ذمہ داران مدارس کی خدمت میں

ازقلم: ڈاکٹر ابوالکلام قاسمی شمسی

ملک میں دو طرح کے مدارس چل رہے ہیں ، ایک مدارس ملحقہ اور دوسرے مدارس نظامیہ ، مدارس ملحقہ وہ مدارس ہیں جو کسی بورڈ سے ملحق ہیں ، ان میں حکومت سے منظور نصاب کے مطابق تعلیم دی جاتی ہے، حکومت کی جانب سے ان مدارس کو مالی امداد بھی فراہم کرائی جاتی ہے۔ مدارس نظامیہ وہ مدارس ہیں جو آزاد ہیں ، کسی بورڈ سے ملحق نہیں ہیں ، وہ اپنا مرتب کردہ نصاب چلاتے ہیں ، حکومت سے امداد بھی نہیں لیتے ہیں
ماضی میں مدارس ملحقہ کی روایت رہی کہ حکومت کی جانب سے اس میں مداخلت نہیں کی جاتی تھی ، اس کے نصاب تعلیم میں عصری مضامین شامل رہے، مگر اس میں اسلامی علوم و فنون کا غلبہ رہا ، مگر دھیرے دھیرے ان اداروں کو مجبوری میں ڈالا گیا ، اور پھر مدارس کے طلبہ اور ذمہ داران خود اپنے نصاب میں بہت سے مضامین شامل کرنے پر مجبور ھوئے ، اور یہ سلسلہ آگے کی طرف بڑھ رہا ھے ، یو پی کے مدارس کے سلسلہ میں خبر آئی ھے کہ 80 فیصد عصری مضامین شامل کئے جائیں ، غرض طرح طرح سے مدارس کو نشانہ بنایا جارہا ھے ، موجودہ وقت میں تو کچھ باقی بھی ھے ، مگر مستقبل تاریک نظر آرہا ھے ، بعض صوبہ میں تو ان کو اسکول میں تبدیل کردیا گیا ، بعض میں تیاری کی جارہی ھے، یہ مدارس کے لئے افسوسناک پہلو ھے ، جہانتک مدارس نظامیہ کی بات ہے تو اس کے نصاب تعلیم میں ابتدائی درجات میں کچھ عصری مضامین شامل ہیں ، لیکن ضرورت کے مطابق نہیں ہیں ، جبکہ موجودہ وقت میں اس کی ضرورت محسوس کی جارہی ھے
تعلیم کے سلسلہ میں مرکزی حکومت کی جانب سے دو تعلیمی پالیسیوں کو نافذ کیا گیا ، ایک لازمی تعلیمی پالیسی یعنی رائٹ ٹو ایجوکیشن اور دوسرا نئی تعلیمی پالیسی ، لازمی تعلیمی ایکٹ میں اسکول اور تعلیمی اداروں کے لئے جو شرائط ذکر کئے گئے تھے ، وہ نہایت ہی سخت تھے ، اس میں مدارس ،مکاتب ، گروکل اور پاٹھ شالے شامل نہیں ہو پارہے تھے ، اس لئے اس پر ہر سطح سے آواز اٹھی ، مدارس کے ذمہ داروں نے بھی اس پر کوشش کی ، تو بڑی مشکل سے مرکزی حکومت نے مدارس کو تعلیم کا ایک ادارہ تسلیم کیا اور ان کو تعلیم لازمی تعلیمی ایکٹ سے مستثنی قرار دیا ، یہ ایکٹ برقرار ھے ،اس لئے نئی تعلیمی پالیسی میں بھی مدارس کا ذکر نہیں ھے ، مگر دونوں قسم کے مدارس کے لئے خطرات منڈلا رہے ہیں ،اللہ تعالی حفاظت فرمائے
مذکورہ حقائق کی روشنی میں اس بات کی ضرورت ھے کہ کسی مداخلت سے پہلے ہم اپنے نظام تعلیم کو مضبوط کریں ، اس سلسلہ میں چند مشورے پیش ہیں
(1) مدارس ملحقہ میں تعلیم کے معیار کو بلند کریں ، اچھے اور قابل اساتذہ کی تقرری کی جائے ، معیاری تعلیم پر توجہ دی جائے ، ابھی سے کوشش کی جائے کہ لازمی تعلیمی ایکٹ میں جو شرائط مذکور ہیں ،دھیرے دھیرے مدارس کو بھی ان شرائط پر اتارنے کی کوشش کی جائے ،
(2) جہانتک مدارس نظامیہ کی بات ھے تو ان کے ذمہ داروں کو چاہئے کہ خراب وقت آنے سے پہلے ان کے نظام پر غور کریں , ان میں سے اکثر مدارس میں ابتدائی پانچ درجات کی تعلیم دی جاتی ھے ، اس کو بڑھا کر 8/ درجات کئے جائیں ، ابتدائی درجات کے نصاب میں عصری مضامین شامل کئے جائیں ، عربی درجات کے ابتدائی دو درجات میں بھی عصری مضامین کو شامل کر کے میٹرک تک کی تعلیم کا انتظام کیا جائے ، اور میٹرک کی سرٹیفیکٹ کے لئے اوپن اسکول سسٹم کو اختیار کیا جائے ، سہولت کے مطابق ابتدائی درجات سے پہلے 3/ سال مکتب کا انتظام کیا جائے ، جب بچے مکتب کی تعلیم حاصل کرلیں ،تب ان کا داخلہ درجہ اول میں لیاجائے ، طلبہ / طالبات جب تک نیچے کی تعلیم مکمل نہ کرلیں ، اس وقت تک آگے کے درجات میں داخلہ نہ لیں ، اس کے لئے ٹرانسفر سرٹیفیکیٹ لازم کیا جائے ، غرض جو کچھ بھی ضروری ہو اس کو دھیرے دھیرے پورا کیا جائے ، تاکہ آئندہ دشواریوں کا سامنا نہ کرنا پڑے ، اللہ تعالی سے دعاء ھے کہ اللہ تعالی فتنہ سے حفاظت فرمائے۔