وضوء کی برکتیں

تحریر:محمد ظفر نوری ازہری
تقریبا سبھی مسلمان وضو کرتے ہیں کو ئی دن میں پانچ بار تو کوئی اس سے زیادہ کو کوئی اس سے کم اور کچھ مسلمان ہفتے میں ایک بار اور کچھ سال میں دو بار اور کچھ ایسے بھی ہیں جو زند گی میں تو کبھی وضو نہیں کرتے ہیں  البتہ مر نے کے بعد انہیں بھی وضو کرایا جاتاہے۔
 اس سے پتہ چلتاہے کہ وضو بہت اہم چیز ہے 
  ہم میں زیادہ تر لوگ ایسے ہیں جو وضو کرنا تو جانتے ہیں مگر وضو کی اہمیت و فضیلت اور اس کی شان و عظمت کے بارے میں  زیادہ معلومات نہیں رکھتے ہیں! 
 آج ہم وضو کے تعلق سے کچھ اہم باتیں بتائیں گے  تو آئیں شروع کرتے ہیں :
اللہ رب العزت نے اپنے مقدس کلام میں وضوء کے تعلق سے یوں ارشاد فرمایا”يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرَافِقِ وَامْسَحُوا بِرُءُوسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ إِلَى الْكَعْبَيْنِ ۚ ” ترجمہ "اے ایمان والوں جب تم نماز پڑھنے کا ارادہ کرو تو اپنے چہرے کو دھوؤ اور اپنے ہاتھوں کو کہنییوں سمیت دھوؤ اور اپنے سروں کا مسح کرو او اپنے دونو پاؤں ٹخنے سمیت دھوؤ”(سورہ مائدہ ٦) اس آیت کریمہ میں اللہ پاک نے وضو کرنے کا حکم دیا ہے یہ آیت کریمہ مدینہ شریف میں نازل ہوئی اور نماز مکہ شریف میں ہی فرض ہوگئی تھی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی نماز بغیر وضو کے ادا نہیں فرمائی اس میں تبطیق علماء کرام اس طرح دیتے ہیں کہ  پہلے وضو کی فرضیت حضور کے ارشاد پاک سے  ہوئی پھر اللہ کے ارشاد سے ہوئی کیونکہ وضو نہ صرف شریعت محمدیہ بلکہ پچھلی امتوں میں بھی فرض تھا اس کی کئی مثالیں دی جاسکتی ہیں ان میں سے صرف ایک ملاحظہ فرمالیں” حضرت سارہ رضی اللہ عنہا(زوجہ حضرت ابراہیم علیہ السلام)نے وضو کیا اور نماز ادا کی(مضمون کی طولت کی وجہ سے پوری حدیث بیان نہیں کی جا سکتی ہے)(مسند احمد)اس سے معلوم ہوا کہ وضو پچھلی شریعتوں میں بھی تھا اور ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلی بار وضو کس طرح کیا تو سنو! "جب نماز فرض ہوئی تو آپ کے پاس حضرت جبرئیل علیہ السلام تشرف لائے اس وقت آپ مکہ کی بلند وادی پر تھے جبرائیل علیہ السلام نے اپنی ایڑی زمین پر ماری جس سے ایک چشمہ جاری ہوگیا پھر آپ نے اس چشمے کے پانی سے وضو کیا اور  سرکار صلی اللہ علیہ وسلم ان کے وضو کرنے کے طریقے کو دیکھتے رہے پھر سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم  نے بھی اسی طرح وضو کیا پھر جبرائیل علیہ السلام نے نماز پڑھائی اور ہمارے آقا نے نماز پڑھی پھر جبرائیل علیہ السلام تشریف لے گئے پھر  حضور صلی اللہ علیہ وسلم حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے اور انہیں وضو کر کے دیکھایا  پھر حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے بھی وضو کیا اور آپ نے انہیں نماز پڑھائی جس طرح جبرائیل علیہ السلام نے آپ کو پڑھائی تھی” اور  قاضی ابو بکر محمد بن العربی نے (متوفی 543)نے اس حدیث کی توثیق کی ہے اور  یہ حدیث صحیح ہے اگر چہ اہل صحیح نے ایسے روایت نہیں کیا ہے(جامع احکام القرآن جلد ۲ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت)اس طرح وضو کی ابتدا ہوئی زیادہ تر عبادتیں وضو کے بعد ہی کی جاتی ہیں جیسے نماز ،خانہ کعبہ کا  طواف، اور قرآن کی تلاوت وغیرہ اس لئے وضو کی بہت اہمیت و افادیت ہے اور نماز کے تعلق سے حدیث شریف میں اس طرح آیا ہےکہ

عن جابر بن عبد الله رضى الله تعالى عنهما قال قال رسول الله ﷺ "مفتاح الجنة الصلاة ومفتاح الصلاة الوضوء”. ترجمہ :حضرت جابر ابن عبد اللہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "جنت کی کنجی نماز ہے اور نماز کی کنجی وضو ہے” ترمذی کتاب الطہارۃ
  جب سے کورونا وائرس کی وبا پھیلی ہے تب سے لوگوں کو بتایا جا رہا ہے کہ اپنے ہاتھوں کو برابر دھوتے رہیں تاکہ آپ کورونا وائرس سے محفوظ رہیں لیکن قربان جائیں اپنے آقا کی تعلیمات پر! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آج سے 1400سال پہلے ہمیں وضوء کا طریقہ بتا کر اور عملی جامہ پہنا کر صرف کورونا وائرس  ہی نہیں بلکہ اس طرح کے تمام وائرسز اور امراض و بیماریوں سے بچنے کا درس دیا اور آپ  دیکھیں کہ  زیادہ تر ہمارا پورا جسم کپڑوں سے  ڈھکا  رہتاہے اور  صرف اعضائے وضو کھلے  رہتے ہیں انہیں جگہوں پر وائرس  کا حملہ زیادہ ہونے کا امکان رہتا ہے اور یہی وائرس اپنا گھر بنا سکتے ہیں  اس لیےاعضائے وضو کو دھونے کا حکم دیا گیا ہے تاکہ  منہ اور ناک کے راستے وائرس پیٹ میں نہ چلا جائے اس لئے کلی اور ناک کو صاف کرنے کا بھی حکم دیا گیا ہے  اور اس وضو کی برکت تو دیکھیں کہ یہ وائرس کے ساتھ ساتھ آدمی کے گناہوں کو بھی صاف کردیتا ہے  جیسا کہ حدیث شریف میں ہےکہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔”من تَوَضّاَ فَاَحْسَنَ الوُضُوءَ خَرَجَتْ خَطَايَاهُ مِنْ جَسَدِه حَتَّی تَخْرُجُ مِنْ تَحْ

تِ اَظْفَارِه”۔ مسلم، الصحيح، کتاب الطهارة، باب خروج الخطايا مع ماء الوضوء

؎ترجمہ:جس شخص نے اچھے طریقے سے وضو کیا اس کے جسم سے اس کی خطائیں(گناہ) نکل جاتی ہیں حتیٰ کہ اس کے ناخنوں کے نیچے سے بھی نکل جاتی ہیں‘‘۔وضو سےبدن کی ظاہری اور باطنی غلاظتیں دور ہوجاتی ہیں اور وضوء کی وجہ سے چہرے پر ایسی چمک آتی ہے جو دنیا کے ساتھ ساتھ میدانِ محشر تک باقی رہتی ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمانِ عالیشان ہے کہ  حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "إن أمتي يأتون يوم القيامة غُرًّا مُحجَّلين مِن أثر الوضوء، ” ترجمہ :حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری امت قیامت کے دن اس حال میں آئےگی کہ وضو کی وجہ سے اس کے منہ ہاتھ اور  پیر چمک رہے ہوں گے "مسلم
   اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم ہمیشہ باوضو رہا کریں اس کے بہت سے دینی و  دنیاوی،ظاہری، باطنی اور مذہبی و طبی ،سماجی و معاشرتی  فائدے ہیں ایک فائدہ یہ بھی جب آدمی باوضوء رہتاہے تو نماز کا بھی پابند ہوجاتاہےوضوء کی وجہ سے نماز پڑھنے میں بھی  سستی کاہلی نہیں آتی ہے اور ہوسکے تو وضوء میں مسواک کا بھی اہتمام کریں اور  وضو میں اتنا ہی پانی خرچ کریں جتنی ضرورت ہو ضرورت سے زیادہ پانی خرچ کرنا منع ہے یہاں سے یہ بھی سمجھ سکتے ہیں جو مذہب فضول پانی بہانے کی اجازت نہ دیتا ہو وہ فضول انسانی خون بہانے کی کب اجازت دےسکتاہے؟!
  اللہ تعالی اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم  کے صدقے میں وضوء کی برکتوں سے ہمیں دونوں جہاں میں سرفراز فرمائے( آمین۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے