مدارس کو بند کرنے کی ناپاک کوشش

ازقلم: زین العابدین ندوی
مقیم حال لکھنؤ

ملک کے جو حالات بنائے جا رہے ہیں اور حکومت واقتدار کے نشہ میں جس انداز سے اس کی صورت مسخ کی جارہی ہے وہ یقیناً ملک کے مستقبل کو تباہ کرنے والا انتہائی مجرمانہ قدم ہے، اس پر جہاں برسراقتدار حکمراں اور ان کے ہم نواں طبقہ میں جشن وخوشی کا ماحول ہے تو دوسری جانب اصل محبین وطن میں حیرانی و پریشانی اور قلق و اضطراب کا عالم دکھائی دے رہا ہے، اور ایسا اس لئے کہ ان کے چمن پر بجلیاں گرائی جا رہی ہیں اور گلشن کو ویران کیا جارہا ہے۔

برسراقتدار سیاسی جماعت کی دسیوں کاروائیاں وہ ہیں جنہیں دیکھ کر سر شرم سے جھک جاتا ہے جن میں وہ مختلف ناموں سے ملک کے حالات کو بگاڑنے اور آپسی بھائی چارہ کو ختم کرنے کی ناپاک کوشش کرتے دکھائی دیتے ہیں، اب ایک نیا شوشہ مدارس اسلامیہ کے سروے کا چھوڑ رکھا ہے جو زبان زد عام و خاص ہے، اخبار کی سرخیوں سے لیکر نیوز چینلز کی ہیڈ لائنز تک یہی موضوع بحث بنا ہوا ہے، تاریخ کے ایک ادنی طالب علم کی حیثیت سے یہ بات کہہ سکتا ہوں کہ یہ کوئی آج نئے تعلیم کے دشمن نہیں ہیں بلکہ ہر زمانہ میں اس طبقہ نے تعلیم کی مخالفت کی تاکہ ان کا حقہ پانی بند نہ ہو سکے، آپ کو معلوم ہوگا آج سے بہت پہلے اس ملک میں گوتم بودھ نے تعلیم کی شمع جلائی تھی تاکہ انسان اس کی روشنی میں چل کر خود کو پہچان سکے اور انسانوں کی غلامی سے نکل کر آزاد فضا میں سانس لے سکے ، اس وقت بھی اسی وچاردھارا اور منفی ذہنیت کے لوگوں نے انکی مخالفت کی یہاں تک کہ درسگاہیں جلا ڈالیں، تعلیم کے علمبرداروں کے ساتھ ہر وہ ظلم کیا جو وہ کر سکتے تھے، اسی کا نتیجہ ہے کہ اسی ملک میں پیدا ہونے والا بودھ دھرم اپنے ہی وطن میں یتیم ہو گیا، یہ تو ان کی تعلیم دشمنی کا ایک ورق ہے اس جیسے نہ جانے کتنے اوراق ہیں جنہیں دیکھا جا سکتا ہے۔

مدارس اسلامیہ کا خصوصی سروے اسی تعلیم دشمنی کی ایک کڑی ہے، اس لئے کہ ظلم کے خلاف اگر کہیں سے آواز اٹھ سکتی ہے تو وہ یہی ادارے اور ان اداروں سے نکلے ہوئے جیالوں سے ہی ممکن ہے اس لئے حکومت کا منصوبہ یہ ہے کہ یا تو انہیں اپنے ماتحت کر لیا جائے جس کی ایک طویل فہرست اب بھی موجود ہے اور پھر زرخرید غلاموں سے من چاہی ترتیب قائم کی جا سکے بصورت دیگر مختلف الزامات کے پاداش میں انہیں بند کیا جا سکے ، یہ ہے اس سروے کی ناپاک کوشش تاکہ ہمارے امتیازات وتشخصات سے ہمیں دستبردار کیا جا سکے، آپ کو بہت سارے افراد یہ کہتے ہوئے بھی دکھیں گے کہ حکومت ان مسائل کو چھیڑ کر اصل مسائل (بے روزگاری،مہنگائی وغیرہ) سے ہٹانا چاہتی ہے لیکن یہ نہ بھولنا چاہیے کہ یہی مدے ہی حکومت کی منشا ہیں، وہ چھیڑ نہیں رہے بلکہ ہمارا وجود مٹانے پر تلے ہوئے ہیں، اور مدارس کے ہوتے ہوئے ہمارے تشخصات کو مٹانا ناممکن ہے اس لئے یہ ناپاک کوششیں عمل میں لائی جا رہی ہیں۔۔۔۔

ایسے میں جبکہ سروے کا فرمان جاری ہو چکا ہے سوال یہ ہے کہ ہمیں کیا کرنا چاہئے؟ علماء کرام اس مسئلہ کو لیکر مذاکرات کا اعلان کر رہے ہیں، آجکل عدالتوں کے فیصلے گرچہ خود اپنے آپ میں حیران کرنے والے ہوتے ہیں اس کے باوجود بھی ہمیں قانون کو ہاتھ میں لینے کے بجائے ساتھ میں لیتے ہوئے رٹ داخل کرنا چاہئے، اس سے پہلے کہ سروے کا عمل شروع ہو اور اس کی رپورٹ کے بعد کاروائی عمل میں آئے پھر عدالت کے دروازہ پر فریاد لگائیں سروے سے پہلے ذمہ داران کو miscellaneous petition ہائی کورٹ میں فائل کرنا چاہئے جس میں وہ عدالت کے ذریعہ حکومت سے سوال کریں کہ discriminative survey کیوں کروایا جارہا ہے ؟ جس میں صرف مدرسے شامل ہیں اگر حکومت تعلیمی اداروں کو درست کرنا چاہتی ہے تو تمام غیر منظور شدہ اداروں کا سروے کرائے،ہائی کورٹ میں جب یہ رٹ جائے گی تو انشاء اللہ امید ھیکہ عدلیہ ضرور بالضرور اس پر تنبیہ کرے گی۔