تحریر: محمد قاسم ٹانڈؔوی
ألحمدللہ! ہم مسلمان ہیں، اور ہم اپنے مسلمان ہونے پر نہ کسی طرح کی شرم و عار محسوس کرتے ہیں اور نہ ہی کسی قسم کا دباؤ اور الجھاؤ، بلکہ مکمل فرحت و انبساط کے ساتھ اپنے مسلمان ہونے پر فخر جتاتے ہیں۔ اب چاہے خدا رسول اور خدا کے اس پسندیدہ دین و مذہب سے بغض و عناد رکھنے والے عناصر اور رات و دن ہمہ جہت ہونے والی اس کی عالمی ترقی سے کڑھنے والے شدت پسندوں کا ٹولہ اس کی مخالفت میں "دھرم سنسد” کریں یا باطل فکر و نظریات کے فروغ اور اس کی تشہیر میں جھوٹے دعوے اور وعدوں کےلئے "ابلیس کی مجلس شوری” بلائیں؟ ہمارے اس مبنی برحق دین کا کچھ بگڑنے والا نہیں (ان شاء اللہ العزیز)
ہمارا دینی تعلق ایسے مذہب سے ہے، جو ایک کامل و مکمل دین ہونے کے ساتھ زندگی میں پیش آمدہ ضروریات کی تکمیل اور تمام شعبوں اور تقاضوں میں بروقت رہنمائی کرتا ہے۔ مثلاً اس دنیا کی فوز و فلاح کیسے حاصل ہو سکتی ہیں اور آخرت کی کامیابی و کامرانی کیسے مقدر بن سکتی ہیں؟ کس راستے پر چل کر دنیا کے بنانے والے رب کی اطاعت و فرماں برداری پر جوش و جذبہ ہمیں کیسے ابھار سکتا ہے اور کونسا طریقہ اختیار کرنے اور اپنی زندگی میں داخل کرنے کے بعد اس کے رسول عربیؐ کی محبت و عقیدت میں ہمیں غرقاب کر سکتا ہے؟ ان سب امور کے واسطے للہی دین کی دولت بشکل آخری شریعت "شریعت محمدیؐ” کی نعمت بےبہا ہمارے دامن کو لبریز کئے ہوئے ہے۔ بریں بنا ہمارا اس بات پر ایمان کامل اور پختہ عقیدہ ہے کہ ہم اس دنیا میں مستقل اور ہمیشہ رہنے کےلئے نہیں آئے، بلکہ یہ دنیا ہمارے لئے ایک سرائے اور مسافر خانہ ہے، جس میں ہماری حیثیت گھر وطن سے دور ایک اجنبی، غریب الدیار اور راہ چلتے اس مسافر کی ہے جسے گھر سے دور ہونے کی وجہ سے ہر آن اپنے بچوں کا غم دامن گیر رہتا ہے اور اس مسافر کا ذہن و دماغ ہر وقت اپنے اہل و عیال میں اٹکے رہنے کی وجہ سے جلد از جلد اپنے کام اور ضرورتوں سے فارغ ہو کر اپنے وطن اور اہل خانہ کے درمیان پہنچنے کی سعی و کوشش میں سرگرداں کئے رہتا ہے۔ بعینہ یہی حالت ہونی چاہئے ایک ایمان والے کی اور اسے اس بات کا احساس و شعور رہنا چاہیےکہ: "نہ جانے کب زندگی کا یہ سفر پورا ہو جائے اور کب وقت موعود آ پہنچے”؟ جس کی بابت فرمایا گیا: "بلاشبہ جب اللہ کا مقرر و متعین کیا ہوا (موت) کا وقت قریب آتا ہے، تو وہ ایک لمحہ کی بھی مہلت نہیں دیتا” (القران) اس لئے ہر ایمان والے کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس عارضی اور فانی دنیا میں رہ کر اپنی آخری منزل اور حقیقی دنیا کی طرف کوچ کرنے کی فکر و جستجو میں سرگرداں رہے اور وہاں کی ابدی زندگی کو پرسکون انداز میں حاصل کرنے اور اس آخری منزل کے تمام مرحلوں اور واسطوں سے پر امن طور پر خود کو گزار لے جانے پر ہمہ وقت کوشاں رکھے؛ تاکہ اس بےثبات و ناپائیدار دنیا سے جس وقت بھی رخصت ہونا مقدر ہو جائے؛ اس وقت بھی اور بوقت حساب و کتاب بھی کسی قسم کی ندامت و شرمندگی کا احساس دامن گیر نہ ہو اور وہ مکمل طور پر ایک کامیاب و بامراد بندہ بن کر اپنے رب کے حضور حاضری دینے والے خوش نصیب بندگان خدا میں شمار کئے جا رہا ہو۔
یقیناً قرآن ہمارا بہترین رفیق و ہمدرد اور دنیاوی و اخروی کامیابی سے واقف کرانے والا اللہ پاک کا آخری صحیفہ اور حکمت و نصیحت سے لبریز ایسا آسمانی مجموعہ ہے؛ جس سے ہمارا رشتہ قوی سے قوی تر ہونا چاہئے اور خوشی و مسرت کے اظہار اور رنج و غم کے مواقع پر اسی سے راہنمائی حاصل کرکے وقت اور حالات کے رخ کو پھیرنا چاہئے، اور موقع بہ مواقع قرآن اپنی آفاقی تعلیمات سے جس انداز میں بھی ہماری راہنمائی اور رہبری فرمائے؛ ان تعلیمات کو ہمیں بسر و چشم منظور و اختیار کرنی چاہئیں۔ اس لئے کہ ہمارا جینا، ہمارا مرنا یا برے اور آڑے وقت میں ہمارا لوگوں کے کام آنا اور طاعات و عبادات میں اپنے آپ کو منہمک و مشغول رکھنا، یہ سب اسی حکمت و مصلحت کے تحت ہوتا ہے جسے قرآن یوں بیان کرتا ہے: سو اپنے رب کےلئے نماز پڑھئے اور قربانی کیجئے (القران) یعنی رب کی عبادت کی جائے اور اس کے بندوں کی خدمت میں لگا جائے؛ یقینا یہ دونوں کام توفیق الہی اور رب کی منشاء کے بغیر نہیں ہو سکتے اور نہ ہی کوئی دوسرا ان دونوں کاموں کا اجر و بدلہ عنایت کرسکتا ہے۔ اس لئے ہمیں بہرصورت قرآن و حدیث کی تعلیمات اور ان کے دائرے میں آکر ہی زندگی گزر بسر کرنی چاہئے۔ اور یہ اس لئے بھی ضروری ہےکہ دنیا میں آنے سے قبل (عالم ارواح میں) باری تعالی نے بنی نوع انسانی سے ایک عہد و پیمان لے رکھا ہے، جسے قرآن "عہد ألست” سے تعبیر کرتا ہے؛ جس میں اللہ پاک نے آدمؑ کی صُلب (پیٹھ) سے ان کی اولاد و احفاد کو نکالا، جب سب لوگ سامنے (باہر) آ گئے تو سب سے اپنی ربوبیت (خدائی) کا عہد و اقرار لیا تھا کہ: کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ تو سب بولے تھے: کیوں نہیں (ہم سب اس پر گواہ ہیں کہ) آپ ہی ہمارے رب اور مالک حقیقی ہیں (ہم اقرار و اعتراف کرکے ہی اس عارضی دنیا میں آئے ہیں) اس عہد و اقرار کا تقاضا تو یہ تھا کہ اس دنیا میں آنکھیں کھولنے والا ہر بندہ اور بندی اسی عہد و پیمان کو ذہن نشیں رکھتے ہوئے مکمل طور پر احکامات الہی اور پیغمبرانہ اصول و ضوابط پر کاربند ہوتے اور اپنے کاموں کو انجام دیتے۔ مگر کہتے ہیں کہ یہ انسان کی فطرت ہے کہ انسان حالات سے بہت جلد متآثر ہو جاتا ہے اور وہ ان سب باتوں کو فراموش کر دیتا ہے، جو بعد میں اس کے سامنے پیش آنے والی ہوتی ہیں۔
یہاں بھی معاملہ کچھ ایسا ہی ہے کہ: ہم نے اس مادی دنیا کی پالیسیوں سے متآثر ہو کر اور یہاں کی چمک دمک کو دیکھ کر اپنی آخرت اور حقیقی منزل کی طرف سے آنکھیں موند لیں اور نقد من
افع
کی طرف خود کو بھرپور طریقے سے متوجہ کر بیٹھے اور ہر اس کام و مشغلہ میں خود کو شریک کرنے لگے، جس کا تعلق اور ثبوت دور دور تک بھی قرآن و حدیث سے میچ نہیں کھاتا اور جس کی حصے داری نبھانے میں بھی عذاب الہی کے برسنے اور اس کے غضب کا لاوا پھوٹنے کا قوی امکان ہوتا ہے، ہمارے نوجوان بالخصوص عصری تعلیم گاہوں سے منسلک وہ طبقہ جن کے والدین نے انہیں دینی تعلیم سے محروم رکھا اور مذہبی امور سے آشنا نہیں کیا، آج وہ طبقہ کفر و ایماں کی کشمکش اور حق و باطل کی دلدل میں ٹامک ٹوئیاں مار رہا ہے اور یہ طبقہ جانے انجانے میں باطل افکار و نظریات کے حامل ٹیچرز کے بلانے یا عیسائی مشنری اور اس تحریک سے وابستہ دوست احباب کی دعوت کو قبول کرنے، کلاس فیلو کی دل جوئی اور فرینڈشپ کی خاطر ایسی محفل و مجلس میں شریک ہو جاتا ہے، جہاں سے واپسی پر ایمان کی سلامتی بھی یقینی نہیں ہوتی اور سال میں مختلف عنوانات کے تحت منائے جانے والے ان کے مختلف پروگراموں کا خوف کو حصہ بنا کر ہماری قوم و ملت کا یہ بیش بہا سرمایہ اور قیمتی جوہر اغیار کے داؤ پیچ میں ایسا الجھا دیا جاتا ہے، جہاں سے ایک مؤمن بندہ کفر و ارتداد کی دلدل میں پہنچ جاتا ہے اور اسے احساس و ادراک تک نہیں ہوتا، اس وقت نبی محترم محمد عربی (ﷺ) کی یہ پیشن گوئی سچ ثابت ہوتی نظر آتی ہےکہ: "ایک وقت میری امت پر ایسا بھی آئےگا کہ صبح کو بندہ مؤمن ہوگا تو وہ شام کو کافر اور شام کو وہ مؤمن ہوگا تو صبح اس کی کفر کی حالت میں ہوگی” (العیاذ باللہ)
انہیں فضول و بےہنگم پروگرام اور عیسائی مشنری کی ایجاد کردہ رسم و رواج میں سے ایک رسم بد سال نو کی آمد پر 31/دسمبر کی رات بارہ بجے جو جشن و چراغاں کیا جاتا ہے اور (Thirty First Night) منانے کا جو فعل انجام دیا جاتا ہے؛ وہ در حقیقت دنیا میں ضلالت و گمراہی کے اندھیرو کو مزید گھرا کرنے، جوانوں میں آوارگی اور ذہنی بالیدگی کو فروغ دینے اور کسب معاش سے دوچار انسانی برادری کو مزید غربت و افلاس کے دہانے پر لا کھڑا کرنے والا جرم عظیم اور خدا کی نافرمانی پر محیط عمل سیاہ ہوتا ہے۔ کیوں کہ جس انداز میں اس رات ہیجان انگیز حالات میں مرد و خواتین کا اجتماع ہوتا ہے اور سال نو کی مبارکبادی کے بہانے شراب نوشی، جنسی بےراہ روی اور مخرب الاخلاق اعمال کا ارتکاب کیا جاتا ہے، نیز سال نو کی اس پہلی رات میں ہر اس عمل کو دہرایا جاتا ہے جہاں انسانیت کا سر شرمندگی کے بوجھ تلے دب کر رہ جاتا ہے اور حیوانیت اپنے شباب پر ہوتی ہے، جہاں گانوں کی دھن پر تھرکتی نیم برہنہ دوشیزائیں، نشہ میں مست جوانوں کا ٹولہ اور ہوٹل و بار میں شراب و شباب کا ہالہ بنائے بلاامتیاز جنس سرپھروں کا ازدحام، احساس و شعور کی دولت سے نابلد اور اپنے انجام سے بےخبر عوام کا مجمع عام؛ اس بات کی شہادت دینے کےلئے کافی ہوتا ہے کہ:
"اس جگہ پر آج علی الاعلان اللہ کے احکامات کی بغاوت اور سرکشی کی جائےگی، یہاں انسانی فطرت کے خلاف اور قدرت کے منافی اعمال کو انجام دے کر روئے زمین کو گندہ اور اس کی فضا کو مکدر کرکے عذاب الہی کو دعوت دی جا رہی ہے اور اپنے اوپر عرصہ حیات تنگ کیا جا رہا ہے”۔
خدارا! اپنے نونہالوں کو اس طرح جہنم کا ایدھن ہرگز نہ بننے دیں، انہیں یہ بتائیں کہ یہ سال نو کی آمد محض خوشی کا موقع نہیں بلکہ محاسبہ کی دعوت ہمارے درمیان لےکر آیا ہے، یہ موقع ہمیں خوشی سے زیادہ رنج کا احساس دلانے آیا ہے؛ اس لئے کہ ایک اور سال ہماری زندگی کا کم ہو گیا، ہم اپنی زندگی سے دور اور موت کے مزید قریب ہو گئے ہیں، اس جاتے سال نے ہمیں اپنے اس رب کی طرف پلٹنا اور قبر کے اندھیرے میں پہنچنے کا سامان فراہم کرایا ہے، جس سے کسی فرد بشر کو چھٹکارا نہیں، جس کا حکم ہر آن، ہر لمحہ، ہر قدم، ہر نظر اور ہر وقت ہمارے شانوں پر منڈرا رہا ہے اور ہم اس کی طرف سے لاعلم و بےخبر ہیں، جبکہ: "کلُّ نَفسٍ ذَائِقۃُالموت” اور "لَوکُنتُم فِی بُرُوجٍ مُّشَیَُدَۃٍ” ہے۔