ازقلم: ابوالمجاہد ندوی
ہر دور میں انسانوں کی ایک جماعت رہی ہے جس کواس کے بعض اندورونی اعمال نے دوسروں سے ممتاز و نمایا کیا ہے۔جس کی ترقی اپنے دورمیں ضرب المثل رہی ہے۔جس کی رفعت سے لوگوں کی زبان رطب اللسان، جس کی قدرو منزلت انسانی ذہن و دماغ پر سایہ فگن۔ یہ ترقی نہ کسی دور کے ساتھ خاص رہی اور نہ کسی مسلک کے ساتھ۔اس کے اصول و ضوابط جنہوں نے اختیا رکیا انہوں نے ترقی کی منازل طے کیں۔
ترقی کے اصول و ضوابط میں سے ایک اہم اصول نفس کی قربانی ہے۔نفس کی قربانی میں جس نے جس قدر محنت کی اس کا مقام اسی طرح بلند ہوا۔صحابہ کرام سے لیکر اولیاء اللہ تک ہر ایک نے اس کو پیش کی اور مقام ثریا کو چھویا۔اور جو اس کی خواہش پوری کرتا رہاتو ناکامی اس کے ہاتھ آئی۔
حضرت نوح علیہ السلام نے آدم ثانی،حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ابوالانبیاء اور محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے سردار انبیاء کا لقب پایا تو اس وجہ سے کہ انھوں نے نفس کی قربانی پیش کی اور ہمیشہ ہمیش کے لیے زندہ جاوید ہوگئے۔
قران نے نفس کی تین قسم بیان کرکے نفس مطمئنہ کی تعریف کی ہے یہ وہی نفس ہے جو صحابہ کو حاصل تھا، اولیاء اللہ کو حاصل تھا اور جونفس ہم سے مطلوب بھی ہے۔
نفس کی قربانی پیش کرکے جو نفس مطمئنہ حاصل ہوتا ہے وہ یہ کہ ہماری ساری خواہش قران کے تابع ہوجائے۔اللہ اور رسول کا معاملہ جب سامنے ہو تو کسی قول وفعل اور کسی سوچ وفکر کی ضرورت نہ رہے۔عبادت آسان ہوجائے۔جاڑے کی ٹھنڈک اور موسم گرما کی سخت گرمی نماز ورزہ میں حائل نہ ہو۔چال چلن گفتار و کردار سے اسلامی بو محسوس ہو۔
عید الاضحی کی قربانی دراصل اس کی ایک جھلک ہے کہ انسان مال کی محبت میں جانور کی قربانی پیش کرتاہے یا خدا کی محبت میں۔اگر کرتا ہے تو اسکی نیت کیا ہوتی ہے۔ کہیں وہ نام ونمود اورشہرت کے لیے تو نہیں کرتاہے۔یاصرف اس لیے قربانی پیش کرتا ہے کہ سماج اور معاشرہ میں لوگوں کی نظر میں نہ گرجائے۔ یا اس کا مقصد گوشت تو نہیں ہوتا۔
قران نے قربانی حقیقت بیان کرتے ہوے کہا ہے کہ اس کا مقصد صرف اور صرف نفس کی قربانی ہے جو اس میں کامیاب اس کی قربانی کامیاب۔جو اس میں ناکام اس کی قربانی بھی ناکام۔اللہ تک تقوی کا پہونچنا یہی ہے کہ اس نے جانورکی قربانی کس جذبہ کے ساتھ دی ہے۔بسااوقات انسان قربانی پیش کرکے خوش ہوتا ہے کہ اس کی قربانی ہو گئی۔ لیکن و ہ قربانی نہیں بلکہ گوشت کی ذخیرہ اندوزی ہے جس سے اپنے پیٹ کو بھرتا ہے۔دراصل قربانی کی یہی روح ہے۔ یہی خدا کومطلوب ہے۔ اس سے انسان اللہ کا مقرب بنتا ہے۔ اور یہی آدمی اس ثواب کا حقدار ہوتا ہے جس کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قربانی کرنے والے کو جانورکے ہر بال کے بدلے ایک نیکی ملے گی۔
ہمیں قربانی سے قبل اس کو یاد رکھنا ہوگاکہ ہماری چھری قبل اس کے کہ ہمارے قربانی کے جانور پر چلے ہمارے نفس کی گردن پر چل رہی ہے یانہیں۔تعمیل حکم خدا وندی میں مال کی محبت دل سے نکلی یا قربانی کر کے جانور کے ذبخ ہونے پر افسوس ہے۔غریبوں اور محتاجوں کو خوشی گوشت کھلاکر محسوس ہو رہی ہے یا پھر روپیہ کو ضائع سمجھ کرماتم کناں ہیں۔