ازقلم: عبدالرافع ناندیڑ (ادارہ اشرف العلوم حیدرآباد)
تو گویا اللہ نے لوگوں کے لیے حق و باطل سے متعارف و متاثر ہونے کا ایک اور موقع فراہم کیا ہے۔
لاوڈسپیکر سے اذان کی آوازیں سب کے کانوں سے ٹکراتی تھیں، اب وہ محض ضد میں ۵ بار ہنومان چالیسا پڑھیں گے۔ خیر اول تو زیادہ دن تک وہ اوقات کی پابندی کر نہ سکیں گے، ثانیا خود ان کی اکثریت اس سے عاجز ہو گی، تیسرے یہ کہ لوگ خود ہی اذان کے رس گھولنے والے کلمات، اسکے معنوی جلال و جمال، سکون و سنجیدگی اور تاثیر و کشش کا موازنہ جب ہنومان چالیسا سے کریں گے تو انشاءاللہ حق ان کے سامنے روشن ہو گا، بس شرط یہ ہے کہ اذان دیتے وقت آواز کی کشش اور لہجے کی شیرینی ، وقار اور متانت کا پورا خیال رکھا جائے، مخلوط آبادی والی مسجدوں میں خاص طور پر ایسے لوگوں کو مؤذن رکھا جائے جن کی مسحور کن آواز جھومنے پر مجبور کر دے، موذنین کو یہ بھی تربیت دی جائے کہ صرف رسم اذان نہ پوری کیا کریں بلکہ روح بلالی کے ساتھ خدا کے بندوں کو خدا کی طرف بلانے کا تصور کیا کریں، اذان کے الفاظ کو کفرستان میں اعلان توحید، خدا کی عظمت و یکتائی اورکبریائی کے اعلان کے احساس کے ساتھ ادا کیا کریں، جب ایسا تصور ہو تو اذان کی تاثیر سے وجود لرز جاتا ہے، آنکھیں جلال توحید کے تصور سے جھک جاتی ہیں، بدن میں ایک عجیب جھرجھری ہوتی ہے، کیف و نشاط ایک عجب عالم ہوتا ہے ، یوں تو بہت سے غیر مسلم اذان کی عظمت کے سامنے سر جھکاتے اور خاموش ہوتے دیکھے جاتے ہیں، ہم اب بھی دیکھتے ہیں، جبکہ اذان ہوتی رہتی ہے اور خود مسلمانوں کی اکثریت پر کوئی فرق نہیں پڑتا، جبکہ ہونا یہ چاہیے کہ اذان کی آواز کان میں پڑتے ہی ایک طرف سارے وجود سے خدا کی جلالت و عظمت و کبریائی کے آگے جھک جانے کا اظہار ہونا چاہیے، انگ انگ سے روح کی سرشاری جھلکنی چاہیے، جب اذان کی آواز پر یہ فریفتگی اور اس سے پیدا ہونے والی چہرے کی چمک اور پیشانی پر ابھرنے والی سکون کی لکیریں آپ کے غیر مسلم پڑوسی دیکھیں گے تو وہ متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکیں گے، خلاصہ کلام یہ کہ اچھے تربیت یافتہ موذنین رکھے جائیں، اذان اسکی روح کے ساتھ کہی اور سنی جائے، ہم نے اپنے شہر سے متعلق خبر پڑھی کہ لوگ انتظامیہ سے ہنومان چالیسا کی اجازت مانگ رہے ہیں اور انتظامیہ اجازت دینے سے انکار کر رہی ہے، تو ہم نے عرض کیا کہ ہمیں بالکل خاموش رہنا ہے، فریق نہیں بننا ، انتظامیہ جانے اور جانیں وہ فسادی لوگ، ہمیں تو ساری توجہ اپنی اذان کو دعوت بنا دینے پر مرکوز کرنا ہے، یوں بھی اس مسئلہ پر ٹکراؤ اور کورٹ کچہری کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ ہنومان چالیسا کی اجازت نہ ملنے کے ساتھ لاؤڈ سپیکر پر اذان ممنوع قرار پائے گی، اور کیا پتہ کہ ایکسٹرا عقل والے جج یوں کہہ دیں کہ” قرآن میں اذان کا حکم نہیں ملتا، اور اذان کی مشروعیت کے پراسیس سے ہمیں نہیں لگتا کہ اذان بھی اسلام کی پریکٹس کا اسنشیل پارٹ ہے”، جب کوئی کسی مذہبی افیون کا نشہ شروع کر دے تو زبان سے ایسی ہی تشریحات سننے کو ملتی ہیں، مذہبی نشہ سب سے خطرناک ہوتا ہے، یہ نشہ ہو جائے تو سائنٹفک اپروچ اور قانون کی جگہ تعصب و تشدد اور آستھا کا چلن ہوتا ہے، آجکل بھارت کی عدالتوں میں بیٹھے منصف حکومتوں کی خوشنودی کے لیے مفت میں یہ نشہ کرتے ہیں، اس لیے ہوشیار رہیں اور کوئی بھی قدم اٹھائیں تو پورے ہوش و حواس میں اٹھائیں اور جذبات کو ہمہ وقت عقل کا پابند رکھیں۔