ازقلم: انوارالحق قاسمی
ترجمان جمعیت علماء روتہٹ نیپال
یہ ایک حقیقت ہے کہ اسلام تلوار سے نہیں؛بل کہ حسنِ اخلاق سے پھیلا ہے۔جتنی طاقت و قوت اخلاق میں ہے، وہ دنیا کی کسی بڑی سے بڑی طاقت حتی کہ توپ میں بھی نہیں ہے۔اخلاق سے بڑےبڑے مسائل چٹکیوں میں حل ہوجاتے ہیں،جو دنیا بھر کی ان گنت طاقتیں بروے کار لانے سے بھی ممکن نہیں ہے۔
اس حقیقت کے اعتراف کے باوجود بھی آج ہم مسلمان اخلاقی زوال کے اس دہلیز پر قدم رکھ چکےہیں کہ بس اللہ کی پناہ! ۔ہم جس دین کےداعی و شیدائی ہیں ،وہ دین ہم تک صرف اور صرف حسنِ اخلاق سےپہنچاہے؛مگر پھربھی ہم آج عملا اس کا انکار کررہے ہیں،یہ ہمارے لیے انتہائی حرماں نصیبی کی بات ہے کہ ہم آج اس بے بہا انمول اثاثےسے محروم ہیں ۔یہ ہم مدعیانِ اسلام لیے کچھ زیادہ ہی ننگ و عار کی بات ہے۔
ان دنوں ہماری اخلاقی صورت حال یہ ہے کہ ہم جب جسے چاہتے ہیں بآسانی برا بھلا کہہ دیتے ہیں اور بسا اوقات تو نوبت ہاتھا پائی تک بھی پہنچادیتےہیں ۔جب کہ ہم جس دین کے ماننے والے ہیں،اس میں ہمیں صاف تعلیم دی گئی ہے کہ "مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان محفوظ رہے ۔ایک حدیث میں تو یہاں تک ہے کہ آقاۓ مدنی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے مسلمانوں سے جن سے ان کا پڑوسی ان کی شرارتوں سے آزردہ خاطر اور پریشان رہتے ہیں،تین (3)دفعہ خداکی قسم کھاتے ہوۓ ان سے ایمان کی نفی کرتے ہوۓ فرمایاکہ: بخدا وہ مومن نہیں ہے،بخدا وہ مومن نہیں ہے،بخدا وہ مومن نہیں ہے،صحابہ کرام نے عرض کیا کون اے اللہ رسول ﷺتو آپ ﷺ نے فرمایا:جس کا پڑوسی اس کی شرارتوں (بوائِق)سےمحفوظ نہ رہے۔اب آپ بتائیں!کہ بے ادبوں اور بداخلاقوں کے لیے اس سے بڑی وعیدِنبوی اور کیا ہوسکتی ہے؟” کہ اللہ کانبی اس سے ایمان ہی کی نفی کررہاہے۔ یہ ایک امرواقعی ہے کہ بدزبانی و بداخلاقی سے ہمیں رتی برابر نہ کبھی کچھ فائدہ حاصل ہوااور نہ ہی ہوسکتاہے،بل کہ اس میں تو سو(100)فی صد ہمارا نقصان ہی ہے۔ حسن اخلاق کا معاملہ اس سے بالکل برعکس ہے؛کیوں اس میں ہمیشہ ہرایک کو فائدہ ہی نظر آیاہے اور عجب بات یہ ہےکہ ہم فائدہ کا اقرارکرتےہوئے بھی اس عظیم شاہکار سے محروم ہیں۔ واضح رہے کہ حسن اخلاق ایک خاموش بیش بہا قیمتی تیز تلوار ہے،جس کے سامنے وقت کا بڑا دشمن بھی سرنگوں ہوجاتاہے اور اخلاقی طاقت کا اعتراف کیے بغیر نہیں رہتاہے۔ اللہ تعالی ہمیں اخلاقِ حسنہ اختیارکرنے اور اخلاقِ رذیلہ سے اجتناب کی توفیق عطا فرماے آمین ۔