دو نوجوان عالم دین اور مغربی یوپی کا ایک تعلیمی مشن

تحریر: نقی احمد ندوی

ہزاروں کیلومیٹر کا سفر ایک قدم سے ہی شروع ہوتا ہے اور پہلا قدم اٹھانا بڑا مشکل ہوتا ہے اور جس نے پہلا قدم اٹھا لیا وہ ایک نہ ایک دن منزل پر ضرور پہونچے گا۔ ویسے مجھے طلباء اور نوجوانوں سے ملاقات میں جو خوشی ملتی ہے وہ خوشی کسی پارٹی اور پروگرام میں نہیں ملا کرتی۔ آج دو نوجوان عالم دین ملنے آئے۔ مختصر سی ملاقات، ان کے تعلمی مشن کی تفصیلات، مستقبل کے ارادے اور مزید محنت وقربانی کے وعدے۔ تبدیلی کی آہٹ اور نوجوانوں کے حوصلے۔ خوشی ہوئی کہ ہمارے علماء کی سوچ میں تبدیلی آرہی ہے۔
یہ دونوں عالم دین مولانا ضیاء الرحمن ندوی اور مولانا محمد مفصل مرتضی ندوی پہلے کسی اور ذریعہ معا ش میں تھے، مگر انھوں نے تعلیمی میدان میں کچھ کرنے کا خواب دیکھا، چنانچہ انھوں نے مشورہ اور تفاہم کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ مدرسے تو بہت کھل چکے ہیں کیوں نہ اسکول کھولا جائے اور یوں بھی آج کل مسلم طلباء کو اسکولوں اور کالجز میں کافی تعصب کا سامنا کرنا پڑتا ہے لہذا اسکول کی تعلیم کا انتظام ہماری قوم کے لئے زیادہ مفید اور کارآمد ثابت ہوگا، اپنے اس خواب کو عملی جامہ پہنانے کے لئے انھوں نے اپنا پہلا قدم اٹھایا، دونوں اپنا اپنا معاش چھوڑ دلی سے مغربی یوپی کے اپنے علاقے کی طرف نکل پڑے اور2017 میں پہلا اسکول کھولا۔ اسکول کھولنے کے لئے کسی نے فنڈ نہیں دیا۔ کسی عرب ملک سے کوئی مالی امداد نہیں آئی اور نہ ہی کسی دلی کے سیٹھ نے جیب میں رقم ڈالی، بلکہ انھوں نے اپنی جمع پوجی لگائی، کافی پریشانیاں آئیں، طعنے سننے کو ملے۔ فیملی کا پریشر رہا کہ گھر کا خرچہ کیسے چلے گا۔ مگر جہاں عزم محکم ہو وہاں راستے خود بہ خود نکل آتے ہیں۔ ان دونوں نوجوانوں نے ہمت نہیں ہاری اور اپنے مشن میں جٹے رہے۔ اب پانچ سال کا عرصہ گذرچکا ہے اور انھوں نے مغربی یوپی کے علاقوں میں نو اسکول کھولنے میں کامیابی حاصل کرلی ہے، ان کے اسکولوں میں ایک سے آٹھ تک کی تعلیم ہوتی ہے اور ساتھ میں دینی تعلیم وتربیت بھی۔ انھوں نے بتایا کہ ڈیمانڈ بڑھتا گیا اور اسکول کی تعداد بڑھتی گئی۔ ظاہر ہے کہ اسکول کی فیس بھی ہے اور ساتھ ہی عملہ اور اسکول کے اخراجات بھی، یہ سارے اسکول کرائے کے مکانات میں ہیں مگر ہمت دیکھئے کہ ایک دو نہیں بلکہ نو نو اسکول چلارہے ہیں۔ ہم یہ مانتے ہیں کہ ان کا اسکول ڈی پی ایس کا مقابلہ نہیں کرسکتا، مگر جس دور افتادہ گاوں میں یا تو سرکاری اسکول ہیں یا دوسرے فرقوں کے اسکول ہیں، وہاں کے بچوں کے لئے کیا انکا یہ اسکول کسی ڈی پی ایس سے کم ہے۔ ہم یہ جانتے ہیں کہ اسکول کے لئے بڑی بڑی بلڈنگوں اور انفرااسٹرکچر کی ضرورت ہوتی ہے تو کیا یہ کم ہے کہ ان دونوجوانوں نے جو کچھ مہیا ہے اسی میں اسکول کھول ڈالے اور چلا رہے ہیں۔
ان کی صفا ایجوکیشن اکیڈمی گورمنٹ سے رجسٹرڈ ہے اور اس کے تحت سارے اسکولس چل رہے ہیں۔ ابھی ان کے سامنے ان اسکولوں کے تعلیمی معیار کو مزید بہتر بنانے اور کرایہ کے مکانات کے بجائے اسکولوں کی اپنی زمین اور بلڈنگیں بنانے کا منصوبہ ہے تاکہ مغربی یوپی کا یہ تعلیمی مشن اپنے اہداف کو حاصل کرسکے۔ قصبہ موانہ،میرٹھ، بھوپا مظفر نگر،پورقاضی مظفر نگر، تھانہ بھون اسی طرح لڑکیوں کے اسکولس ککرولی مظفر نگر،، موانہ میرٹھ وغیرہ میں واقع ہیں۔
وہ کہتے ہیں نا کہ جب آپ کسی چیز کو شدت سے چاہتے ہیں تو پوری کائنات آپ کی مدد کے لئے اتر آتی ہے، کیا دوسرے علاقوں میں متمول حضرات اور خاص طور پر نوجوان علماء کو ان دونوجوانوں کے نقش قد م پر چلنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہمارے یوپی اور بہار میں کئی ہزار مدرسے موجود ہیں، کیا آپ پورے وثوق کے ساتھ کہ سکتے ہیں کہ کئی ہزار مسلم اسکولس بھی موجود ہیں۔ اگر ہم ان مدرسوں کو اسکولوں میں تبدیل کردیں تو انھیں مدرسوں کے بچے حکومت کے اعلی عہدوں پر پہونچ کر اپنی قوم اور اپنے ملک کی خدمت کہیں بہتر انداز میں کرسکتے ہیں۔ ہم صرف حکومت کی شکایت نہیں کرسکتے کہ حکومت ہمارا ساتھ نہیں دیتی، آپ اپنے اپنے علاقوں میں عصری تعلیم کا جال بچھاکر اپنے بچوں کو Competition کے لائق بنائیں دیکھئے کیسے حالات بدل جاتے ہیں۔ وسائل اور مسائل کا رونا رونے کے بجائے ہم ایسا کیوں نہیں کرتے کہ ہم سے جو کچھ بن سکتا ہے وہی کرنے کی کوشش کریں۔ اس وقت تعلیمی بیداری کے نام بڑی بڑی کانفرنسوں اور کنونشن کے بجائے عملی میدان میں کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ سرسید احمد خان اکیلے اٹھے تھے اور آج انکا لگایا ہوا پودا پورے ملک کو سایہ دے رہا ہے، اسی طرح امریکہ کے ٹمپل یونیورسٹی کے بانی رسل کانویل جو ایک پادری تھے تنہا اٹھے تھے اور آج انکی قائم کی ہوئی یونیورسٹی کا امریکہ میں ایک نام اور پہچان ہے اور دور کیوں جائیے ہمارے اعظم خان کو دیکھ لیجئے کہ انھوں نے تن تنہا اپنی زندگی میں ایک یونیورسٹی کے خواب کو پورا کرکے دکھایا ہے۔
آپ خود کو کمزور اور بے مایہ تصور کرنے کے بجائے اپنے اپنی صلاحیتوں پر بھروسہ کیجئے اور تعلیمی میدان میں جو کچھ ہوسکے کرکے ملک وملت کی خدمت کیجئے، پھر دیکھئیے اللہ کی مدد کیسے آتی ہے ولیس للانسان الا ماسعی!