ٹی راجہ سنگھ کی بکواس

تحریر: محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

تلنگانہ اسمبلی میں بھاجپا کے رکن ٹی راجہ سنگھ کی آقا صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کے حوالہ سے بکواس نے حیدر آباد ہی نہیں پورے ہندوستان کے مسلمانوں کے قلب وجگر کو چھلنی کر دیا ہے ، ٹی راجہ سنگھ مجرمانہ ذہنیت رکھتا ہے ، اس کے اوپر ایک سو ایک(۱۰۱) مقدمات پہلے سے درج ہیں، جس میں اٹھارہ(۱۸) مقدمات کا تعلق فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے سے ہے ، حیدر آباد میں اسے گرفتار کیا گیا، لیکن یہ گرفتاری ان دفعات کے تحت ہوئی تھی ، جس میں دفعہ ۴۱، اے کے تحت پولیس کو پہلے نوٹس دینا ہوتا ہے، پولیس نے چوں کہ یہ نہیں کیا تھا؛ اس لیے عدالت نے تکنیکی بنیاد پر اسے رہا کر دیا، اس رہائی کے نتیجے میں مسلمانوں کا غصہ پھوٹ پڑا اور شاہ علی بند سے احتجاج ومظاہرہ شروع ہوا،قدیم حیدر آباد کے چار مینار تک پہونچا،اس درمیان تین اجنبی لوگوں نے پولیس پر پتھر پھینک دیا، اور پولیس نے اپنا غصہ اتارنے کے لیے ہر وہ کام کیا، جو اس کی روایت رہی ہے، نوے (۹۰)مسلمان گرفتار ہوئے اور پولیس نے گھروں میں گھس کر ان کے مکینوں کو زد وکوب کیا، ایم آئی ایم کے صدر و رکن پارلیمان بیرسٹر اسد الدین اویسی نے کسی طرح ان کو پولیس کی گرفت سے آزاد کرایا اور اپنے کارکنوں کے ذریعہ ان کے گھروں تک پہونچانے کا قابل تعریف کام کیا۔
نوجوانوں نے اس موقعہ سے جو نعرہ لگایا ، اس میں ایک یہ بھی تھا کہ گستاخ رسول کی یہی ہے سزا ، سر تن سے جدا ، سر تن سے جدا، اس نعرے کی وجہ سے آ ر ایس ایس اور بھاجپا کے لوگ بھی سڑکوں پر آئے اور ٹی راجا سنگھ جس کی پارٹی میں کوئی پکڑ نہیں تھی، راتوں رات ہیرو بن گیا، اس بکواس سے وہ یہی فائدہ اٹھانا چاہتا تھا، جو اسے مل گیا۔
اس موقع سے حیدر آباد کے مساجد کے ائمہ نے انتہائی تحمل اور بر داشت سے کام لیا،انہوں نے اپنی میٹنگ میں یہ طے کیا کہ اس مسئلے پر جمعہ میں کوئی خطاب نہیں ہوگا، اس پر پورے حیدر آباد میں عمل ہوا، ٹی راجہ سنگھ قانونی کارروائی کی تکمیل کے بعد دو بارہ گرفتار ہو گیا، اس سے بھی مسلمانوں نے کچھ راحت محسوس کی، ٹی راجہ سنگھ کی گرفتاری کے دوسرے دن جمعہ تھا اگر مسجد کے منبر سے کوئی تقریر اس موضوع پر ہوجاتی تو مسلمانوں کو قابو میں رکھنا دشوار ہو جاتا اور نتیجہ قتل وغارت گری، خوں ریزی ، عصمت دری، دو کان ومکان کی بربادی کے سوا کچھ نہیں نکلتا، ائمہ ٔ مساجد حیدر آباد کے اس دانشمندانہ فیصلے نے ایک بڑے فساد کو واقع ہونے سے پہلے ہی روک دیا۔
یقینا تو ہین رسالت بڑا جرم ہے اور شریعت میں اس کے لیے سزا بھی مقرر ہے، لیکن اس کے نفاذ کے لیے جو شرائط ضروری ہیں وہ ہندوستان میں نہیں پائے جاتے ، یہاں حدود وقصاص کا اجراء نہیں ہو سکتا، یہاں ایسے کسی عمل کا مطلب قانون اپنے ہاتھ میں لینا ہے، جس کی اجازت کوئی بھی نہیں دے سکتا، اس کا حل قانونی چارہ جوئی ہے ، پر امن احتجاج بھی اس ہوشیاری کے ساتھ کرنا چاہیے کہ مخالفین اس کے اندر گھس کر نئے مسائل پیدا نہ کریں۔
اس سلسلے میں ملک کے علمائ، فقہاء اور مذہبی جماعتوں کو مل کر مضبوط لائحۂ عمل تیار کرنا چاہیے اور مسلمانوں کو اسی کی روشنی میں اقدام کرنا چاہیے تاکہ کسی بھی نا خوش گوار واقعہ سے بچا جا سکے ۔