ازقلم(مولانا) عبدالحفیظ اسلامی
سینئر کالم نگار و آزاد صحافی، حیدرآباد
(نام) : اس سورۃ کی آیت ۸ (وَاَوْحٰی رَبُّکَ اِلَی النَّحْلِ)میں النحل کا لفظ استعمال ہوا ہے اس لئے اس سورۃ کا نام بھی النحل رکھا گیا ہے۔ اس کی آیات کی تعداد ۱۲۸ ، کلمات کی تعداد ۲۸۴۰ اور حروف کی تعداد ۷۷۰۰ ہے۔ یہ بھی ان سورتوں میں شامل جو حضور سرور عالم ا کی مکی زندگی کے آخری دور میں نازل ہوئیں۔ (حوالہ ضیاء القرآن)
متعدد اندرونی شہادتوں سے اس کے زمانہ نزول پر روشنی پڑتی ہے۔ مثلاً آیت ۴۱ کے فقرے ’’وَالَّذِیْنَ ہَاجَرُوْا فِی اﷲِ مِن بَعْدِ مَاظَلَمُوْا‘‘ سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت ہجرت حبشہ واقع ہوچکی تھی۔
آیت ۱۰۶ میں مَنْ کَفَرَ بِاﷲِ مِنْ بَعْدِ اِیْمَانِہٖ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت ظلم و ستم پوری شدت کے ساتھ ہورہا تھا اور یہ سوال پیدا ہوگیا تھا کہ اگر کوئی شخص ناقابل برداشت اذیت سے مجبور ہوکر کلمہ کفر کہہ بیٹھے تو اس کا کیا حکم ہے۔
آیات ۱۱۲ تا ۱۱۴ وَضَرَب اﷲُ مَثَـلًا قَرْیَۃً … اِنْ کُنْتُمْ اِیَّاہُ تَعْبُدُوْنَ کا صاف اشارہ اس طرف ہے کہ نبی ا کی بعثت کے بعد مکہ میں جو زبردست قحط رونما ہوا تھا وہ اس سورے کے نزول کے وقت ختم ہوچکا تھا۔
اس سورۃ میں آیت ۱۱۵ ،ایسی ہے جس کا حوالہ سورۃ انعام آیت ۱۱۹ میں دیا گیا ہے اور دوسری آیت نمبر ۱۱۸ ایسی ہے جس میں سورۃ الانعام کی آیت ۱۶۴ کا حوالہ دیا گیا ہے۔ یہ بات کی دلیل ہے کہ ان دونوں سورتوں کا نزول قریب العہد ہے۔ ان شہادتوں سے پتہ چلتا ہے کہ اس سورۃ کا نزول بھی مکہ کا آخری دور ہی ہے۔ اور اسی کی تائید سورے کے عام انداز بیان سے بھی ہوتی ہے۔ (اس کا موضوع اور مرکزی مضمون یہ ہے کہ) شرک کا ابطال ، توحید کا اثبات ، دعوت پیغمبر کو نہ ماننے کے بُرے نتائج پر تنبیہ و فہمائش ، اور حق کی مخالفت و مزاحمت پر زجر و توبیخ ۔ سورے کا آغاز بغیر کسی تمہید کے ایک سخت تنبیہی جملے سے ہوتا ہے۔ کفار مکہ بار بار کہتے تھے کہ…
’’جب ہم تمہیں جھٹلا چکے ہیں اور کھلم کھلا تمہاری مخالفت کررہے ہیں تو آخر عذاب آ کیوں نہیں جاتا جس کی تم ہمیں دھمکیاں دیتے ہو‘‘۔
اس بات کو وہ بالکل تکیہ کلام کی طرح اسلئے دہراتے تھے کہ ان کے نزدیک یہ حضرت محمد ا کے پیغمبر نہ ہونے کا سب سے زیادہ صریح ثبوت تھا۔ اس پر فرمایا کہ بیوقوفو ! خدا کا عذاب تو تمہارے سر پر تُلا کھڑا ہے ، اب اس کے ٹوٹ پڑنے کیلئے جلدی نہ مچاؤ بلکہ جو ذرا سی مہلت باقی ہے اس سے فائدہ اُٹھاکر بات سمجھنے کی کوشش کرو۔ اس کے بعد فوراً ہی تفہیم تقریر شروع ہوجاتی ہے اور حسب ذیل مضامین بار بار یکے بعد دیگرے سامنے آنے شروع ہوتے ہیں۔
(۱) دل لگتے دلائل اور آفاق و انفس کے آثار کھلی کھلی شہادتوں سے سمجھایا جاتا ہے کہ شرک باطل ہے اور توحید ہی حق ہے۔
(۲) منکرین کے اعتراضات ، شکوک ، حجتوں اور حیلوں کا ایک ایک کرکے جواب دیا جاتاہے۔
(۳) باطل پر اصرار اور حق کے مقابلہ میں استکبار کے بُرے نتائج سے ڈرایا جاتا ہے۔
(۴) ان اخلاقی اور عملی تغیرات کو مجمل مگر دل نشین انداز سے بیان کیا جاتا ہے جو حضرت محمد ا کا لایا ہوا دین انسانی زندگی میں لانا چاہتا ہے اور اس سلسلہ میں مشرکین کو بتایا جاتا ہے کہ خدا کو رب ماننا ، جس کا انھیں دعویٰ تھا ، محض خالی خولی مان لینا ہی نہیں ہے بلکہ اپنے کچھ تقاضے بھی رکھتا ہے جو عقائد یا اخلاق اور عملی زندگی میں نمودار ہونے چاہئیں۔
(۵) نبی کریم ا اور آپ ا کے ساتھیوں کی ڈھارس بندھائی جاتی ہے اور ساتھ ساتھ یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ کفار کی مزاحمتوں اور جفا کاریوں کے مقابلہ میں انکا رویہ کیا ہونا چاہئے۔ (حوالہ تفہیم القرآن)
حضرت پیر کرم شاہ ازہری نے بھی اس سورۃ کے تعارف میں بہت خوب لکھا ہے کعبہ جسے خداوند وحدہ لاشریک کی عبادت کیلئے تعمیر کیا گیا تھا وہاں اب ۳۶۰ بتوں کی پوجا بڑی دھوم دھام سے ہورہی ہے۔ نسل ابراہیم باقی ہے لیکن دین ابراہیم کا نام و نشان تک نہیں رہا۔ ڈھائی تین ہزار سال کے بعد اللہ تعالیٰ کے محبوب بندہ و رسول برحق محمد مصطفی ا تشریف لاتے ہیں اور فاران کی چوٹی پر کھڑے ہوکر اعلان فرماتے ہیں …
’’قُوْلُوْا لَا اِلٰـہَ اِلَّا اﷲ تُفْلِحُوْا‘‘ اے لوگو ! لا الہ الا اللہ کہو نجات پا جاؤ گے۔
مکہ کے خاموش ماحول میں ایک ہنگامہ برپا ہوجاتا ہے۔ توحید کا نعرہ بلند ہونے پر اہل مکہ کا ردعمل حیرت ، نفرت اور عداوت کے مرحلوں کو طے کرتا ہوا اب سنگدلانہ تشدد کی شکل اختیار کرتا ہے۔ وہ اپنے آبائی عقائد ، نظریات اور رسوم کے تحفظ میں ہی اپنی بقاء کا راز مضمر سمجھتے ہیں۔ انھیں یہ اندیشہ ہے کہ اگر ان عقائد و نظریات پر کوئی آنچ آئی ، تو ان کا وجود تک مٹ جائے گا اور اپنا وجود کسے عزیز نہیں۔ اس لئے وہ ہر قیمت پراپنے فرسودہ نظام حیات کو بچانا چاہتے ہیں۔ لیکن اسلام کی سادگی ، سچائی اور معنویت کے سامنے ان کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہورہی ہے۔ دلائل کے میدان میں ان کے قدم اکھڑ چکے ہیں۔ انھیں اپنی فصاحت اور بلاغت پر بڑا ناز تھا لیکن قرآن کے حسین بیان اور دل موہ لینے والے اسلوب نے انھیں مبہوت اور ششدر کردیا ہے۔ ان کے لرزہ خیز مظالم کے سامنے اہل ایمان کی ثابت قدمی اور استقامت نے ان کی شمشیر ستم کو کند کردیا ہے۔ ان کیلئے سب سے زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ ان کی فہم و دانش کی قوتیں خود ان کے خلاف علم بغاوت بلند کرنے کی تیاری کررہی ہیں۔ اس قلبی اور ذہنی کشمکش نے ان کو کھوکھلا کردیا ہے لیکن حق قبول کرنے کیلئے وہ کسی قیمت پر آمادہ نہیں۔ اُنھوں نے اپنی آنکھوں پر تعصب کی پٹی خوب کس کر باندھ لی ہے۔ طعن و تشنیع ، تمسخر و استہزا ، بہتان تراشی اور نا
معقول اعتراضات کے تیروں کے سوا ان کے ترکش میں کچھ بھی نہیں رہا اور وہ انھیں بڑی مہارت سے استعمال کررہے ہیں۔ نبی مکرم ا مخلوق کی سچی خیر خواہی میں سرگرم عمل ہیں۔
مشرکین بہتان تراشی اعتراضات کا طوفان برپا کرکے فضاء کو تاریک کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کا حبیبؐ اُنھیں قرآن کریم کی شیریں اور نور صداقت سے درخشاں آیتیں پڑھ کر سناتا ہے ، وہ عداوت کا اظہار کرتے ہیں اور یہ محبت اور پیارکا دامن پھیلاتا ہے۔ وہ ناروا پھبتیاں کستے ہیں اور یہ اپنے دلنواز تبسم سے ان کو ٹال دیتا ہے۔ (حوالہ ضیاء القرآن)
علاوہ ازیں سورۃ کا اختتام ان الفاظ کے ساتھ ہوتا ہے کہ ’’وَالَّذِیْنَ ھُمْ مُحْسُِوْنَ‘‘ یعنی اہل ایمان کی تعاریف یوں کی گئی ہے کہ یہ احسان پر عمل کرتے ہیں مطلب یہ کہ ہمیشہ نیک رویہ پر قائم رہتے ہیں برائی کا بدلہ برائی سے نہیں دیتے۔