تحریر :احمد حسین مظاہری
فی الوقت مدارسِ دینیہ کے بارے میں جو نت نئے پروپیگنڈے کیے جارہے ہیں وہ کسی باشعور اور حساس لوگوں سے پوشیدہ نہیں، جدید اجتماعی و سیاسی تغیرات نے بہت سے قومی و مذہبی مسائل کو موضوع بحث بنا دیا ہے۔
مسلمانوں کے بعض حلقوں میں سنجیدگی کے ہمراہ یہ سوال پیدا ہوگیا ہے کہ عربی مدارس کی،اس انقلابی زمانہ میں کیا ضرورت ہے؟ اور ان کے نہ ہونے سے ہماری زندگی کا کون سا خانہ خالی رہتا ہے،
آج کے مضمون میں ہم اسی سوال کے جواب دینے کی کوشش کریں گے۔۔۔۔
کیا مدارس میں دہشت گردی کی تعلیم دی جاتی ہے؟
نہیں، نہیں، نہیں، ہرگز نہیں بلکہ مدارس میں تعلیم دی جاتی ہے،
معرفتِ الہی پیدا کرنا، اخلاص پیدا کرنا، ایمان و احتساب کی کیفیت پیدا کرنا، شریعت کا احترام پیدا کرنا،شریعت کی معرفت،شریعت کی صحیح ترجمانی کی صلاحیت پیدا کرنا،کردار سازی جو اس وقت دینا کی اہم ترین،انسانیت کی اہم ترین ضرورت ہےمدارس اسلامیہ دہشت گردی کے اڈے نہیں بلکہ فروغ علم کے اہم مراکز اور ملک کی تعمیر وترقی کی تحریک ہیں۔۔۔
دینی مدارس اور علماء ملک کی نظریانی سرحدوں کے محافظ ہیں،دینی مدارس ہدایت کے سرچشمے،امن کے گہوارے اور اشاعت دین کا ذریعہ ہیں ان کا دہشتگردی،تخریب کاری سے کوئی تعلق نہیں ہے مغرب کا پروپگنڈہ ان کے بارے میں بے بنیاد ہے ان دینی مدارس اور علماء کی وجہ سے آج نسلِ نو کا ایمان محفوظ ہے۔مدارس میں بغض و عداوت اور دشمنی نہیں بلکہ الفت و محبت کا سبق سکھایا جاتا ہے۔۔۔
مدارس کو بدنام کرنے والوں سنو! مدارس میں غیر ملکی ایجنٹ نہیں بلکہ محب وطن شہری بنایا جاتا ہے۔۔
مدارسِ اسلامیہ پر جو طرح طرح کےغلط اور بےبنیاد الزامات لگائے جارہے ہیں بلاشبہ یہ سب کے سب غلط ہیں،قرآن و سنت کی تعلیمات کے بغیر کسی اسلامی معاشرہ کی بقاءاور اس کے قیام کا تصور ممکن نہیں،قرآن و سنت اسلامی تعلیمات کا منبع ہیں اور دینی مدارس کا مقصد اسلامی تعلیمات کے ماہرین،قرآن و سنت پر گہری نگاہ رکھنے والے علماءتیار کرنا اور علوم اسلامیہ میں دسترس رکھنے والے ایسے رجال کار پیدا کرنا جو مسلم معاشرہ کا اسلام سے ناطہ جوڑیں اور دینی و دنیاوی امور میں راہنمائی اور اسلامی تہذیب و ثقافت کے تحفظ کا فریضہ انجام دیں۔مدارس میں دقیانوسیت نہیں بلکہ دین و مذہب پر کاربند ہونے کا درس دیا جاتاہے۔۔
شر پسندوں کی طرف سے اکثر و بیشتر یہ کہا جاتا ہے کہ مدارس آج کی پیداوار ہیں!
سنو! مدارس ومکاتب آج کی پیداوار نہیں ہیں بلکہ تقریبا ساڑھے چودہ سو برس پہلے اسلام کے پیغمبر حضور نبئِ رحمت صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم سے مسجد نبوی کے باہر ایک چبوترہ پر بیٹھ کر اصحاب صفہ دین کی معلومات حاصل کرتے تھے یہ رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلم کا پہلا مدرسہ تھا جو آج بھی مسجد نبوی کے اندر چبوترہ کی شکل میں قائم ہے۔۔
قرآن و سنت کے علوم و معارف سمجھانے کے لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دارارقم میں ایک درسگاہ قائم کی جس میں کلمہ پڑھنے والے لوگوں کی اخلاقی اور روحانی تربیت کی جاتی تھی۔ بیعت عقبہ ثانیہ کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت مصعب بن عمیر ؓ کو مدینہ بھیجا آپ نے بنی ظفر کے ایک وسیع مکان میں سیدھے سادھے مگر اسلامی دنیا کے بہترین مدرسے کا افتتاح کیا جو ہجرت مدینہ کے بعد "مدرسہ اصحاب صفہ” کی صورت میں پھلا پھولا جہاں ہر وقت طلبہ علوم دینیہ کی کثیر تعداد موجود رہتی تھی ۔ اسی کے فیض یافتہ پوری دنیا میں پھیلے اور انسانیت کو جہالت کے اندھیروں سے نکال کر ابدی فلاح اور کامیابی کی طرف راہنمائی کی۔
مدارسِ اسلامیہ کا وجود اس وقت کی اہم ترین ضرورت اور دین و مذہب کی بقاء کے ضامن اور دین کی حفاظت کے قلعےہیں۔
ان دینی مدارس نے ہر دور میں تمام ترمصائب و مشکلات ، پابندیوں اور مخالفتوں کے باوجود کسی نہ کسی صورت اور شکل میں اپنا وجود اور مقام برقرار رکھتے ہوئے اسلام کے تحفظ اور اس کی بقاء میں اہم کردار ادا کیا ہے، جیسے جنگ آزادی میں عیاں ہیں۔
مدارس کی تعلیم اور عندیہ کیا ہے؟
دینی مدارس کا اپنا ایک مخصوص نصاب ہوتا ہے جو انتہائی پاکیزہ اور نورانی ماحول میں پڑھا یا جا تا ہے جس میں مستند عالم دین کا مقام حاصل کرنے کے لئے عربی وفارسی،صرف و نحو،قرآن و حدیث ، تفسیر ، فقہ و اصول فقہ، معانی و ادب ، منطق و فلسفہ جیسے ضروری علوم کا ایک مکمل نصا ب پڑھنے کے بعد وہ عالم دین کے منصب پر فائز ہوتا ہے، نیز زندگی گزارنے کا سلیقہ والدین کی عزت و ناموس، رشتہ داروں کے ہمراہ اچھاسلوک وغیرہ ذالک ۔اس لئے اب امتِ مسلمہ کو تو یہ چاہیے تھاکہ ان مدارس کی خونِ جگر سے آب یاری کرتے،اپنی جان ومال سےتعاون کرتے، ان مدارس پر آئی ہر مصیبت کے لئے سینہ سپر ہوجاتے؛لیکن افسوس کہ غیر تو غیر اپنوں نے بھی دن ورات انہی مدارس پر
تنقید وتبصرے کو اپنا مزاج بنالیا،ان کو بوجھ،خیراتی ادارے،چندہ خوری کے اڈے،غریبوں کا حق چھیننے والا،اور پتہ نہیں کن کن القاب سے بدنام کرنے کی کوشش کی اور کررہے ہیں۔۔
بارِالہ جملہ دینی مدارس کی نگہداشت فرمائے (آمین)