مشکل وقت میں مدارس دینیہ کی طرف توجہ بے حد ضروری ہے

تحریر: محمد ندیم الدین قاسمی
مدارس اسلامیہ حفاظتِ دین ،فروغ دین،اوراشاعت اسلام کے قلعےاور آدم گری اور مردم سازی کے مراکز ہیں،جہاں دین کے داعی اور اسلام کے سپاہی اور دین کے بے لوث خدام تیار ہوتے ہیں، جہاں کی چہار دیواری” قال اللہ قال الرسول ﷺ”کی پاکیزہ صدائوں سے دن ورات گونجتی رہتی ہیں، دنیا کے ہنگاموں سے بےخبر لیکن خدمت ِدین کی ٹھوس انداز میں نہایت یکسوئی کے ساتھ مصروف رہتے ہیں اور معاشر ہ کی بنیادی دینی ضرورتوں کی تکمیل اور صالح معاشرہ کی تشکیل میں شب و روز لگے رہتے ہیں، سرد وگرم حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے،شیریں وتلخ مرحلوں سےگزرتے ہوئے، موج بلاخیز کے تیز وتند تھپیڑوں سےنبردآزماہوتےہوئےاور بادِ مخالف کے سامنے سینہ سپر ہوکرانسانیت کی تعمیر، افراد کی تیاری اور تحفظ ِدین کے لئے ہمہ وقت مصروف رہتے ہیں، جہاں کے خوشی چیں ہر طرح کی جانی ومالی قربانی دے کر امت کے ایمان و عقیدہ کی حفاظت میں مشغول رہتے ہیں، اورتاریخ بھی شاہد ہے کہ اسلام کے خلاف جب بھی کوئی آندھی اٹھی تو ان ہی مدارس اور دینی جامعات کے فارغین اور فضلاء نے ہی اس بادِ سموم اور بادِ سرسر کا مقابلہ کیا اور امت محمدیہ کی راہِ حق کی طرف رہنمائی کی۔
اسی دریا سے اٹھتی ہے وہ موجِ تند جولاں بھی
نہنگوں کے نشیمن جس سے ہوتے ہیں تہہ و بالا
اسی وجہ سے علامہ اقبالؒ نے مدارس کی انقلاب آفریں خدمات کو دیکھ کر پوری دردمندی سے کہا تھاکہ:’’ان مکتبوں کو اسی حالت میں رہنےدو، غریب مسلمانوں کے بچوں کوانہیں مدارس میں پڑھنےدو،اگر یہ ملا اور درویش نہ رہے تو جانتے ہو کیا ہوگا؟جوکچھ ہوگامیں انہیں اپنی آنکھوں سےدیکھ آیا ہوں، اگر ہندوستانی مسلمان ان مدرسوں کے اثر سے محروم ہوگئے تو بالکل اسی طرح ہوگاجس طرح” اندلس” میں مسلمانوں کی آٹھ سو برس کی حکومت کے باوجود ہوا آج "غرناطہ” اور "قرطبہ”کے کھنڈرات اور” الحمرا ء” کے نشانات کے سوا اسلام کے پیروؤں اور اسلامی تہذیب کے آثار کا کوئی نقش نہیں ملتا، ہندوستان میں بھی آگرہ کے "تاج” اور دلی کے "لال قلعے” کے سوا مسلمانوں کے آٹھ سو سالہ حکومت اوران کی تہذیب کا کوئی نشا ن نہیں ملے گا‘‘۔( دینی مدارس :ماضی، حال، مستقبل:69)
اس لئے اب امتِ مسلمہ کو تو یہ چاہیے تھاکہ ان مدارس کی خونِ جگر سے آب یاری کرتے،اپنی جان ومال سےتعاون کرتے، ان مدارس پر آئی ہر مصیبت کے لئے سینہ سپر ہوجاتے؛لیکن افسوس کہ غیر تو غیر اپنوں نے بھی دن ورات انہی مدارس پر تنقید وتبصرے کو اپنا مزاج بنالیا، ان کو بوجھ ،خیراتی ادارے،چندہ خوری کے اڈے،غریبوں کا حق چھیننے والا،اور پتہ نہیں کن کن القاب سے بدنام کرنے کی کوشش کی اور کررہے ہیں جس سے سادہ لوح مسلمان پر غلط اثر پڑ رہاہے،اور غلط تاثر قائم ہورہاہے "اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے” جس کی وجہ سے مدارس اور اربابِ مدراس کو دن بہ دن مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہاہے، اور ظاہر ہے کہ اس کا اثر مہمانانِ رسول کے قیام و طعام اور خدامِ رسول پر پڑے گا۔
اس لئے اب ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ان کا ہرممکنہ تعاون کریں ،خاص کر اس مشکل گھڑی میں جب کہ بیش تر ممالک لاک ڈاؤن کی وجہ سے معاشی بحران کا شکار ہو گیےہیں، کاروبار بند، غریب ایک ایک لقمہ کےلئے ترس رہاہے، متوسط طبقہ بھی اِس بحران میں معاشی کرب سے گزر رہا ہے،تو ہم ذرا سونچیں کہ یہ ارباب مدارس ہزاروں طلباء کے قیام و طعام ،تربیت وغیرہ کا انتظام کرتے ہیں ، کہاں سے انتظام کرسکیں گے؟کیا ان کےپاس جائداد "بینک بیلنس ” اور "قارون کا خزانہ "ہے؟ہرگز نہیں!ان مدارس کے مالی وسائل کا بنیادی ذریعہ تو زکوٰۃ وعطیات ہیں،جس کا عمومی ماحول رمضان المبارک ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ ہم اس لاک ڈاون میں تعاون کیسے کریں؟
صحابِ خیر، امرا، رؤسا کی ذمہ داری ہے کہ وہ جن جن مدارس کو چندہ دیتے تھے؛ ان کی رقمیں محفوظ کر دیں، یا از خود مدرسہ کے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کر دیں،اس لئے کہ اب کوئی سفیر یا مدرسہ کا ذمہ دار آپ کے پاس تو آنے سے رہا،تو اب آپ کو ان کا ساتھ دینا ہے۔
ذمہ دارن یا متوسلین ان معطین سے رابطہ کرکے ترغیب ویاد دہانی کرائیں۔ 
متوسط طبقہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ بقدر استطاعت اس کار خیر میں حصہ لیں اس لئے کہ ہمارے سامنے بدر واحد اور جنگ تبوک کی مثالیں موجود ہیں کہ صحابہ کرام ؓنے کس طرح ان مشکل اوقات میں اعلائے کلمۃ اللہ کے لئے اپنا سب کچھ لگادیا تھا۔
ارباب مدارس کی ذمہ داری ہے کہ ان ظاہری تدابیر کے ساتھ ساتھ اللہ کی طرف رجوع بھی کریں ۔
کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہ سحر گاہی
اللہ عمل کی توفیق دے۔آمین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے