غزوہ بدر ، حق و باطل کی تاریخ کا پہلا فیصلہ کن معرکہ

تحریر: محمدطارق نعمان گڑنگی

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مکہ سے مدینہ ہجرت کے دوسرے سال سترہ رمضان المبارک کو غزوہ بدر کا واقعہ پیش آیا۔ بدر ایک بستی کا نام ہے جو مدینہ منورہ سے قریبا 120 کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ یہ بستی بدر بن حارث سے منسوب ہے جس نے یہاں کنواں کھودا تھا یا بدر بن مخلد بن نصر بن کنانہ سے منسوب و مشہور ہے جس نے اِس جگہ پڑائو کیا تھا۔ بعض کہتے ہیں وہاں ایک بوڑھا شخص مدتوں سے رہتا تھا جس کا نام بدر تھا اِس بنا پر اِس بستی کو اِسی کے نام سے منسوب کر دیا گیا۔
غزوہ بدر اسلام کی تاریخ کا پہلا فیصلہ کن معرکہ ہے۔ قریش کا ایک قافلہ جومکے سے شام کی طرف جاتے ہوئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی گرفت سے بچ نکلا تھا، یہی قافلہ جب مکہ واپس آنے لگا تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت طلحہ بن عبیداللہ اور سعید بن زید رضی اللہ عنہماکو اس کا پتہ لگانے کے لیے روانہ فرمایا۔ یہ دونوںحضرات مقام حورا تک جا پہنچے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قافلے کی اطلاع دی۔ قریش کے اس قافلے میں بہت زیادہ سازو سامان تھا۔ ایک ہزار اونٹ تھے، جن پر کم از کم پچاس ہزار دینار تھے لیکن اس کی حفاظت کے لیے صرف چالیس افراد تھے۔ یہ اہلِ مدینہ کے لیے ایک بہترین موقع تھا کہ مالِ غنیمت حاصل کر لیا جائے۔ چنانچہ صحابہ کرام کو نکلنے کا حکم دیا گیا لیکن کسی پہ پابندی عائد نہیں کی گئی، کیونکہ بہت بڑی جنگ کا ارادہ نہ تھا۔
مسلمانوں کی تعداد 313 تھی جن میں ستتر (77) مہاجرین تھے اور دو سو چھتیس (236) انصار تھے۔ اِن تین سو تیرہ (313) میں سے آٹھ صحابہ کرام وہ تھے جو کسی عذر کی بنا پر میدانِ بدر میں حاضر نہ ہوسکے مگر اموالِ غنیمت میں ان کو حصہ عطا فرمایا گیا۔ ان میں سے تین مہاجرین تھے ایک امیر المومنین حضرت سیدنا عثمان بن عفان تھے جو حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے اپنی زوجہمحترمہ حضرت سیدہ بی بی رقیہؓ کی علالت کی وجہ سے تیمار داری میں رکے تھے۔ دوسرے حضرت سیدنا طلحہؓ اور حضرت سیدنا سعید بن زید ؓتھے جو مشرکین مکہ کے قافلے کی جستجو میں گئے تھے ۔اِن کے علاوہ پانچ انصار تھے۔ اِس غزوہ میں مسلمانوں کے پاس صرف 2 گھوڑے ، 70 اونٹ 6 زرہیں اور 8 شمشیریں تھیں ۔گھوڑے حضرت زبیرؓ بن عوام اور حضرت اسود کندی ؓ کے پاس موجود تھے۔ ایک ایک اونٹ پر تین تین افراد کو سوار کیا گیا جو باری باری بیٹھتے تھے۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت سیدنا علیؓ اورحضرت مرثد غنوی ایک اونٹ پر اور حضرت سیدنا ابو بکرصدیق حضرت عمرو اور حضرت عبدالرحمان بن عوف دوسرے پر باری باری سوار ہوتے تھے۔

تھے ان کے پاس دو گھوڑے چھ زرہیں آٹھ شمشیریں
پلٹنے آئے تھے یہ لوگ دنیا بھر کی تقدیریں
نہ تیغ و تیر پہ تکیہ، نہ خنجر پر نہ بھالے پر
بھروسہ تھا تو اِک سادی سی کالی کملی والے پر(حفیظ جالندھری)

قافلہ کفارکی صورتِ حال یہ تھی کہ ابو سفیان جو کہ حد درجہ محتاط تھا۔ قدم قدم پہ وہ خبریں وصول کرتا اور پیش قدمی کرتا رہا۔ ابو سفیان نے ایک قاصد مکے کی جانب بھیجا، جس نے مکے والوں کو مدد کے لیے پکارا۔ چوں کہ قافلے میں سب کا کچھ نہ کچھ سامان موجود تھا تو اس لیے مدد کے لیے ہر گھر سے کوئی نہ کوئی نکلا۔ سوائے ابو لہب کے جس نے اپنے مقروض کو جنگ میں بھیجا، تقریبا سبھی بڑے بڑے سردار اس میں شامل تھے۔ ابو سفیان نے بعد میں یہ خبر بھیجی کے قافلہ بچ نکلا ہے اور مدد کے لیے نہ آئیں۔ لیکن ابوجہل ایک متکبر شخص تھا، اس نے کہا آج ہم مسلمانوں کو سبق سکھا دیں گے۔ قریش مکمل تیاری کے ساتھ نکلے تھے۔ ابتدا میں تعداد تیرہ سو تھی۔ ایک ہزار گھوڑے تھے اور اونٹ کثیر تعداد میں موجود تھے، اس لیے ان کی تعداد معلوم نہ ہوسکی۔ قریش کی بنو بکر سے دشمنی چل رہی تھی۔ انھیں مکے پہ حملے کا خدشہ محسوس ہوا۔ لیکن شیطان مردود، سردارِ کنانہ سراقہ بن مالک کی شکل میں آیا اور کہا: میں بھی تمہارا رفیق کار ہوں، اور اس بات کی ضمانت دیتا ہوں کہ بنو کنانہ تمہارے خلاف کوئی بھی ناگوار کام نہ کریں گے۔ یہ سن کے مکہ والوں کے حوصلے بلند ہوئے اور وہ ابو جہل کی قیادت میں جنگ کے لیے روانہ ہوئے۔

ادھر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حالات کا بغور مشاہدہ کیا تو یہ محسوس کیا کہ اب ایک عظیم الشان ٹکر ہونے والی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجلس شوری بلائی اور عام آدمیوں اور کمانڈروں کے ساتھ اظہارِ خیال کیا۔ حضرت ابوبکر صدیق اورحضرت عمررضی اللہ عنھما نے نہایت اچھی بات کہی۔ حضرت مقداد بن عمرو ؓکچھ اس طرح گویا ہوئے: "خدا کی قسم !ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے وہ بات نہیں کہیں گے جو بنی اسرائیل نے حضرت موسی علیہ السلام سے کہی تھی کہ تم اور تمہارا رب جا کرلڑو، ہم یہیں بیٹھے ہیں ۔” کیونکہ یہ سب مہاجر تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چاہتے تھے کہ انصار بھی کچھ کہیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ ارشاد فرمایا کہ مجھے مشورہ دو۔ حضرت سعد بن معاذؓ نے یہ بات بھانپ لی۔ انھوں نے کہا: "ہم نے تو اس بات کی تصدیق کی ہے کہ آپ جو کچھ لائے ہیں سچ ہے اور ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلمکو سمع و اطاعت کا عہد و میثاق دیا ہے، لہذا یا رسول اللہ ! آپ کا جو ارادہ ہے اس کی طرف پیش قدمی جاری رکھیے۔ اس ذات کی قسم جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سمندر میں بھی کود جانا پڑا تو کود جائیں گے۔ ہمارا ایک آدمی بھی پیچھے نہ رہے گا۔ ” حضرت سعد کی یہ بات سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ آپ پر نشاط طاری ہوگئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: چلو اور خوشی خوشی چلو۔
لشکرِ اسلام نے بدر کے نزدیک ایک چشمے پر پڑائو ڈالا۔ رات کو اللہ تعالی نے بارانِ رحمت کا نزول فرمایا۔ جو کافروں پر موسلا دھار برسی لیکن مسلمانوں پر پھوار بن کر برسی اور انہیں پاک کر دیا۔
ریت پر قدم جمنے کے قابل ہوگئے۔ لشکر اسلام نے بدر کے قریب ترین چشمے پر قدم جما لیے اور باقی سارے چشمے بند کر دیے۔ اس کے بعد حضرت سعد ؓکے مشورے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک چھپر تعمیر کیا گیا۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دعا دی۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے لشکر کی ترتیب فرمائی اور میدان جنگ میں تشریف لے گئے اور فرماتے رہے کہ یہ جگہ فلاں کی قتل گاہ ہے اور یہ فلاں کی۔
17رمضان المبارک 2ہجری کا دن تھا لشکر اسلام اور لشکر کفار آمنے سامنیہوئے ۔ ایک طرف ایک ہزار کا لشکر اور سازو سامان سے بھر پور اور دوسری طرف 313اور صرف دو گھوڑے اور ستر اونٹ۔
صحابہ کرام کا ایمانی جذبہ تھا کہ تعداد میں کمی کو نہیں دیکھا بلکہ اپنے ایمان کی حرارت کو دیکھا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میدانِ جنگ میں صفیں درست فرمائیں۔ پھر جب صفیں درست ہو چکیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جنگ تب تک شروع نہ کرنا جب تک آخری ااحکام موصول نہ ہوجائیں۔
اس معرکے کا پہلا شکار اسودبن عبد الاسد مخزومی تھا۔ یہ بڑا اڑیل اور طاقت ور تھا، یہ کہتا ہوا نکلا کہ اللہ کی قسم! میں ان کے حوض کا پانی پی کر رہوں گا، یا اسے ڈھا دوں گا یا اس کے لیے جان دے دوں گا۔
سید الشہداء حضرت حمزہ ؓنے اسے کیفر کردار تک پہنچا دیا۔ اس سے جنگ بھڑک اٹھی۔ اس کے بعد قریش کے تین بڑے سردار عتبہ، شیبہ اور ولید نکلے۔ انہوں نے مسلمانوں کو للکارا تو مقابلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبیدہ بن حارثؓ ، حضرت حمزہؓ اور حضرت علی ؓ کو بھیجا۔ حضرت حمزہ ؓاور حضرت علی ؓ نے فورا اپنے شکار کو ختم کر دیا لیکن حضرت عبیدہؓ کے ساتھ بھر پور مقابلہ ہوا۔ دونوں اپنے شکار سے فارغ ہو کر حضرت عبیدہ ؓکے شکار کی جانب لپکے اور اسے بھی قتل کر دیا۔ حضرت عبیدہ ؓکو زخم آئے اور آواز بند ہو گئی، بعد میں اسی زخم سے واپسی پر آپ کی شہادت ہوئی۔

فضائے بدر کو اک آپ بیتی یادہے اب تک
یہ وادی نعرہ توحید سے آباد ہے اب تک

اس کے بعد کفار نے یکبارگی سے حملہ کر دیا ان کے حواس کھو چکے تھے کیونکہ ان کے تین بڑے سردار مارے جا چکے تھے۔ دوسری طرف مسلمان اللہ تعالی کی مدد و نصرت سے پر سکون تھے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی: یا اللہ ! تو نے جو مجھ سے وعدہ کیا ہے اسے پورا فرما دے۔ یا اللہ ! میں تجھ سے تیرے وعدے کا سوال کرتا ہوں۔
اللہ تعالی نے ایک ہزار فرشتے مدد کے لیے نازل فرمائے۔ صحابہ کرام ؓفرماتے ہیںکہ ہماری تلوار پہنچنے سے پہلے ہی کفار کی گردن کٹ چکی ہوتی تھی اور یہ معلوم ہوتا تھا کہ یہ قتل کسی اور نے کیا ہے۔ جنگ میں کفار کا لشکر تتر بتر ہو گیا۔ حضرت عبد الرحمن بن عوفؓ روایت کرتے ہیں کہ میرے اردگرد دو نو عمر سپاہی تھے۔ ایک کا نام معاذ اور دوسرے کا معوذ تھا، انہوں نے مجھ سے ایک دوسرے کو چھپاتے ہوئے ایک ہی بات پوچھی کہ چچا ابو جہل کدھر ہے؟ میں نے ابو جہل کی طرف اشارہ کر دیا۔ دونوں اس کی طرف لپکے اور ابو جہل کو قتل کر دیا۔ حضرت معوذ اسی معرکے میں شہید ہوئے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمنے جنگ کہ اختتام پر فرمایا کہ ابو جہل کا کیا بنا؟ صحابہ ابو جہل کو ڈھونڈنے نکلے۔ حضرت عبد اللہ ابن مسعود ؓنے دیکھا کہ ابو جہل کی سانسیں ابھی چل رہی ہیں۔ آپ نے ابو جہل کا سر کاٹا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں پیش کر دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے نعش دکھائو، نعش دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "یہ میری امت کا فرعون ہے۔ "
جنگ اپنے اختتام کو پہنچی۔ مسلمانوں کو فتح حاصل ہوئی۔ کفار کے ستر افراد قتل اور ستر قید ہوئے۔ 14صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے جامِ شہادت نوش کیا اور ہمیشہ کے لیے زندہ و جاوید ہو گئے۔
ہمیں اس معرکہ سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا ہے آج ہمارے پاس سب کچھ ہے جدید ٹیکنالوجی موجود ہے لیکن اگر نہیں ہے تو بس وہ 313جیسا لشکر و ایمان نہیں ہے ؎

ہتھیار ہیں اوزار ہیں افواج ہیں لیکن
وہ تین سو تیرہ کا لشکر نہیں ملتا

قارئین کرام! اگر ایمان بدر والوں جیسا ہوتو فرشتے اب بھی مدد ونصرت کو آسکتے ہیں ؎

فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو
اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی