صدقۃ الفطر؛ فضائل و مسائل

از: محمد ندیم الدین قاسمی، ادارہ اشرف العلوم حیدرآباد

اسلام کا یہ وصفِ امتیاز ہے  کہ اس نے اپنے متبعین کو مواسات و مواخات کا بہترین درس دیا ؛ عید ہو یا خوشی کا کوئی اور موقع، اس نے صرف امیروں کے دولت کدہ ہی میں خوشی کے چراغ جلنے نہیں دئے؛ بلکہ اس موقع پر امیروں کو  سماج کے  غریب و نادار افراد کے درد وکسک ، دکھ وغم  کو  بانٹنے اور خوشی میں شریک کرنے کی تلقین بھی کی ؛چنانچہ بقرعید کے موقعہ پر قربانی میں ایک تہائی غریبوں کا حق قرار دیا گیا ، ولیمہ کے بارے میں آپﷺ نے فرمایا کہ بدترین ولیمہ وہ ہے ، جس میں سماج کے امیر لوگوں کو بلایا جائے اور غریبوں کو نظر انداز کردیا جائے ، اسی طرح عید الفطر کی خوشی میں بھی غرباء کو شریک کرنے کے لئے "صدقۃ الفطر” کا ایک بہترین نظام مقرر کیا گیا۔

صدقۃ الفطر کی اہمیت وفضیلت
حضرت جریرؓ سے روایت ہے کہ الله کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:
”صومُ شهرِ رمضانَ معلَّقٌ بين السَّماءِ والأرضِ ولا يُرفعُ إلَّا بزكاةِ الفطرِ“
ترجمہ: رمضان کے روزے آسمان اور زمین کے درمیان معلق (لٹکے) رہتے ہیں، جنہیں (الله کی طرف) صدقۃ الفطر کے بغیر نہیں اٹھایا جاتا۔(الترغيب والترهيب: 2/157)
صدقۂ فطر کی شرعی حیثیت
مالکیہ کے یہاں صدقۃ الفطر سنت ہے، ان کے علاوہ باقی ائمۂ کرام کے یہاں صدقۃ الفطر واجب ہے، مسلم شریف کی ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :  ہر آزاد،
غلام،مسلمان مرد، و عورت  پر صدقۃ الفطر واجب ہے۔(صحيح مسلم، عن عبد الله بن عمر: 984)
حکمت
صدقۃ الفطر کی ادائیگی صرف حکمِ شرع ہی نہیں ؛ بلکہ اس کے جلو میں بے شمار دنیوی واخروی فوائد مضمر ہیں ؛چنانچہ حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں:
فَرَضَ رَسُولُ اللَّہ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَكَاةَ الْفِطْرِ طُهْراً لِلصَّيَامِ مِنَ اللَّغْوِ وَالرَّفَثِ ، وَطُعْمَةً لِلْمَسَاكِينِ”. ( رواه ابوداؤد ) 
 اس حدیث میں صدقۃ الفطر کی دو حکمتیں بیان کی گئی ہیں:
۱۔  مسلمانوں کے جشن و مسرت کے اس موقعہ  پر صدقۃ الفطر کے ذریعہ محتاجوں  اور مسکینوں کی بھی شکم سیری اور آسودگی کا انتظام ہو جائے ۔
۲۔ زبان کی بے احتیاطیوں اور بے باکیوں سے روزے پر جو برے اثرات مرتب ہوں گے ، یہ صدقۃ الفطر ان کا بھی کفارہ اور فدیہ ہو جائےگا۔
نیز علماء کرام فرماتے ہیں: وفی إخراجھا قبول الصوم، والنجاح، والفلاح، والنجاة من سکرات الموت، وعذاب القبر“․ (طحطاوی علی مراقی الفلاح)
ترجمہ : صدقۃ الفطر کی ادائیگی سے روزے قبول ہوتے ہیں اور مشکلیں آسان ہوتی ہیں اور کامیابی ملتی ہے اور موت کی سختی اور قبر کے عذاب سے نجات حاصل ہوتی ہے)

صدقۃ الفطر کس پر واجب ہے؟

جس پر زکوۃ واجب  ہے اس پر صدقۃ الفطر بھی واجب ہے،(  جس کے پاس ساڑھے سات تولے سونا یا ساڑھے 52 تولے چاندی یا اس کی موجودہ قیمت کے برابر رقم موجود ہو) البتہ دو معمولی فرق ہیں ،زکاۃ کے نصاب میں مال نامی   اور سال گزرنا ضروری ہے؛ جب کہ صدقۃ الفطر میں مال نامی اور سال گزرنا  ضروری نہیں،عید کی صبح تک اتنی مالیت کا مالک ہوگیا تو صدقۃ الفطر ادا کرنا واجب ہے.( فتاوی دار العلوم : ۶/۲۰۴)
ادائیگی کا وقت
بہتر یہ ہے عیدالفطر کے دن نمازِ عید کے لئے جانے سے پہلے پہلے صدقۃ الفطر ادا کردیا جائے، یہ افضل وقت ہے، حدیث میں ہے :
أنَّ رسولَ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ كانَ يأمرُ بإخراجِ الزَّكاةِ قبلَ الغدوِّ للصَّلاةِ يومَ الفطرِ۔(عن عبد اللہ عمر، صحيح الترمذي: 677) 
اگر کوئی ادا نہ کرسکے تو بعد میں ادا کرے ؛ لیکن اس وقت اتنا ثواب نہیں ملے گا۔
صدقۃ  الفطر کا مصرف
جن لوگوں کو زکات دینا جائز ہے ان کو صدقۃ الفطر بھی دینا جائز ہے۔الفتاوى الهندية – (5 / 181)
صدقۃ الفطر کی مقدار
فقہاء حنفیہ کے نزدیک گیہوں یا اس کے آٹا سے نکالنا ہو تو نصف صاع اور کھجور،کشمش  اور جو سے نکالنا ہو تو ایک صاع دینا چاہیے.واضح رہے کہ گندم کے اعتبار سے صدقۃ  الفطر کی مقدار پونے دو کلو گندم ہے، جب کہ کھجور، جو اور کشمش کے اعتبار سے ان اشیاء کی مقدار ساڑھے تین کلو مقدار ہے۔(البحرالرائق :۶/۹۸) صاحبِ حیثیت اور مالداروں کے لئے بہتر یہ ہے کہ نصف صاع پہ تکیہ نہ کریں! آگے بڑھ کے ہر صنف میں سے ایک صاع یا اس کی قیمت صدقۃ الفطر میں ادا کریں ؛ تاکہ غریبوں کا بھلا ہوسکے۔ بذل المجہود میں ہے: قوله صاعًا من كل شيئ أي من الحنطة وغيرها لكان أحسن۔ (454/6. ط بيروت)

متفرق مسائل

۱۔اگر عورت صاحبِ نصاب ہو اس پر بھی صدقۃ الفطر واجب ہے ؛مگر عورت پر کسی اور کی طرف سے فطرہ نکالنا ضروری نہیں، نہ بچوں کی طرف سے ، نہ ماں باپ کی طرف سے، نہ شوہر کی طرف سے( رد المحتار : ۳؍۳۷۰)
۲۔جس نے کسی وجہ سے رمضان کے روزے نہیں رکھے اس پر بھی صدقۃ الفطر واجب ہے ، اور جس نے روزے رکھے اس پر بھی واجب ، دونوں میں کچھ فرق نہیں ( فتاوی رحیمیہ: ۵؍۱۷۲)
۳۔کفار کو زکٰوۃ، عُشر اور دوسرے صدقاتِ واجبہ (صدقۃ الفطر، نذر اور کفارہ)  دینا جائز نہیں ہے؛ البتہ نفلی صدقات ،کافرکو دینےکی گنجائش ہے؛ لیکن کسی مسلمان فقیر کودینا ہی زیادہ بہترہے۔(الدرالمختار 2 / 351)
۴۔آپ اگر دوسرے ملک مثلا امریکہ میں ہے اور اہلیہ ، بچے ہندوستان میں ہیں تو آپ پر امریکہ کے حساب سے اور اہلیہ بچوں پر ہندوستان کے حساب سے صدقۃ الفطر ادا کرنا پڑے گا۔ (رد المحتار2/ 355)
۵۔مردوں پر جس طرح اپنی طرف سے صدقۃ الفطر دینا ضروری ہے، اس طرح نابالغ اولاد کی طرف سے بھی صدقۃ الفطر ادا کرنا ضروری ہے۔والدین،  بالغ اولاد اور  بیوی کی طرف سے دینا واجب نہیں ہے، ہاں اگر ان کی طرف سے دیدے تو ادا ہوجائے گا۔ اگر یہ حضرات خود صاحب نصاب ہوں تو  صدقۃ الفطر انہی کے ذمہ واجب ہے. ( فتاوی عالمگیری)
۶۔ مرحومین کی طرف سے صدقۃ الفطر واجب نہیں ہے۔(کتاب المسائل، ۲/۲۸۲)