ازقلم: سیِّدعزیزالرّحمٰن، نائب صدرشرعی شوریٰ ”ہند“
قارٸینِ کرام !اللہ نے امت مسلمہ کو خیرِامت کہا ہے جو لوگوں کو فاٸدہ پہنچانے کے لیے برپاکی گٸی ہے جو معروف ،نیکی اور بھلاٸی کا حکم کرتی ہے اور منکر ،بدی اور براٸی سے روکتی ہے ،امتِ مسلمہ یعنی اللہ کے احکام کی اطاعت کرنے والی امت کا یہ خاص وصف ہے کہ وہ اچھاٸی کا حکم کرتی ہے اور براٸی سے روکتی ہے اور پوری انسانیت کو فاٸدہ پہنچاتی ہے۔
ظاہربات ہے تنفیذِ احکام کےلیے حکومت کا ہونا ضروری ہے اگر بلاحکومت کے حکم کریں گے تو بات نہیں مانی جاۓ گی اور آپ حکم نہیں کرسکتے، حدسےحدنیکی کی گزارش کرسکیں گے اور کبھی تو یہ بھی امر،محال ہوجاۓ گا چہ جاۓ کہ آپ براٸی سے روک پاٸیں اور جب تک آپ یہ کام نہ کرسکیں تب تک آپ نہ خیرامت میں شامل ہوسکتے ہیں اور نہ ہی امت مسلمہ میں شمار ہوگا ۔
اس لیے یہ بات دودوچار کی طرح واضح ہوگٸی ہے کہ امت مسلمہ کو روۓ زمین پربااقتدار رہناچاہیےاور اگراقتدارحاصل نہیں ہےتو اقتدار حاصل کرنےکی جدوجہداور کوششیں کرتے رہناچاہیے ،یہ مومنانہ اور مسلمانہ شان کے خلاف ہے کہ وہ کافروں کے زیرِسایہ رہے مومنین اس دنیا میں حکمران ہی رہ کرحقیقی مومن ومسلم رہ سکتے ہیں ورنہ ان پر کفر کےرنگ چڑھتے جاٸیں گے ایک مقولہ ہے” الناس علیٰ دینِ ملوکھم“ لوگ اپنے بادشاہوں کےدین پر ہوتے ہیں ، مومن قوم کی شان نہیں ہے کہ وہ محکومیت کی زندگی گزارے کیوں کہ اگر وہ محکوم رہ کرزندگی گزارتی ہے تو اس کا مقصدِ اصلی یعنی لوگوں کوفاٸدہ پہنچانا جو ”اخرجت للناس “ میں بیان کیاگیا ہے فوت ہوجاۓ گا ۔
اس لیے کہ حکمرانی کے بغیر،تمام عوام کےکام نہیں آسکتےہیں حکمرانی کے بغیر نفاذِ عدل بھی نہیں ہوسکتا ہےجب کہ اللہ نے ایمان والوں کوجابجاعدل کا حکم دیاہے، انصاف کے تقاضوں کوپورا کرنے کو کہا ہے، اللہ کا حکم ہے”اعدلوا ھواقرب للتقوٰی “کہ انصاف کرو یہ تقویٰ کے بہت قریب ہے ظاہر سی بات ہے ایمان والوں کو تقوے کا حکم ہے، اہلِ تقوی کوہی اللہ کی معیت حاصل ہوتی ہے ،اگر ایمان والے خود حکمران نہیں ہوں گے تو ظالموں کی ماتحتی میں ہوں گے ان کے ظلم کی پسِ پردہ حمایت کررہے ہوں گے پھرایسی صورت میں تقوٰی پرقاٸم نہیں رہ سکتے ہوں گے، لہذا معلوم ہوا کہ تقویٰ اور خوفِ خدا اس روۓ زمین پررہنے والےلوگوں میں باقی رہے اس کے لیے ایمان والے، عادل حکمرانوں ،کی روۓ زمین پرحکومت ضروری ہے اللہ کا ارشاد ہے ”الذین ان مکنّاھم فی الارضِ اقامواالصلوٰة وآتَووا الزکوٰة وامروا بالمعروفِ ونھواعن المنکر وللٰہ عاقبةالامور“وہ جن کو ہم زمین پر اقتدار دیتے ہیں تو وہ نماز قاٸم کرتے ہیں اور زکاة ادا کرتے ہیں اور نیکی کا حکم کرتے ہیں اور بدی سے روکتے ہیں اور اللہ ہی کےلیے بہترین انجام ہے ۔
مسلمانوں کے عدل وانصاف کی تاریخ بہت روشن ہے لوگ مسلمان حکمرانوں اور سلاطین کے عدل وانصاف کے سبب انہیں بہت عزت واحترام کی نظرسے دیکھتے تھے اور ان کی اطاعت وفرماں برداری میں ہی اپنی عافیت سمجھتے تھے آج بھی اگر امت مسلمہ کے افراد سچے اورحقیقی اسلام کے ساتھ جوعدل وانصاف پرمبنی ہے حکمرانی کےلیے آگے آٸیں تو دنیاآج بھی ان کی منتظر ہے ان کےلیے چشم براہ ہے۔
افسوس آج ہندوستان (بھارت) کا مسلمان احساسِ کہتری کا شکار ہوتا جارہا ہے ، یاس وقنوطیت کی چادرسے باہر آنا نہیں چاہتا ہے جب کہ ناامیدی ہمارے عقیدے کےخلاف ہے ہمیں حصولِ اقتدار وحکومت کی کوشش اور جدوجہد کرنے کا حکم ہے ۔
ہندوستان میں بہت سی سیاسی پارٹیاں ہیں لیکن اکثرکاحال یہ ہے کہ ان میں سے جب کوٸی برسرِ اقتدار ہوتی ہےتوکہیں نہ کہیں عدل کے تقاضوں کو پورا کرنےسے دانستہ طور پرگریز کرتی ہیں جس کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ ان کی باگ وڈور جن کے ہاتھوں میں ہوتی ہے وہ عدل کی اہمیت سے بالکل ناواقف ہوتے ہیں اس لیےوہ جانب داری کے جرم میں مبتلاہوجاتی ہے اور ملک کےبہت سے طبقات کوبہت سے امور میں محروم رکھتی ہے، ایسی پارٹیوں کے جو نماٸندے ایم پی ،ایم ایل اے بنتے ہیں وہ ہمیشہ پارٹی کےسرکردہ اور ذمہ دار لوگوں کوخوش کرنے میں ہی لگے رہتے ہیں اور حق جانتے ہوۓ بھی اس خوف سے کہ پارٹی انہیں باہرکا راستہ نہ دکھا دے، حق بات کہنے سے گریز کرتے ہیں یا ایسے موقعوں پر جہاں حق بولنے کی ضرورت ہوتی ہے یا کسی قانون کے پاس کرنے میں ووٹنگ کی ضرورت ہوتی ہے تو (اِس کے باوجود کہ کوٸی غیرمناسب قانون پاس کیاجارہا ہوتا ہے )اس کے حق میں ووٹ کرتے ہیں یا پھر پارٹی کے ذمہ داروں کےاشارے پراس پارلیمنٹ ،راجیہ سبھا یا اسمبلی سے غیرحاضرہوجاتے ہیں ایسی بہت واقعات ہیں جو گزشتہ چندسالوں کے درمیان پیش آۓ اچھے بھلے بولنے والےممبران کی زبانیں گنگ ہوگٸیں ۔
اس لیے نیک اور بےخوف لوگ جو انصاف کونافذ کرنا چاہتے ہیں اپنی قیادت کے ساتھ آگے بڑھیں گے تو ان شآ ٕ اللہ اس ملک میں امن وامان بھی قاٸم ہوگا اورملک کے تمام باشندوں کے ساتھ عدل ومساوات بھی ہوگا۔
محترم جناب ڈاکٹرمحمدایوب صاحب اور عالی جناب مولاناراشدعمیرمدنی غازیپوری صاحب کےسیاسی افکار اور سرگرمیاں ان کی جدوجہد قابلِ ستاٸش اور قابلِ قدر ہیں جنہوں نے بھارتی نوجوانوں اور سنجیدہ طبقات اور عوام الناس میں سیاسی بےداری پیداکی ہے بطورِ خاص علما ٕ کو سیاسی مہمیزلگاٸی اللہ ان دونوں بزرگوں کی عمردراز کرے اور پیس پارٹی کو روزافزوں ترقی دے اور ان کی حمایت کرنے والوں کا بھی اللہ حامی وناصرہو۔آمین