تحریر : شمشیر عالم مظاہری دربھنگوی
امام جامع مسجد شاہ میاں روہوا ویشالی بہار
رسول اللّٰہ ﷺ نے ایک طرف تو اصحابِ وسعت کو ترغیب دی کہ وہ ضرورت مند بھائیوں کو قرض دیں اور اس کی ادائیگی کے لئے مقروض کو مہلت دیں کہ جب سہولت ہو ادا کرے اور نادار مفلس ہو تو قرضہ کاکل یا جز معاف کر دیں اور اس کا بڑا اجر وثواب بیان فرمایا اور دوسری طرف قرض لینے والوں کو آگاہی دی کہ وہ جلد سے جلد قرض ادا کرنے اور اس کے بوجھ سے سبکدوش ہونے کی فکر اور کوشش کریں اگر خدانخواستہ قرض ادا کئے بغیر اس دنیا سے چلے گئے تو آخرت میں اس کا انجام ان کے حق میں بہت برا ہوگا کبھی کبھی آپ ﷺ نے اس کو سنگین ترین اور نا قابلِ معافی گناہ بتلایا اور کبھی ایسا بھی ہوا کہ کسی میت کے متعلق آپ ﷺ کو معلوم ہوا کہ اس پر کسی کا قرضہ ہے جس کو اس نے ادا نہیں کیا ہے تو آپ ﷺ نے اس کی نمازِ جنازہ پڑھنے سے انکار فرمادیا ظاہر ہے کہ یہ آپ ﷺ کی طرف سے آخری درجہ کی تنبیہ تھی
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللّٰہ ﷺ کے پاس جب نمازِ جنازہ کے لئے ایسا میت لایا جاتا جو مقروض تھا تو آپ ﷺ دریافت فرماتے کہ کیا اس نے اپنا قرض ادا کرنے کے لئے مال چھوڑا ہے اگر بتایا جاتا کہ اس نے اتنا مال چھوڑا ہے کہ قرض ادا کرنے کے لئے کافی ہے تو اس پر نمازِ جنازہ پڑھتے ورنہ آپ صحابہ کرام سے فرما دیتے کہ اس پر تم نماز پڑھ دو (صحیح مسلم)
حالانکہ ان لوگوں کا قرض بھی کچھ حد سے زیادہ نہ ہوتا تھا اور وہ ضرورت ہی میں قرض لیتے تھے پھر بھی آپ ﷺ اس قدر سختی فرماتے۔ آج فضول رسموں اور بے جا خرچوں کے واسطے لوگ بڑے بڑے قرضے لیتے ہیں اور مر جاتے ہیں اور وارث بھی کچھ فکر نہیں کرتے
صحیح حدیث میں ارشاد ہے کہ مومن کا جب تک قرض ادا نہ کر دیا جائے اس کی روح کو (ثواب یا جنت میں داخلہ سے)روکا جاتا ہے ایک شخص نے عرض کیا یا رسول اللّٰہ ﷺ میرے بھائی کا انتقال ہوگیا اور چھوٹے بچے چھوڑ گیا ہے کیا میں ان پر مال خرچ کروں؟ اور قرض ادا نہ کروں آپ ﷺ نے فرمایا کہ تمہارا بھائی قرض کی وجہ سے مقید ہے قرض ادا کرو (مفید الوارثین بحوالہ مشکوۃ شریف)
حضرت سلمۃ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم لوگ رسول اللّٰہ ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے ایک میت کا جنازہ لایا گیا اور عرض کیا گیا کہ حضرت اس کی نمازِ جنازہ پڑھا دیجئیے آپ ﷺ نے دریافت فرمایا کہ اس آدمی پر کچھ قرض ہے؟ لوگوں نے عرض کیا کہ کچھ قرض نہیں ہے تو آپ ﷺ نے اس جنازہ کی نماز پڑھا دی۔ پھر ایک دوسرا جنازہ لایا گیا اس کے بارے میں آپ ﷺ نے پوچھا کہ اس میت پر کسی کا قرضہ ہے؟ عرض کیا گیا کہ ہاں اس پر قرض ہے تو آپ ﷺ نے دریافت فرمایا کیا اس نے کچھ ترکہ چھوڑا ہے جس سے قرض ادا ہوجائے لوگوں نے عرض کیا کہ اس نے تین دینار چھوڑے ہیں تو آپ ﷺ نے اس کی نمازِ جنازہ پڑھا دی۔ پھر تیسرا جنازہ لایا گیا تو آپ ﷺ نے اس کے بارے میں بھی دریافت فرمایا کہ اس مرنے والے پر کچھ قرضہ ہے؟ لوگوں نے عرض کیا کہ ہاں اس پر تین دینار کا قرضہ ہے آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس نے کچھ ترکہ چھوڑا ہے جس سے قرض ادا ہو سکے لوگوں نے عرض کیا کہ کچھ نہیں چھوڑا ہے تو آپ ﷺ نے حاضرین صحابہ سے فرمایا کہ اپنے ساتھی کی نمازِ جنازہ تم لوگ پڑھ لو تو ابوقتادہ انصاری رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ حضور اس کی نماز پڑھا دیں اور اس پر جو قرضہ ہے وہ میں نے اپنے ذمّہ لے لیا میں ادا کروں گا تو اس کے بعد آپ ﷺ نے اس جنازے کی بھی نماز پڑھا دی (صحیح بخاری)
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مجمع میں اللہ کے رسول ﷺ نے کھڑے ہو کر ایک خطبہ پڑھا جس میں فرمایا کہ راہ خدا کا جہاد اور اللہ پر ایمان لانا تمام اعمال سے بہتر و افضل ہے یہ سن کر ایک صحابی کھڑے ہوگئے اور دریافت کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ اگر میں خدا کے لئے جہاد میں قتل کردیاجاؤں تو کیا میرے تمام گناہوں کا کفارہ ہو جائے گا؟ آپ نے فرمایا ہاں بیشک اگر تو راہ خدا کے جہاد میں مار ڈالا گیا اور تھا تو صبر کرنے والا ثوابِ آخرت کی جستجو کرنے والا آگے بڑھنے والا نہ کہ پیچھے ہٹنے والا تو بلا شک و شبہ تیرے سارے گناہ معاف ہو جائیں گے پھر آپ نے اس سے دوبارہ پوچھا کہ تم نے کیا سوال کیا تھا؟ تو اس نے اپنا سوال پھر دہرایا تو آپ نے پھر اپنا جواب بھی دہرایا لیکن ساتھ ہی فرمایا کہ قرض معاف نہیں ہوگا ( ابھی ابھی) جبرئیل علیہ السلام میرے پاس آئے اور مجھ پر یہ وحی خداوندی نازل کرگئے (مسلم)
حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللّٰہ ﷺ نے ہمیں ایک مرتبہ خطبہ سنایا جس میں فرمانے لگے یہاں فلاں قبیلے کا کوئی شخص ہے؟ کسی نے جواب نہ دیا پھر دریافت فرمایا پھر سب خاموش رہے تیسری مرتبہ سوال کیا یہاں فلاں قبیلے میں سے کوئی شخص ہے؟ ایک صاحب بولے کہ یارسول اللہ میں موجود ہوں آپ نے فرمایا پھر دو بار تم نے کیوں جواب نہیں دیا؟ میں کوئی بری بات تمہیں پہنچانے والا نہ تھا سنو! تم میں سے فلاں صاحب جن کے ذمّے کچھ قرض تھا اور وہ انتقال کر گئے تھے میں نے انہیں دیکھا کہ جنت کے دروازے پر روک دیئے گئے ہیں اب اگر تم چاہو تو وہ رقم ادا کرکے اپنے والے کو چھڑالو اور اگر چاہو تو یونہی قیدی رہنے دو یہ سن کر ایک صحابی نے کہا یا رسول اللہ اس کا قرض میرے ذمّے اور اسی وقت ادا کر دیا تو آپ ﷺ نے فرمایا اب میں دیکھ رہا ہوں کہ تمام طالب حق اس کے پاس سے ہٹ گئے سب کو ان کا حق مل گیا اب کوئی باقی نہیں رہا جو اس سے اپنے حق کا مطالبہ کرتا ہو
آج ہم اپنا جائزہ لیں اور ایمان سے بتلائیں ہم سے کوئی ہے جو کسی ادنیٰ درجے کے صحابی کی نیکیوں کا مقابلہ کر سکیں لیکن تاہم کچھ قرضہ جو باقی رہ گیا تھا اس کی وجہ سے وہ پکڑ لئے گئے آج ہم جو ہزاروں کے حقوق مارے بیٹھے ہیں بے فکر کیوں ہیں
کیا ہم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ ہمارے یہ روزے نماز کافی ہیں ہماری توحید وسنت کا دعویٰ سب کچھ ہے اللہ سے ڈریں اور خیال کریں کہ ان پاکباز صحابہ پر بھی جنت کے دروازے بند ہوگئے یہ قیدکر لئے گئے اس بنا پر کہ کسی کے دو چار درہم کا قرضہ انکے ذمے رہ گیا تھا پھر ہمارا کیا حال ہوگا کہ کسی کا ورثہ دبا بیٹھے ہیں کسی تیم کا مال کھا گئے ہیں کسی کی زمین پر قبضہ کر لیا ہے کسی کا مال لے کر مکر گئے ہیں امانت لے کر انکار کر دیا ہے قرض لے کر ادا نہیں کیا اٹھیں حق داروں کا حق اس سے پہلے ادا کردیں کہ آنکھیں بند ہوں اور یہ دنیا چھوٹ جائے