نفرت کی بازگشت خلیجی ممالک تک

تحریر: ظفر احمد خان
جب سے کرونا معاملے میں مرکز نظام الدین کا نام آیا ہے اور تبلیغی جماعت کے اجتماع میں شریک چند افراد کے کرونا وائرس کے ٹیسٹ کے نتائج مثبت آئے ہیں، اکثر نیوز چینلس اور متعدد ذاتی پورٹلس کے ذریعے مسلمانوں کو کرونا وبا پھیلانے کا ذمہ دار ٹھہرا کر پورے  معاملہ کا رخ مسلمانوں کی جانب موڑ دیا گیا ہے، جیسے کرونا وائرس چین سے نہیں بلکہ مرکز نظام الدین سے شروع ہوا ہو اور پوری طرح سے اس کے ذمہ دار مسلمان ہوں، اس نفرت انگیزی کے نتیجے میں ملک میں مسلمانوں پر حملے ہو رہے ہیں، مسلم سبزی فروشوں کو ہندو علاقوں سے باہر نکالا جا رہا ہے اور ان کو زد و کوب کیا جا رہا ہے، ہندو جماعتوں اور تنظیموں کی جانب سے مسلمانوں کے سماجی بائیکاٹ کی اپیلیں کی جا رہی ہیں اور مختلف علاقوں میں مسلمانوں کو پولیس کی جانب سے ہراساں بھی کیا جا رہا ہے. 
         اس نفرت انگیزی کا یہ اثر ہوا کہ سوشل میڈیا پر نفرت کا ایک بازار گرم ہوگیا، مسلم سبزی فروشوں کے شناختی کارڈ چیک کیے جانے لگے اور انہیں ہندو اکثریتی علاقوں سے بھگایا جانے لگا، ان پر حملوں کے بھی واقعات پیش آئے ہیں،  دہلی کے ایک علاقے میں ایک مسلم سبزی فروش کا نام پوچھ کر اس پر تشدد کیا گیا، ہماچل پردیش اور پنجاب کے بعض علاقوں میں مسلم ڈیری فارمرز نہ صرف دودھ خریدنا بند کر دیا بلکہ کئی خاندانوں کو اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور کر دیا گیا ہے، 
            بنارس کے دو اسپتالوں نے یہ کہہ کر مسلم خواتین کا علاج کرنے سے انکار کیا کہ وہ کرونا پھیلانے آئی ہیں، جے پور میں بھی ایک مسلم خاتون کو اسپتال میں ایڈمٹ نہیں کیا گیا، اسٹریچر پر ہی بچے کی پیدائش ہوگئی اور نومولود کچھ دیر کے بعد فوت ہو گیا، جھارکھنڈ میں بھی اسی طرح کا ایک معامل سامنے آیا، میرٹھ کے ایک اسپتال نے بذریعہ اشتہار مسلمانوں سے کہا کہ وہ اس اسپتال میں علاج کی غرض سے اسی صورت آئیں جب ان کے پاس کرونا وائرس کے ٹیسٹ کی نگیٹیو رپورٹ ہو، مزید اس اشتہار میں کرونا کے لیے تبلیغی جماعت کو مورد الزام ٹھہرایا گیاہے، اگرچہ کارروائی کے بعد اسپتال کی جانب سے معافی مانگی گئی، احمد آباد کے ایک سرکاری اسپتال میں کرونا کے مسلم اور ہندو مریضوں کو الگ الگ وارڈز میں رکھا گیا ہے، 
          اب اس معاملے کی باز گشت سرحدوں کو عبور کرتے ہوئے خلیجی ممالک تک پہنچ گئی اور وہاں موجود بھکت اور سنگھی ذہنیت رکھنے والے افراد مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنے لگے، لیکن اب دھیرے دھیرے اس طرح کے لوگوں کو دبوچا جا رہا ہے، راکیش کیترمتھ نامی شخص کو سوشل میڈیا پر اسلام کی توہین کرنے کے الزام میں جہاں ملازمت سے برطرف کر دیا گیا، وہیں پولیس کارروائی سے بھی گذرنا پڑا، اسی طرح ابوظبی میں رہنے والے ایک اور شخص متیش نے فیس بک پر مسلمانوں اور اسلام کے خلاف اپنی نفرت کا اظہار کیا جس پر اسے  نوکری سے ہاتھ دھونا پڑا، 
          دبئی میں مقیم ایک خاتون پریتی گری نے ٹویٹ کیا”بھولے بھالے ہندوؤں کو معلوم نہیں ہوگا کہ بالی ووڈ اداکارعامرخان تبلیغ سے تعلق رکھتے ہیں، آپ کو بتا دوں کی تبلیغی جماعت سنی حنفی فکر کے لوگ ہوتے ہیں جن میں ننانوے فیصد دیوبندی ہوتے ہیں، یہ ہندو بڑے بھولے ہیں کچھ دن گزر جانے کے بعد ان کی فلموں کے پیچھے بھاگیں گے”، مزید ان محترمہ نے دو بزرگوں کو ایک دوسرے سے ملاقات کرتا دیکھ کر ٹویٹ کیا "دیکھو کہیں یہ کرونا ٹیسٹ کے نئے طریقے پر ریسرچ تو نہیں چل رہا ہے” ایک اور ٹویٹ موصوفہ نے اس طرح کیا "تبلیغی جماعت کے ذریعے جو مرکز نظام الدین میں ہوا وہ بہت شرمناک ہے یہ کون لوگ ہیں ان کا مشن کیا ہے کیا یہ لوگ پورے ہندوستان میں جراثیمی جہاد پھیلانا چاہتے ہیں یہ لوگ اگر سامنے نہیں آتے تو ملک بچانے کے لیے انکاؤنٹر ہی ان کا واحد حل ہے”، 
         ان کے ٹویٹس کا ان کی بوس (جو ایک خاتون ہیں)نے نوٹس لیتے ہوئے اس انداز میں جواب دیا، 
"آپ کے حساب سے سنیں آتنکوادی ہوتے ہیں کیونکہ ہندوستان میں مسلمانوں کے خلاف اسی طرح کا پرچار کیا جاتا ہے کیا آپ کو معلوم ہے آپ جس ملک میں رہتی ہیں وہ سب کے سب سنی ہیں کیا تم ہمارا تم ہمارا بائیکاٹ کرنا چاہتی ہوں اور دبئی کے سارے پولیس کا عملہ سنی ہے میں بھی سنی ہوں”، 
       "کیا آپ یہ سمجھتی ہیں کہ آپ کے بڑے لوگوں سے تعلقات ہے اور ہم آپ کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیں گے ہندوستان سے جتنے لوگ پیسے لے کر بھاگ گئے ہیں ان کے تعلقات بھی آپ کے بڑے لیڈروں کے ساتھ ہیں اس ٹویٹ کو ڈیلیٹ مت کرنا اسکرین شاٹ ہمارے پاس ہے”،  "کیا آپ نے اپنے ٹویٹ میں مسلمانوں کا بائیکاٹ کرنے کی بات نہیں کہی ہے یہ نفرت آپ کے اندر کہاں سے آئی

"؟ اسی ملک کی ایک دوسری خاتون نے بوس کو ٹیگ کرکے ٹویٹ کیا،” یہ آپ کے پاس کام کر رہی ہیں کیا کیا ہمیں ایسے لوگوں کی ضرورت ہے جو مسلمانوں سے نفرت کرتے ہیں”، 

       بوس کا ٹویٹ دیکھ تھوڑا عقل ٹھکانے آئی تو کہنے لگیں”کسی کے جذبات و احساسات کو مجروح کرنا قطعی میرا مقصد نہیں، میں اس وبا سے ڈر گئی تھی میں مسلم بھائی بہنوں کو ٹھیس پہنچانا نہیں چاہتی تھی، لہذا اگر کسی کے جذبات کو ٹھیس پہنچی ہو تو میں معافی مانگتی ہوں، میں آپ کو یقین دلاتی ہوں کہ نفرت کی کوئی بات نہیں، میں ہمیشہ یو اے ای حکومت کے ساتھ ہوں”، 
      روزگار کے سلسلے میں خلیج میں مقیم ایک بھکت نے تبلیغی جماعت کو ٹارگٹ کرتے ہوئے یوں ٹویٹ کیا "مشرق وسطیٰ کے ممالک جو کچھ بھی ہے وہ ہم ہندوستانیوں کی وجہ سے ہیں جس میں اسی فیصد ہندو ہیں ہم نے کوڑے کے ڈھیر سے دبئی جیسے شہروں کو کھڑا کیا ہے اور اس بات کا اعتراف خاندان بھی کرتا ہے” ایک دوسرے ٹویٹ میں اس شخص نے کہا "یہ لوگ اب بھی چودہ سو سال پہلے کی روایات میں پھنسے ہیں اور ترقی یافتہ دنیا کے ساتھ ساتھ چلنے میں یقین نہیں رکھتے”، اس کا جواب وہیں کے ایک شخص نے دیکر خاموش کیا، 
      "جو آدمی عرب امارات کی سرزمین پر کھلے عام نسل پرستی یا بھیج بھاؤ کرے گا اس پر جرمانہ عائد کیا جائے گا اور سرزمین چھوڑنے پر مجبور کیا جائے گا تاکہ ایک مثال قائم ہو سکے” 
       دوسرا جواب یہ دیا گیا کہ "ہندوستان کے حکمرانوں سے ہمارے اچھے تعلقات ہیں لیکن آپ کی بدتمیزی برداشت نہیں کی جائے گی، ہم یہاں کسی سے مفت کام نہیں لے رہے سب کو ان کے کام کے پیسے ملتے ہیں، آپ اسی ملک سے روزی روٹی کماتے ہیں اور اسی سے نفرت کرتے ہیں اس کو برداشت نہیں کیا جائے گا” ، 
        بنگلور سے ایم پی تیجسووی سوریہ نے بدنام زمانہ پاکستانی نژاد برطانوی شہری طارق فتح کے ایک پرانے ٹویٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا” عرب کی 95 فیصد عورتوں نے ازدواجی زندگی کا لطف نہیں اٹھایا ان کے جو بچے ہوئے ہیں وہ صرف سیکس کا نتیجہ ہیں” تو انہیں بھی اس طرح کا منھ توڑ جواب ملا، "آپ کی ماں نے آپ کو یہی طور طریقہ اور تہذیب سکھائے ہیں تب بھی آپ ایسا کہہ رہے ہیں”،  اور وکیل نے بھی وزیراعظم نریندر مودی کو ٹیگ کرتے ہوئے جواب ٹویٹ کیا ہے” کیا آپ اپنے ممبر آف پارلیمنٹ کو جو ہماری عورتوں کی تذلیل کرنے کی اجازت دیتے ہیں امید کرتے ہیں کہ آپ ضرور انہیں سزا دیں گے یا ان پر کارروائی کریں گے” 
       ان متعصبانہ اور نفرت انگیز ٹویٹس کا عرب امارات کے ایک شہری عابد الزہرانی نے جواب دیا
"جو ہندوتوا کے لوگ ہمارے ملک میں نفرت پھیلا رہے ہیں اور اپنے ملک کے مسلمانوں کے خلاف زہر اگل رہے ہیں اور مسلمانوں کی لنچنگ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں بہتر یہ ہے کہ ان کو خلیجی ممالک سے نکال دیا جائے” 
        کویت کے ایک شہری عبد الرحمن النصار اس معاملہ میں لکھا’’کویت میں ہندوستانی نژاد طبقہ کے لوگ کورونا انفیکشن کے معاملہ میں سب سے اوپر ہیں لیکن یہاں کے بہترین اسپتالوں میں ان کا علاج چل رہا ہے، کیوںکہ کویت میں مذہب اور شہریت کی بنیاد پر لوگوں میں تفریق کرنے کا رواج نہیں ہے۔‘‘
         معاملہ کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے یو اے ای میں انڈیا کے سفیر پون کپور نے لکھا کہ "انڈیا اور یو اے ای کسی بھی بنیاد پر تفریق نہ کرنے پر عمل کرتے ہیں۔ تفریق ہمارے اخلاقی ڈھانچے اور قانون کے نظام کے خلاف ہے۔ یو اے ای میں موجود انڈینز ہمیشہ اس بات کو یاد رکھیں۔‘
           اقلیتی امور کے وزیر مختار عباس نقوی نے ملک میں مسلمانوں کی حالت کا دفاع کرتے ہوئے کہا "مسلمانوں کے لیے انڈیا جنت کی طرح ہے جہاں ان کے حقوق محفوظ ہیں اور سیکیولرزم اور بھائی چارا، انڈیا اور انڈین شہریوں کے لیے (پولیٹِکل فیشن) سیاسی فیشن نہیں بلکہ پرفیکٹ پیشن (جنون) ہے۔” اور وزیراعظم نریندر مودی نے ٹوئٹر پر ایک پیغام میں کہا "کووڈ 19 کسی پر حملہ کرتے وقت اس کی نسل، مذہب، رنگ، ذات، زبان اور اس کی سرحد نہیں دیکھتا۔”
           اب یہ لوگ جو بڑے بہادر خودساختہ مہذب تعلیم یافتہ اور جہاندیدہ بنتے تھے جواب ملنے کے بعد بلوں میں روپوش ہوگئے یا پھر اپنے زہریلے ٹوئیٹس کو ڈلیٹ کر دیا لیکن نفرت کا بیج تو بونے میں کامیاب ہی ہوگئے جو ان کا مقصد تھا اور ملک میں دو قوموں کے درمیان نفرت بڑھانے کے علاوہ دو ملکوں کے معاملات میں تلخی بھی پیدا کردی اس کے علاوہ خلیجی ممالک میں رہنے والے ہندوستانیوں کے لیے بھی پریشانی اور تکلیف کا باعث بن گئے. 
         لہذا حکومت کو ایسے لوگوں کے خلاف سخت نوٹس لینا چاہیے اور کارروائی کرکے دوسروں کو ایسا نہ کرنے کا پیغام دینا چاہیے طبی یہ ثابت ہوگا کہ حکومت سب کا ساتھ سب کا وکاس کے ساتھ سب کا وشواس حاصل کرنا چاہتی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے