پریاگ راج( پریس ریلیز) پریا گ راج اُتر پردیش کی سرزمین سے تعلق رکھنے والی پروفیسر صالحہ رشید (صدر شعبہ عربی وفارسی الہ آباد یونیورسٹی )کی کتاب جد جہد آزادی (چند آزادی خواہوں کے قصے) کا ضیائے حق فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام شعبہ عربی وفارسی الہ آباد یونیورسٹی میں عمل میں آئی۔اس تقریب کا اہتمام ڈاکٹر صالحہ صدیقی صاحبہ (چیئرپرسن ضیائے حق فاؤنڈیشن واسٹنٹ پروفیسر شعبہ اردو سمستی پور کالج ) اور ان کی ٹیم نے کی، واضح رہے کہ ضیائے حق فاؤنڈیشن وہ تنظیم ہے جو سماجی، فلاحی کاموں کے ساتھ ساتھ تعلیمی کاموں میں بھی پیش پیش رہتی ہے، اس کے زیر اہتمام شہر پٹنہ کے پھلواری شریف میں ایک ادارہ مدرسہ ضیاء العلوم کے نام سے چل رہا ہے، جہاں بچے بچیاں اپنی علمی پیاس بجھا رہے ہیں،اس کے علاوہ اس ادارے نے اب پبلیکیشن کا کام بھی شروع کیا ہے جس کے تحت دو کتابیں منظر عام پر آ چکی ہیں پہلی۔پروفیسر صالحہ رشید کی کتاب اس میں شامل ہیں۔
پروفیسر صالحہ رشید بہترین معلمہ ہونے کے ساتھ ساتھ عربی اور فارسی زبانوں پر عبور رکھتی ہیں،لیکن وہ اُردو میں بھی دست آزمائی کرتی رہتی ہیں۔ اس سے قبل ان کی کئ تصانیف بھی منظر عام پر آچکی ہیں، جسے ادبی حلقوں نے سراہا ہے اور علمی حلقوں میں داد و تحسین حاصل کر چکی ہیں۔اسکالر بھی اس سے استفادہ کر رہے ہیں،
تازہ تصنیف جد جہد آزادی یہ کتاب جنگ آزادی کی تاریخ وتحریک پر مبنی ایک نایاب اور شاہکار تصنیف ہے، جو ایک سو سولہ صفحات پر مشتمل ہے، جس میں کئی اہم مضامین ہیں، جو اردو ادبی رسائل وجرائد میں شائع ہو چکے ہیں ، لیکن اب منظم انداز میں ایک کتابی شکل میں مصنفہ نے شائع کیا ہے ۔ جس کی قیمت دو سو روپے ہے، آپ اس کتاب کو ضیائے حق فاؤنڈیشن پبلکیش پریاگ راج اور پٹنہ بہار سے بھی حاصل کر سکتے ہیں، رسمِ اجراء کے موقع پر اس خوبصورت پروگرام کی نظامت اور کتاب کا تعارف ڈاکٹر صالحہ صدیقی صاحبہ (چیئرپرسن ضیائے حق فاؤنڈیشن) نے پیش کرتے ہوئے ضیائے حق فاؤنڈیشن کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ضیائے حق فاؤنڈیشن کے خدمات 2011 سے سر گرم ہے، یہ تنظیم سماجی، اصلاحی، اور فلاحی کاموں کے ساتھ ساتھ علمی، ادبی، لٹریری پروگرام میں بھی ہمیشہ سرگرم رہا ہے، ادباء وشعرا کی حوصلہ افزائی کے واسطے گاہے بگاہے آن لائن، آف لائن پروگرام کا انعقاد کرتا رہتا ہے، اس تنظیم کے تحت بہار کی دارالحکومت شہر عظیم آباد (پٹنہ) میں ایک ادارہ مدرسہ ضیاء العلوم کے نام سے قیام میں آیا ہے، جہاں طلباء وطالبات کی جماعت علمی پیاس بجھا رہی ہے، اس کے علاوہ یہ ادارہ اُن قلمکاروں کی حوصلہ افزائی کرنے اور اُن کو پلیٹ فارم مہیا کرانے میں پیش پیش رہتی ہے جن کو نظر انداز کیا جاتا ہے یا جن کو موقع نہیں مل پاتا۔اس کے بعد کتاب کا تعارف و کتاب کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ آزادی کی جد و جہد میں نمایاں ناموں کے ساتھ ایسے مجاہدین بھی شامل تھے جن کو تاریخ میں کبھی جگہ نہیں مل سکی، جن کی قربانیوں ،کوششوں اور لافانی خدمات نے آزادی کی تاریخ میں نمایاں کردار ادا کیا لیکن افسوس ان کی خدمات کا اعتراف کبھی نہیں ہو سکا یا ہوا بھی تو رسما۔۔ان تمام باتوں کی کمی پروفیسر صالحہ رشید نے اپنی اس تازہ تصنیف میں دورِ کر دی ہے انہوں نے اُن لافانی شخصیات کو بہت ہی خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے جن کے مطالعہ سے نئے نئے انکشافات ہوتے ہیں ، اور یہ معلومات کہیں اور نہیں ملتی ، یقینا ان کا یہ تحقیقی کارنامہ لافانی ہے ، جسے پڑھنے ، سمجھنے اور آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔
مہمان خصوصی کے طور پر ڈاکٹر نیلوفر حفیظ صاحبہ نے بھی اپنے تاثرات کا اظہار کیا، انہوں نے کہا کہ صالحہ رشید صاحبہ کی تصنیف کردہ جد جہد آزادی یہ جنگ آزادی کی تاریخ وتحریک کو اجاگر کرتی ہے ، اور صحیح تاریخ سے آگاہ کراتی ہے ، میں اُن کو اس کاوش کے لئے مبارکباد پیش کرتی ہوں۔
تاثرات پیش کرنے والوں میں محمد امجد، اسامہ جلال، رضوان بھی شامل رہے، محد اسامہ نے اس کتاب کو آزادی کی تاریخ میں اہم اضافہ بتایا۔
اس پروگرام میں عتیق احمد نے بہت خوبصورت انداز میں نظمیں پڑھیں چند اشعار پیش کئے جاتے ہیں:
مشکل دیکھ کر مسکرایا کرو
حوصلے آپ بھی آزمایا کرو
شوق اور خواہشیں تُم بھلے کم کرو
دو نوالے بھلے کم ہی کھایا کرو
علم کی شمع بھیتر جلائے رکھو
پروگرام کے آخر میں پروفیسر صالحہ رشید نے تفصیل سے اس کتاب کو لکھنے کے پیچھے کی کہانی، مقصد، اور اہمیت پر بھر پور روشنی ڈالتے ہوئے اپنے جذبات و احساسات کا اظہار کیا۔ انھونے کہا کہ ہماری گورنمنٹ آف انڈیا نے آزادی کے امرت مہو تسو کے ذریعہ یہ موقع دیا کہ ہم اپنی آزادی میں قربان اسلاف کو یاد کریں، انکی مٹ چکی تاریخ کو دہرائیں، انکو نئے سرے سے جاننے سمجھنے کی کوشش کریں ، اسی لیے میں نے اس کتاب میں شامل تیرہ مضامین میں آزادی کے تیرہ متوالوں کو اپنے طور پر جاننے اور سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ساتھ ہی اُنہوں نے فاؤنڈیشن کا بھی شکریہ ادا کیا اور خوشی کا اظہار کرتے ہوئے یہ بات بھی کہی کہ شعبہ فارسی و عربی کے لئے یہ فخریہ لمحہ ہے کہ جشن آزادی کے موقع پر ہمارے شعبے کی نمائندگی یہ کتاب کر رہی ہے۔
اس پروگرام میں بڑی تعداد میں سامعین، اسکالر، طلباء و طالبات شامل رہے۔اس پروگرام کے منتظمین میں ڈاکٹر صالحہ صدیقی، محمد ضیاء العظیم پٹنہ، اسماء، سہراب، نشی موہنی، ہریش چندر یادو، ابھیشیک راہی، کا نام قابل ذکر ہے
آخر میں اظہار تشکر کے ساتھ ڈاکٹر صالحہ صدیقی صاحبہ نے پروگرام کے اختتام کا اعلان کیا۔