صحافت اور مدارس اسلامیہ


ازقلم: قیس خان جالونی

جدید وسائل یعنی میڈیا کے ذریعے عوامی معلومات کی اشاعت کو صحافت کہتے ہیں اسی فن کے ذریعے ہم دنیا کو مٹھی میں لئے ہوئے ہیں
اس سے حالات و واقعات اور حادثات سے واقفیت حاصل کرتے ہیں  قومی وملکی یہاں تک کہ عالمی سطح کے حالات کی سیاسی سماجی اور اخلاقی صورت حال کا مشاہدہ کرتے ہیں گذشتہ دور کے صحافتی دائرہ سے موجودہ دور میں فن صحافت بہت ترقی کر چکا ہے اور اسکا میدان دن بدن بڑھ رہا ہے اور صحافت ہر ملک و ہر زبان میں ترقی کر رہی ہے چند مخصوص زبانوں کو چھوڑ کر خصوصاً اردو میں اسکا دائرہ بہت وسیع ہے اگر چہ دوسری مشہور رائج زبانوں کے مقابلے میں یہ زیادہ قدیم نہیں لیکن اسکو بولنے اور معلومات میں استعمال کرنے والوں کی ایک بہت بڑی تعداد ہے اردو زبان اور صحافت کو خوب سے خوب تر بنانے کا سہرا مدارس اسلامیہ کے فضلاء کے سر پر جاتا ہے اور اب بھی اسکی آبیاری مدارس اسلامیہ کے ساتھ منسلک ہے موجودہ دور میں اگر اردو صحافت پر نظر ڈالی جائے تو بیشتر اردو اخبارات میں رپورٹنگ سے لیکر کمپوزنگ اور ڈیزائیننگ تک کی خدمات انجام دینے والے افراد میں مدارس کے فارغین اور تعلیم یافتہ کی اکثریت ہے. بقول اکبر الہ آبادی(
چھوڑو نہ کمانوں کو نہ تلوار چلالو
جب توپ مقابل ہو تو اخبار نکالو)
ماضی میں رسائل و مجلات نکال کر فضلاء مدارس نے اپنا نام بھی کمایا ہے
اردو صحافت کے فروغ و ارتقا میں ندوۃ العلماء کا رول اہم رہا ہے اس نے قیام کے بعد سے ہی اردو عربی ہندی و انگریزی زبانوں میں رسالے نکالے جن میں الندوہ ایک عرصے تک علمی و صحافتی دنیا میں علم ونور کی بارش بکھیرتا رہا لیکن بعد میں بند ہو گیا اور دیگر تمام رسائل جو ندوے سے نکلے وہ جاری وساری ہیں اسکے ساتھ ساتھ ندوے میں صحافت کا ایک کورس بھی ہے اور ندوۃ العلماء کے ساتھ ساتھ دیگر اداروں سے بھی سینکڑوں رسائل و جرائد نکلتے ہیں اور صحافت کے فروغ میں انکا ایک اہم کردار ہے اور ان میں عالمی سطح کے سیاسی مسائل اور دیگر موضوعات پر انتہائ غیرت مندانہ تجزئے اور بحثیں ہوتی رہتی ہیں جن سے فضلاء مدارس کی فکری افق کی وسعت کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے.