صحیح غلط !!!

از:۔مدثراحمد۔9986437327


کرناٹک کے ایک چھوٹے سے گائوں سے تعلق رکھنے والے ایک بچے نے سی ای ٹی کے امتحان میں ریاست بھرسے 170واں رینک حاصل کرتے ہوئے کامیابی کی جانب اپنے قدم بڑھائے ہیں۔ اس دوران اس بچے کے والد نے بتایا کہ میں نے اپنے بیٹے کی تعلیم پرخصوصی توجہ دی اوراسکی نگرانی وہ پرورش کوبہتر ڈھنگ سے انجام دینے کیلئے ہمیشہ کوشش کی، ایسا نہیں کہ نگرانی کا مطلب میرے بیٹے پر مجھے بھروسہ نہیں تھا، بلکہ نگرانی اس لئے کی گئی کہ کہیں میرے بیٹے کی صحبت غلط بچوں سے نہ ہو۔ اسوقت ہم دوسروں کے بچوں کو موردِ الزام نہیں ٹھہراسکتے کیونکہ ہمیں اپنے مال کی حفاظت خود کرنی ہوتی ہے اسی لئے اپنے بچوں کی نگرانی ہمیں خود سے کرنا پڑتا ہے۔ موجودہ حالات کا جائزہ لیں تو نوجوانوں کا بڑا طبقہ بے راہ روی کا شکار ہوچکا ہے۔ بچے حد سے تجاوز کرچکے ہیں ۔ نشے کی عادت میں مبتلاء ہوچکے ہیں۔ عیاشی اوربدتمیزی انکے اندر جذب ہونے لگی ہے۔ نافرمانی عام بات ہوچکی ہے۔ گالی گلوچ انکا شیوا بن چکا ہےاور تعلیم کو صرف فیشن کے طورپر حاصل کررہے ہیںاوروالدین اپنے بچو ں کی ان حرکتوں سے مطمئن ہیں۔ عام طور پر ان والدین کا سوچنا ہوتا ہے کہ انکے بچے نہایت شریف ہیں، بااخلاق وباکردار ہیں۔ انکی صحبتیں بھی اچھی ہیں۔ اسی بنیاد پر وہ اپنے بچوں کے تعلق سے لاعلم اورلاپرواہ رہتے ہیں۔والدین کی اسی چھوٹی سی بھول کی وجہ سے ہماری نسلیں تباہ وبرباد ہونے لگی ہیں۔ والدین جسطرح سے اپنے بچوں کو آنکھ کا تارا کہتے ہیں بالکل اسی طرح سے والدین کو چاہئے کہ اپنے بچوں پر اپنی آنکھیں مسلط کررکھیں۔ اگر ایسا نہیں کیا جاتا ہے تواپنے بچوں کی تباہی وبربادی کیلئے ہمیں خود ذمہ دار ہونا پڑیگا۔ حالات حاضرہ پر نظر دوڑائیں ہمارے اپنے بچپن اورہمارے بچوں کے بچپن میں کتنا فرق ہے اس پر غور کریں۔ ضرورتیں ہماری بھی پوری ہوا کرتی تھی اورہمارے بچوں کے شوق بھی پورے ہورہے ہیں۔ لیکن ہمارے بچے اپنے شوق کی حد کو کسطرح پر پہنچائے ہوئے ہیں اس پر غور کیجئےاورہم نے جو زندگیاں گذاریں تھی یقیناً وہ سخت مراحل سے ضرور گذریں ہیں لیکن فخر کے ساتھ ہم اور آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہماری زندگیاں بہتر ہوئی ہیں۔ ایک طرف بچےدوسروں کو صحبت میں رہ کر اپنی زندگیاں تباہ کررہے ہیں تو دوسری جانب یہ بچے اپنے والدین کی کمزوریوں اورکوتاہیوں کو دیکھ کر اپنی زندگیوں کو بگاڑ رہے ہیں۔ کچھ ہم نے کچھ ایسے بچوں کا سامنا کیا ہے جو اپنے والدین کی غلطیوں کو سامنے رکھ کر والدین کو ہی بلاک میل کررہے ہیں اوراپنی عیاشیوں کو پروان چڑھارہے ہیں۔ چونکہ والدین خود غلطیوں میں ملوث ہیں اسلئے وہ اپنے بچوں پر سختی نہیں کرسکتے۔ جن والدین کو اپنے بچوں کیلئے ماڈل بن کر رہنا تھا وہی والدین آج اپنے بچوں کے سامنے ماڈلنگ کررہے ہیں۔ جن والدین کو سوشیل میڈیا سے گریز کرناتھا یا پھر ضرورت کے مطابق سوشیل میڈیا کا استعمال کرنا تھا وہی والدین آج سوشیل میڈیا کے پروانے، متوالے بن چکے ہیں۔ کئی مائیں اپنی بیٹیوں کو لیکر ٹک ٹاک، کی ویڈیوز بنارہی ہیں تو کچھ باپ اپنے بچوں کو ساتھ لیکر حقہ، سگریٹ کی محفلوں میں جگہ عطا فرمارہے ہیں۔ ایک شخص جو حقہ بار کو روزانہ جاتا تھا، تو اسکا بیٹا بھی اسکی برابر والی نشست میں بیٹھاتھاجب کسی نے ان سے پوچھا کہ آپ اپنے بیٹے کو یہاں کیوں لائے توانہوں نے برجستہ جواب دیا کہ یہ تو حقہ حلال ہے اسلئے میں اسے اپنے ساتھ لانے میں عیب نہیں سمجھتا۔ جب والدین ہی برائی کی جڑ کو ختم کرنے کے بجائے اسے حکمت کے مطابق نئے نئے نام دینے لگیں گے تو اولاد کی پرورش ورہنمائی کیسے بہتر ہوگی یہ سوچنے کی بات ہے۔ بچوں پر نگرانی رکھنے کا مقصد ہرگز بھی یہ نہیں ہے کہ ہم انہیں چاروں طرف سے جکڑلیں بلکہ اپنے بچوں کو اپنی نگرانی میں رکھ کر انہیں صحیح وغلط کے تعلق سے واقفیت کروائیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے