طالبان حکومت اور ہمارا موقف

ازقلم: محمد نفیس خان ندوی

ایک طویل جدوجہد اور مسلسل محاذ آرائی کے بعد طالبان نے پورے افغانستان کو اپنے کنٹرول میں لے لیا ہے، دارالحکومت کی فتح یابی کے وقت جس امن اور عام معافی کا اعلان ہوا اس نے بڑے بڑے سیاسی پنڈتوں کو بھی حیران و شس در کردیا. کیونکہ عام طور پر یہی موقع ہوتا ہے اپنی قوت و جبروت کے اظہار کا لیکن طالبان کے اقدام نے پوری دنیا کے مسلمانوں کا سر فخر سے اونچا کردیا.. بلا شبہ یہی اسلامی تعلیمات ہیں…

طالبان حکومت کو دنیا کے کتنے ممالک قبول کریں گے اور کتنے بغض وعناد میں اس کے خلاف ہوں گے یہ تو طالبان کی آگے کی سرگرمیاں واضح کریں گی، امید ہے کہ ایک بڑی تعداد اس حکومت کا خیر مقدم کرے گی..

البتہ اس وقت ہمارے لیے سب سے حساس اور نازک مسئلہ ہمارے ملک کا ہے، بظاہر اس ملک کی پالیسیاں طالبان موافق نہیں ہیں اور شاید طالبان حکومت کو تسلیم کرنے میں طویل وقت بھی لگے گا اس لیے ہندی مسلمانوں کو بھی اپنے جذبات کو کنٹرول میں رکھنا نہاہت ضروری ہے..

ہم جس ملک میں ہیں وہاں کی سیاسی پالیسی کی رعایت کرنا ہمارے لیے ضروری ہے، یہ چونکہ ایمان و کفر کا مسئلہ نہیں بلکہ ایک سیاسی مسئلہ ہے اور اس ملک کے بھی اپنے سیاسی مفادات ہیں، ہمیں ان سیاسی مفادات سے ٹکرانے کی ضرورت نہیں ہے..

اس لیے مشورہ ہے کہ طالبان کی فتح کا جشن ابھی انہیں کو منانے دیں، ہم دعاؤں کے ذریعہ ساتھ دیں، ہمارے جذبات بے قابو نہ ہوں تو ہی ہمارے لیے مناسب ہے، اس لیے بہت زیادہ ایسی پوسٹ کرنے، اسٹیٹس لگانے اور جذباتی بیانات دینے سے احتراز کرنا چاہیے..

طالبان کے جذبہ جہاد، ان کی حکمت عملی، استقامت و پامردی اور ان کی عظیم قربانیوں کی ہم قدر کرتے ہیں اور یہ اعتراف بھی کرتے ہیں کہ ہم ان صفات سے ابھی محروم ہیں، ہماری نیتیں درست ہیں، ہمارے جذبات پاکیزہ ہیں اور ہم اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے کوشاں ہیں لیکن ہم کسی بھی ناحیہ سے اس انقلاب کے لیے تیار نہیں ہیں، اس لیے خدشہ اس بات کا بھی ہے کہ بعض نام نہاد قائدین ہماری اسی کمزوری کا فائدہ اٹھا کر اپنی سیاسی شبیہ کو چمکانے کی کوشش کریں گے، اس لیے ہمیں جذبات کے بجائے زمینی حقائق کو قبول کرنا چاہیے.

چونکہ طالبان کی نسبت مدارس اسلامیہ کی جانب ہے، اس لیے ہر مخالف ملک میں مدارس کو ٹارگیٹ کیا جاسکتا ہے، ایسے حالات میں خاص کر علماء اور اہل مدارس کی ذمہ داری ہے کہ حکمت و اعتدال کے ساتھ اس موضوع کو اختیار کریں اور دعا بھی کریں کہ یہ سیاسی انقلاب ہندوستانی مسلمانوں کے لیے نوید فتح ثابت ہو.

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے