہیں رہتے اس لئے بسااوقات مشکلات کا سامنا ہوتا ہے ،
ناچیز نے کوشش کی کہ حتی الامکان بنیادی مسائل جو عام طور سے پیش آتے ہیں اس کو یکجا کرکے لوگوں کے درمیان پیش کیا جائے تاکہ ان کی پریشانیوں میں کچھ تخفیف ہو ، واضح ہو کہ اس کو قسط وار شائع کیا جائے گا ، پہلی قسط میں رؤیت ہلال کے بنیادی مسائل پیش خدمت ہوں گے۔

مسائل روئت ھلال

قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم،۔
صوموا لرؤئیتہ۔ وأفطرو لرؤیتہ ۔ فان غم علیکم فأکملوا عدۃ شعبان ستین یوما، البخاری،

رمضان المبارک کے مہینہ کا آغاز،

اس سلسلہ میں اتنی سی بات جان لینا ضروری ہے کہ جب تک چاند نظر نہ آجائے یا پھر چاند نظر نہ آنے کی صورت میں شعبان کے مکمل تیس دن پورے نہ ہوجائے رمضان المبارک کے مہینہ کا آغاز نہیں ہوگا،
رہی بات اس کی کہ رؤیت ہلال کب ثابت ہوگا اس سلسلہ میں چند درج ذیل نکات ہیں،
(١) اگر آسمان میں بدلی ہو اور مطلع بالکل صاف نہ ہو تو پھر دو مرد۔ یا ایک مرد اور دو عورتوں کی شہادت سے چاند کا ثبوت ہوجائے گا، ( یاد رہے کہ یہ مسئلہ ہلال عید کیلئے ہے)
(٢ ) اگر آسمان بالکل صاف ہو اور آسمان غبار آلود نہ ہو تو رمضان یا عید کے چاند کا ثبوت اس وقت تک نہیں ہوگا جب تک کہ ایک جم غفیر چاند نہ دیکھ لے ، کیوں کہ اتنی بڑی تعداد کا کسی جھوٹ پر اتفاق کرنا عادتاً محال ہے،
(٣) رمضان اور عید کے مہینہ کے علاوہ باقی مہینوں کا ثبوت رؤیت ہلال دو عادل مرد یا ایک مرد اور ایسی دو عورتیں جو محدود فی القذف نہ ہو اگر گواہی دے دیں تو رؤیت ہلال کا ثبوت ہوجائے گا،
جس شخص نے رمضان کا چاند تنہا دیکھا اس کی گواہی معتبر نہیں ہے اور وہ شخص روزہ بھی نہ رکھے،

اسی طرح کسی شخص نے عید کا چاند تنہا دیکھا اس کی بھی گواہی معتبر نہیں بلکہ اس شخص پر روزہ رکھنا ضروری ہوگا اس کیلئے افطار جائز نہیں ہے،

یوم الشک کے روزے کا حکم،

یوم الشک ٣٠ شعبان کو کہا جاتا ہے جبکہ چاند کے طلوع ہونے یا نہ ہونے کا علم کسی کو نہ ہو،
یوم الشک کو روزہ رکھنا قرض کی نیت کے ساتھ مکروہ ہے،اسی طرح فرض اور نفل کی نیت تذبذب کے ساتھ کرکے روزہ رکھے تب بھی مکروہ ہے ، لیکن اگر کوئی شخص نفل روزہ کی نیت کرے اس صورت میں مکروہ نہیں ہے،

اگر کوئی شخص روزہ رکھنے اور افطار کرنے میں متردد ہو تو اس کا روزہ صحیح نہیں ہوگا،
یوم الشک میں مفتیان کرام کو چاہیے کہ روزہ کی نیت کرے بغیر ظہر سے پہلے پہلے تک لوگوں کو انتظار کا حکم دیں لیکن معاملہ اس وقت تک حل نہ ہوسکے اور نیت کا وقت نکل جائے تو مفتیان کرام لوگوں کو افطار کا حکم دیں، ( الفقہ المیسر) ص۔ ١٧٠

چاند کے بارے میں نجومی کی رائے غیر معتبر،

رؤیت ہلال کے بارے میں نجومی ستارہ شناس کی بات قابل اعتبار نہیں لہذا ان کے حساب سے لوگوں کو روزہ رکھنا واجب نہیں ہے، کیوں کہ شارع علیہ السلام نے روزے کو مقررہ علامتوں کے ساتھ وابستہ کیا ہے جسمیں کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی، اور وہ علامتیں ہلال کا نظر آجانا۔ یا شعبان کے تیس دن پورے ہو جاناہے، نجومیوں کا قول خواہ کتنی ہی دقیق نظریات پر ہو ان میں قطعیت نہیں پائی جاتی، کیونکہ اکثر اوقات ان کی رائے باہم مختلف ہوتی ہے،
( کتاب الفقہ، ج ١ ص ٨٩٢)

رؤیت ہلال میں ریڈیو کا شرعی حکم،

ریڈیو کے ذریعہ سے رؤیت ہلال کی اطلاعات و اعلانات کا شرعی حکم یہ ہے کہ اگر اعلانات و اطلاعات شرعی اصول و ضوابط کے مطابق آجائیں خواہ کسی خطہ ملک سے آجائیں جب ثبوت کیلئے شرعا کافی ہونگے ، مثلاً۔ کسی مرکزی شہر میں جہاں مطلع صاف رہتا ہو غبار آلود نہ رہتا ہو، نیز وہاں ریڈیو اسٹیشن بھی ہو حکومت کی جانب سے یہ انتظام کرالیا جائے کہ کوئی مسلمان حاکم شرعی ثبوت کے ذریعہ چاند کا اعلان کردیا کریں ان الفاظ میں کہ۔ رؤیت کا ثبوت شرعی حاصل کرکے یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ کل یوم فلاں سے مثلاً۔ یکم رمضان ہے، یا یکم شوال ہے، تو یہ اعلان معتبر ہوگا، اور اس پر عمل کرنا اصول مذہب کے مطابق ہوگا ، بشرطیکہ وہ مہینہ انتیس تیس کا ہو اٹھائیس یا اکتیس دن کا نہ ہو،

رؤیت ہلال میں ٹیلیفون کا حکم،

ان مواقع پر جن کا تعلق خبر و اطلاع سے ہے ٹیلیفون کا بھی اعتبار ہے، لیکن جہاں شہادت مطلوب وہاں محض فون کافی نہیں ہے، روبرو حاضری ضروری ہے، ایسے موقع پر اس تدبیر پر عمل کرنا چاہیے،کہ دارالقضا یا رؤیت ہلال کمیٹی کی جانب سے مختلف اہم مقامات پر ایسے ذمہ دار متعین ہوں جو رؤیت ہلال کی گواہی لے لیں ، اور پھر فون کے ذریعہ مرکز کو اس کی اطلاع کر دیں،
خط و تار اور ٹیلیفون کی خبر کے سلسلے میں مجلس تحقیقات شرعیہ ندوۃ العلماء کا فیصلہ حسب ذیل ہے،

خط و تار اور ٹیلیفون کی خبر معتبر نہیں ہے، ہاں اگر خصوصی انتظام کے تحت متعدد جگہوں سے فون اور خط آئیں اور علماء کہیں کہ ان سے ظن غالب پیدا ہوتا ہے، اس بنیاد پر علماء کا فیصلہ قابل قبول ہوگا،
( جدید فقہی مسائل ص۔ ٨٩. ٨٦)

ایک غلط فہمی کا ازالہ،

چاند دیکھ کر یہ کہنا کہ یہ چاند بہت بڑا ہے کل کا معلوم ہوتا ہے یہ بری بات ہے،
حدیث شریف میں آیا ہے کہ” یہ قیامت کی نشانی ہے، جب قیامت قریب ہوگی تو لوگ ایسا کریں گے، اس لئے اس طرح کی باتوں سے پرہیز کرنے کی ضرورت،

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے