تحریر: محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
انسان کا علم محدود ہے ، اسے اپنی تقدیر کے بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا ہے ، اور نہ ہی اللّٰہ کی مشیت کے بارے میں وہ کچھ جانتا ہے ، ہمارا ایمان ویقین ہے کہ ہوتا وہی ہے جو خدا چاہتا ہے اور ہوگا وہی جو خدا چاہے گا ، پھر جو کچھ ہوا ، ہو رہاہے یا ہوگا وہ سب تقدیر کا حصہ ہے ، تقدیر فردکی بھی ہوتی ہے اور قوموں کی بھی ، فیصلے اللّٰہ کے انفرادی بھی ہوتے ہیں اور اجتماعی بھی، انفرادی گناہ کی سزا فرد کو اور اجتماعی گناہ کی سزا قوموں کو ملتی ہے ، سزا ہی کی ایک قسم ایسے حکمرانوں کا تسلط ہے جو عوام وخواص کے لیے اذیت، مصائب اور تکلیف کا باعث ہوتے ہیں، گویا ہماری بد اعمالی کی وجہ سے ہمیں ان لوگوں کی ما تحتی میں ڈال دیا جاتا ہے ، جو صرف ظلم وطغیان کی زبان جانتے ہیں اور جنہیں الطاف وکرم کی کوئی ادا نہیں آتی ۔ اعمالکم عمالکم کا یہی مطلب ہے ۔
ایسے میں ظاہر ہے ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھا نہیں جا سکتا ، جتنی استطاعت ہو، اس کے بقدر تدبیریں کرنی چاہیے ، ظلم کو خاموشی سے سہنا ظلم کی توسیع واشاعت میں مدد کرنا ہے ، اس لیے ہر ممکن اس کو دور کرنے کی سوچنا چاہیے ، مختلف تنظیموں سے اتحاد اور بلند وبالا ایوانوں تک اپنی بات پہونچا نے کے نت نئے طریقوں کی تلاش، یہ تدبیر کا ہی حصہ ہیں، اپنے مطالبات منوانے کا ذریعہ ہیں، احوال کو صحیح سمت اور رخ دینے کی جد وجہد ہے ،اس لیے ہر سطح پر اس کام کو کرنا چاہیے ، مل کر کرنا چاہیے ، تحفظات اور ذاتی مفادات سے اوپر اٹھ کر کرنا چاہیے ، اس کام کے لیے تعاون کا میدان وسیع ہے اور مشترکہ نکات پر ہر مذہب ، ہر مسلک اور ہر مکتب فکر کے لوگوں کو جوڑا جا سکتا ہے ، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے نفقۂ مطلقہ کے معاملے میں سب کو جوڑ کر تحریک چلائی تھی تو کامیابی قدم بوس ہوئی ، اسی نہج پر مفکر اسلام حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی رحمۃاللہ علیہ کی قیادت میں ’’دین ودستور بچاؤ‘‘ تحریک زوروں پر چلی تھی ، اس کے بھی مفید اثرات سامنے آئے اور اقلیتوں کو اپنے دین اور دستور کے اعتبار سے اس وقت جن مسائل کا سامنا ہے ، اس سے باہر نکلنے کے مواقع پیدا ہوئے ۔
اتحاد میں بڑی طاقت ہے بکھرے ہوئے تارے متحد ہوتے ہیں تو خورشید مبیں بننے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں؛ اس لیے ہمیں مختلف مذاہب ، مکاتب فکر اور مسالک کو متحد کرکے ایک لڑی میں پرونا چاہیے اور انہیں ٹوٹنے سے بچانا چاہیے ، وقتی مصالح اور فروعی اختلافات کو نظر انداز کرکے ملک وملت کی سر بلندی دستور کی بقاوتحفظ کے لیے آگے آنا چاہیے ۔
اس ساری جد وجہد میں ہمیں کامیابی ملے ، اس کے لیے اللّٰہ سے رجوع کرناانتہائی ضروری ہے ، فیصلے اللّٰہ ہی کے چلتے ہیں اور لوگوں کے قلوب دوسری چیزوں کی طرح اسی کے دست قدرت میں ہیں، بندے کی نگاہ اسباب پر ہوتی ہے ؛ کیونکہ اسے سبب اختیار کرنے کا مکلف بنایا گیا ہے ، لیکن اللّٰہ مسبب الاسباب ہے ، قادر مطلق ہے ، وہ اس پر قادر ہے کہ سارے احوال کے مخالف ہونے کے با وجود وہ اپنے ماننے والوں کو فوز وفلاح سے سر فراز فرما دے ، وہ چاہتا ہے تو اسباب دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں، آگ حضرت ابراہیمؑ پر ٹھنڈی ہو جاتی ہے ، دریائے نیل حضرت موسیٰ ؑ اور نبی اسرائیلؑ کو راستہ دے دیتا ہے ، چھری حضرت اسماعیل کے حلقوم پر اُچٹ جاتی ہے اور ان کا بال بھی بیکا نہیں ہوتا ، بدر کے تین سو تیرہ مسلمان ہزار کفار پر بھاری پڑ جاتے ہیں، یہ سب اللّٰہ سے لو لگانے کا ہی نتیجہ ہے ۔
یاد ہوگا کہ بدر میں چھوٹی سی نفری کو میدان میں لے جا کر آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑا کر دیا اور پھر سجدے میں گر گئے ، مانگنے لگے ، مانگتے رہے ، روتے رہے ، گڑگڑا تے رہے اور بالآخر بدر میں فتح وکامرانی کا مژدہ اللّٰہ رب العزت نے پہلے ہی سنا دیا ، اور مسلمان جماعتِ کثیر پر غالب آگیے ۔ اس لیے آج جن حالات سے ہم گذر رہے ہیں، اس میں مثبت تدبیروں کے ساتھ آہ سحر گاہی اور دعائے نیم شبی کی بھی ضرورت ہے ، جس میں مسلمان دن بدن پیچھے چلے جا رہے ہیں، ایک طبقے نے دعا کو دل کی تسلی کا ذریعہ کہہ کر اس کی نا قدری کی ہے اور دوسرا طبقہ اس ہتھیار کی کاٹ سے نا واقف ہے ، حالانکہ یہ مؤمن کا اصل ہتھیار ہے اور ایسا کار گر ہے کہ قضا وقدر کے فیصلے بھی اس سے بدل جا تے ہیں، اللّٰہ رب العزت کا ارشاد ہے کہ تم مجھ سے مانگو، میں تمہاری دعا قبول کروں گا ، دعا ؤں میں تضرع ہونا چاہیے ، مانگنے کا سلیقہ ہونا چاہیے ، نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم پر درودوں کا التزام ہونا چاہیے ۔
واقعہ یہ ہے کہ ہمیں مانگنے کا سلیقہ بھی نہیں آتا ، ہم جو مانگ رہے ہیں، اس کے بارے میں بھی نہیں جانتے کہ کیا مانگ رہے ہیں، ہم دعائیں پڑھتے ہیں، مانگتے نہیں ، پڑھنے کے اپنے فوائد ہیں، اس سے انکار نہیں ، بھلا دعائے ماثورہ یعنی قرآن واحادیث کی دعاؤں کے الفاظ میں جو نورانیت ہے ، جواثر ہے ، اس سے کس کو انکار ہو سکتا ہے ، لیکن دعا کی قبولیت کے لیے دل کی کیفیت بھی مطلوب ہے ، تاکہ بندے کی عاجزی در ماندگی ، کس مپرسی بے کسی اور بے بسی کا اللّٰہ کے سامنے اظہار ہو ، یہ اظہارِ عجز وبندگی اللّٰہ کو بہت پسند ہے اور اس کو دیکھ کر رحمت خداوندی جوش میں آ جاتی ہے اور بندہ اپنے مقصود ومطلوب کو پا لیتا ہے ۔
حضرت ذو النون مصری ؒ کا مشہور واقعہ ہے کہ کسی نے ان سے اسم ذات دریافت کیا ، مشہور ہے کہ اسم ذات کے حوالے سے جو دعا کی جاتی ہے مقبول ہوتی ہے ، حضرت ذو النون مصری ؒ نے اس شخص کو اسم ذات نہیں بتایا ، فرمایا : رات اندھیری ہو ، دریا میں طغیانی ہو ، موج بلا خیز ہو اور تمہاری کشتی بھنور میں پھنس کر ٹوٹ چکی ہو ، تم کشتی کے ایک تختے
کو پکڑ ک
ر اپنی زندگی کی بقا کی آخری لڑائی لڑ رہے ہو ، اس نا امیدی اور بے بسی کی حالت میں جس نام سے اللّٰہ کو پکاروگے ، وہی اسمِ ذات ہے ، مطلب یہ ہے کہ کیفیت اصل ہے ، جن حالات کا اوپر ذکر کیا گیا ، اس حالت میں اللّٰہ سے مانگنے میں جو خشوع، خضوع، تضرع، الحاح ہوگا، اس کا تصور وہی شخص کر سکتا ہے ، جس کو کبھی ان حالات سے سابقہ پڑا ہو ۔
ایک صاحب نے اپنی آپ بیتی سنائی کہ افریقہ کے جنگلی علاقہ میں گاڑی کا تیل ختم ہو گیا ، پٹرول پمپ بیس کیلو میٹر دور اور جیب بھی پیسے سے خالی ، ہر دم جان کے جانے کا خطرہ ،فضائل اعمال میں سن رکھا تھا کہ ڈاکو نے ایک شخص کو گھیر لیا ، اس نے نماز کے لیے مہلت مانگی ، نماز کے لیے کھڑا ہوا اور قرأت ’’اَمَّنْ یُّجِیْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَاہُ‘‘ کی شروع کر دیا، اللّٰہ نے ’’رجال غیب‘‘ بھیج کر اس کی مدد کی اور ڈاکو مارا گیا ، پڑھا بھی تھا ، سنا بھی تھا، لیکن یقین ویسا نہیں تھا ، جیسا چاہیے تھا ، اب جو یہ موقع آیا تو دل کی کیفیت یقین کے مرحلے تک پہونچ گئی ، وضو، نماز کا موقع نہیں تھا ، آیت کریمہ کا ورد شروع کیا اور اللّٰہ نے اس جنگل میں رات کی تاریکی میں ’’رجال‘‘ غیب بھیج دیا ، اس کی گاڑی وہ تیس کیلو میٹر کھینچ کر لے گیا، گاڑی پٹرول پمپ پر لگی تو ایک دوسرے نے تیل کے روپے پٹرول پمپ والے کے حوالے کر دیا ، خدائی نصرت اور الٰہی مدد اس طرح آتی ہے ، ضرورت ہے یقین کی اور اللّٰہ کی نصرت پر بھروسے کی ، شاعر نے کہا ہے :
درِ کریم سے سائل کوکیا نہیں ملتا مانگنے کا جو طریقہ ہے اس طرح مانگو