ازقلم: عبدالعظیم رحمانی ملکاپوری (گوونڈی ممبئی)
9224599910
سول کورٹ کےاعداد وشمار ظاہر کر رہیے ہیں کہ مسلم لڑکیاں انٹر کاسٹ میریج(بین مذہب شادی) کے لیے کثرت سےنام درج کرارہی ہیں۔پورے ملک اور خصوصیت سےمہاراشٹر کے بڑے شہروں ممبئی، پونہ، پربھنی، اورنگ آباد، مالیگاؤںآکولہ میں تیزی کے ساتھ اس طرح کےواقعات رونما ہونے لگے ہیں ۔ 15سے 19 سال کی عمر میں اس کافیصد2.8%ہے 20 سے 24 سال کی عمر میں 2.3%25سے29سال عمرکے گروپ میں 2%ہے -صورت حال یہ ہے کہ بہت سی ریاستوں میں لو جہاد مخالف قانون نافذ کیا جارہا ہے۔اگر غیر مسلم لڑکی عشق کے چکر میں مسلمان لڑکے سے شادی کرتی ہے تو قانون حرکت میں آجاتاہے۔ غیر مسلم تنظیمیں میدان میں آجاتی ہیں ۔پولس اپنی کاروائی میں مستعدی دکھاتی ہے پکڑدھکڑ شروع ہوجاتی ہے۔گودی میڈیا کی چینخ پکار شروع ہو جاتی ہے۔ زور وشور سےڈبیٹ شروع کرنے لگ جاتے ہیں -لیکن مسلم لڑکی غیر مسلم سے عشق کے چکر میں جب شادی رچاتی ہے تو قابل قبول کی سند ملتی ہے -کوئی ہل چل نہیں ہوتی،ایک سنا ٹا ہے تذکرہ تک نہیں۔ کوئی مقامی میڈیا تک کی نیوز نہیں. ۔مسلم معاشرے کی طرف سے بہت کم توجہ دی جاتی ہے۔ اس کے اسباب تلاش کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کے پیچھے جدیدذرائع وسائل موبائل فون، انٹر نیٹ سرفنگ ،مخلوط کالج کا کلچر اورٹیوشن کلاسیز کی غیر نصابی سرگرمیاں، آزادانہ دوستی، فرینڈ شپ کار فرما ہیں-
2018کی سروے رپورٹ کے مطابق 20 فیصد نابالغ انٹرنیٹ دیکھنے کے عادی ہیں ۔
یوٹیوب، فیس بک، ٹک ٹاک،یو ٹیوٹ کےویڈیوز،گندےکارئون، فحش فلمیں، بے شرمی کےمکالمے، خصوصی میک اپ، بلوغ کے راز، صنف مخالف سے آزادانہ دوستیاں، رشتوں کے نام پر لڑکا، لڑکی کی آزادانہ ملاقات،فحش لٹریچر اور عریانیت کے سارے حربے عام ہیں۔
مخلوط تعلیم، کینٹین کلچر، ہوٹل بازی، کالج کا سوشل کلچر، بناؤ سنگھار، غیر ساتر فیشن ایبل لباس، تفریح کے نام پر ون ڈے پکنک، شاپنگ، صنف مخالف کو پھانسنے کے لیے مہنگے تحفے، اچھے قیمتی اسمارٹ فون، آئ پیڈ، لیپ ٹاپ، اسکوٹر دلاکر معشوقہ کاای ایم آئی بھرنا۔ قرض دلانے میں گیرینٹر بننا، فون نمبر حاصل کرکےمسلم لڑکیوں کو جھوٹے عشق میں پھانسنے کا ریکیٹ اور بہت کچھ خفیہ طور طریقے رائج ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔
اور
پہلے گھمانا پھرانا، فاسٹ فوڈ کھلانا، بائیک پر سیراور گھر کے قریب سے پک اپ اور گھر سے تھوڑی دوری پر ڈراپ کردینا۔شیک ہینڈ، پھر بوس وکنار، لپٹانااور بغل گیر ہونا۔
مسلم لڑکیوں کا اعلیٰ تعلیم کے لیے تنہا بستیوں میں کمرے لے کررہنا۔ یا پھر پرائیویٹ ہوسٹل میں رہنا۔مخلوط کالج میں پڑھنا اور نوکری کے لیے بھاگ دوڑ اور مردوں سے شانہ بہ شانہ مقابلہ اور مسابقت،غیر محتاط رہنا،ایکسٹرا اسمارٹ ،منہ پھٹ، مذاق، نڈر اور بے باکی کا مظاہرہ کرنا۔ مردوں کی ہمسری(برابری) کرنا-مندرجہ بالا اسباب آزادی اور ایک لبرل سوچ دیتے اور مسلم لڑکیوں کو اپنے دام میں پھنسا کر ان کی زندگی کو للچاتےاورالجھا دیتے ہیں ۔
مسلم معاشرے کو دیکھیےاورگھر، گھروندے کاجائزہ لیجیے توانٹر فیتھ، بین مذہب شادی کے اسباب یہیں بکھرے ہوئے ملیں گے ۔والدین کےروز روز کےآپسی جھگڑے، قرض کی ادائیگی کے مسئلے، بھائی کی بےروز گاری آوارگی،غیر ذمہ دارانہ رویہ،نشہ کی لت،مذہب سے دوری۔ والد مہنگائی کے بوجھ اور اور خانگی مسائل سےپریشان ہیں۔ گھر میں بیماری کا ڈیرا ہے۔ایک ادھ بہن سرال سے لڑ جھگڑ کریا والدہ کی بے جاہ مداخلت کے سبب یا سسرالی ظلم کی تاب نہ لاکر میکےمیں واپس آگئ ہے۔ اسلام کی تعلیمات سے دوری،ناواقفیت۔ارتداد اور شرک سے نفرت کی بجائے ذہنی آزادی اور مذہبی حصار سے آزادی کی سوچ
۔جوانی کی حد پار کرتی لڑکیاں، سماج میں لڑکوں کی طرف سے بھاری جہز کی مانگ ۔لڑکے کم پڑھے لکھیےکوئ مستقبل یا ڈھنگ کی نوکری نہیں نہ اپنا کوئی اچھا کاروبار-شادی کے بے جا رسومات میں لگنے والا کثیر صرفہ۔
لڑکیوں کا ایسے کورسیز میں داخلہ جہاں مردوں کے شانہ بہ شانہ رات دن کام۔تنہائی کے مواقعے، باس کی پرسنل سیکریٹری اور آفس کی ریشپسن پر فل میک آپ اور جسم کی نمائش کے ساتھ مصنوی مسکراہٹ لیےحاضری – ایک وجہ job نوکریوں کی بڑھتی خواہش ۔ صارفیت کلچر ماڈرن شوق اور اسٹیٹس کے چونچلے نبھانا۔۔۔۔۔
ان سارے جھمیلوں میں شادی کی عمر نکلی جارہی ہیے۔جو رشتے آرہیے ہیں وہ قابل قبول نہیں- معیار جو بہت اونچا بنا رکھا ہے۔اب ان رشتوں میں طرح طرح سے نقص نکالے جارہے ہیں۔ کوئی نظر میں جچتا ہی نہیں۔کبھی والدہ کی طرف سے انکارا، کبھی لڑکی رشتہ رجیکٹ کررہی ہے۔
۔اب لڑکی کمانے اور گھر چلانے جولگی ہے ۔والدین کی طرف سےشادی کرلینےکے تقاضے کو ٹال رہی ہیے۔آزاد خیال اور روشن خیال جو ہو گئ ہے۔سرفنگ، چیتنگ ہورہی ہیے۔بند کمرے میں بہت کچھ دیکھا جارہا ہیے- وقت بے وقت ؤاٹس ایپ اور فیس بک،انسٹاگرام، ٹیلیگرام، یوٹیوب پر چھائی ہوئی ہے۔ ہر خواب دکھانے والے اوررجھانے والے سے چیٹنگ ہورہی ہے۔دنیا جو سمٹ کر مٹھی میں آگئی ہے ۔
معاشرے کے مسلم لڑکے،کزن کم پڑھے لکھے اوپر سے معقول ملازمت نہیں، بے روزگار ہیں ۔
اب آپس میں چاہت بڑھ رہی ہے۔محبت کے جال میں پھنس رہی ہے۔
معیار زندگی کو اٹھانے کے شوق نے
کردار پستیوں سے بھی نیچے گرادیا
غیر مسلم لڑکا مسلم لڑکی کومذہب بیزار بنارہا ہیےاور اپنی محبت میں اضافہ کرنے کے لیے وہی کچھ کر رہا ہیے جو لڑکی کو پسند اور اس کی جنسی ضرورت ہے ۔اوپن ریلیشن، افیر، شاپنگ، پکنک، رومانس، جھوٹے وعدے، ایکٹنگ وغیرہ۔
اے محبت تیرے انجام پہ رونہ آیا
اب شروع ہوتا ہیے ارتدادکا فتنہ اورکفر سے بد تر حالت۔لڑکی عشق کےدام میں پھنس گئی ہے-اپنےوالدین کو سمجھا کر راضی کرانے کی کوشش کر رہی ہیے۔نہ مانے تو خودکشی کی دھمکیاں ،گھر سے بھاگ کر شادی کرنے کی بات۔اس سے بھی نہ مانیں تو باہمی ناجائز تعلقات کی سٹی اسکین رپورٹ حاضر۔بے شرمی کے ننگے ویڈیو پیش۔
والدین مجبورہیں۔ کمانے والا ہاتھ ہیے۔گھر اس سے جوچل رہا ہے –
بچاؤ اپنے اہل وعیال کو جہنم کی آگ سے
18برسوں کی تربیت اب انٹر کاسٹ ،میریج(بین مذاہب) رچانےکے چکر میں سب کو چھوڑ نے پر راضی، کفر وشرک کی دہلیز پر ڈیرہ ڈال رہی ہے –
اپنی مسلم بیٹی inter cast marriage اور inter faith میریج کے لیے اپنے حق بلوغیت کا استعمال کر نے 18منٹ کے فیصلے میں سول کوٹ پہنچ گئی ہے- مندر میں بیٹھ ہندو ریتی رواج سے تلک اور کم کم لگائے، ساڑی پہنے گلے میں منگل ستر لٹکائے برجمان ہے۔
اے دختران ملت!
خدارا باطل کی سازش کو سمجھیے۔وہ آپ کی عصمت وعفت سے کھلواڑ کر کے اپنے ناپاک منصوبوں کو کامیاب بنانے کے لیے تمہارا استعمال بطور سیڑھی کر رہیے ہیں۔ وہ اب بھی مسلمان لڑکی کو باکرہ، عصمت کی محافظ، فحش سے دور اور نرم چارہ سمجھتے ہیں ۔
مرجائیں گے ایمان کا سودا نہ کریں گے
اے لیڈران قوم اور علماء عضام!
ملّت کی لڑکیوں کو اس فتنہ سے بچائیے ۔ اپنی نسلوں کے ایمان کی حفاظت کا سامان کیجئے – والدین کو سمجھائیں، گشت کریں۔امام مسجد محلے کی خبر رکھیں۔
رخ بدلتے دیر نہیں لگتی۔
لیجیے اب ارتداد اور مذہب پریورتن کے ساتھ کی شادی کے چند مہینوں بعد ہی محبت کی برف پگھلنے لگی، بھرم ٹوٹاہیے۔اعتماد ختم ہو رہا ہے
۔ لڑکی کی انکھ سے عشق کی پٹی اتر رہی ہے۔غیر مسلم شوہر نشہ کررہا ہیے، شراب پی کر آتا ہیے۔خوب گالی گلوچ اور آپ کے مذہب اور ماں باپ کی توہین کرتا ہیے۔خوب مار پیٹ کر تاہیے۔ جنسی مراحل میں جانوروں سا سلوک اور تشددکرتاہے۔آپ کے والدین نے ملاقات بند رکھی ہیے۔لڑکی کی بغاوت اور سرکشی سے رشتہ داروں، اور سماج کے دروازے اس پربندہوگئے ہیں۔اس وجہ سےغیر مسلم شوہر اور دلیر ہو گیا ہیے۔اب تنہا اس عذابِ کو بھگتنا ہیے۔
اب پچھتائے کا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت
کچھ خبریں تو ایسی بھی مل رہی ہیں کہ اب دوست اور ساتھی بھی رات گھر پر رکنے لگے ہیں-پہلے بے ہودہ مذاق،چھیڑ چھاڑ، پھرچھونا اور موقع کی تاک میں جنسی استحصالExploitation۔سب کشتیاں جلا کر جانے والی لڑکی اب بے بس ہے۔اپنا دکھڑا کس کو سنا ئے۔کون اس جہنم سے نکالے؟
اسلام کے سائے تلے عصمت محفوظ تھی، مسلمان لڑکا باوجود اس کے کہ کم پڑھا لکھا، معمولی روزگار سے تھا ،سادے گھر میں رہتا، ان برانڈیڈ چیزوں سے ضرورت پوری کرتا، لیکن دیوثیت اس میں نہ تھی ۔دینی حمیّت و غیرت اس کا آب دار جوہر تھی وہ اس کے لیے زمانے سے لڑجاتا پر عِصمت کا سودا نہ کرتا۔ مگر یہاں تو سر پر ترقّی، آزادی، مرضی، لذّتِ نفس اورماڈرن بنے کی ہوڑ سوار تھی جس کے نتیجے ظاہر ہونا شروع ہو گئے۔
عدل وانصاف فقط حشرپہ موقوف نہیں
زندگی خود بھی گناہوں کی سزا دیتی ہے
ارتداد سے واپسی ممکن ہیے،سچی توبہ واستغفار سے۔
"جو دین اسلام کو چھوڑکر دوسرے دین اختیار کرے اس کی سزا موت ہیے” ۔ان کے اعمال دنیا میں بھی اکارت گئے اور آخرت میں بھی ۔”جو مرتد ہوا اس کا نکاح خودبخود ٹوٹ جائے گا ۔اور اگر اسی حالت میں مرگیا تو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کرنے کی اجازت نہ ہو گی اور نہ ہی اس کی نماز جنازہ ہو گی-” (بحرالرائق324/2)
نہ خداہی ملا نہ وصال صنم
مسلم لڑکیاں اپنی زندگی کو اس طرح ضائع نہ کریں۔اپنے ایمان اور مذہب اورآخرت کو داؤپر نہ لگائیں ۔والدین کو دھوکا نہ دیں۔ بھائیوں کی گردن جھکانے، سماج کو ہنسنے اور باطل طاقتوں اور اسلام مخالف قانون بنانے والوں کو اپنی جیت اورخوش ہونے کاموقع نہ دیں۔
تدارک کی تدابیر
(1)سماج میں نکاح کو آسان سے آسان بنائیے-نکاح کی مجلس مساجد میں منعقد کیجیے۔ اچّھے رشتوں کے انتخاب کے لیے مشاورتی سینٹر اورفیمیلی کونسلنگ سینٹرس (خاندانی مفاہمتی مراکز)مسجد ،مدارس اور جماعتوں وتنظیموں کے دفاتر میں قائم کیجیے۔
(2)جہز کی لعنت ، شادی کے اسراف اور غیر ضروری پابندیوں ،غلط رسم ورواج کو ختم کیجیے۔(3)لڑکیاں/لڑکے بالغ ہوتے ہی ان کے نکاح کی فکر کیجیے ،یا کم ازکم ان کے رشتے طے کر دیجیے- یاد رکھیے آج کے جنس ذدہ اور ہجان انگیز ماحول میں انٹرنیٹ کے ذریعے فحش چیزوں تک رسائی آسانی سے ہو جاتی ہے جو نوجونوں میں جنسی ہیجان انگیزی پیداکردیتا اور برائی کے دروازے کھول دیتاہے اس سے محفوظ رہنے کے لیے وقت پر نکاح موثر علاج ہے۔جو والدین کیریئر بنانے اور جاب میں پرمننٹ ہونے کا انتظار کرتے ہیں تب تک بالغوں کی عمریں نکل جاتی ہے ۔
(4)بچپن ہی سے ایمان اور گہرا یقین اقر آخرت کا خوف پیدا کرائیے۔گھر اور اسکول میں اسلامی ماحول فراہم کیجیے- اپنے بچوں کے لیے اچھا نمونہ پیش کیجیے-
(5)نمازوں کی پابندی کی ترغیب دیجیے-(بے شک نماز فحش اور برُے کاموں سے روکتی ہے)- فرض روزوں کے ساتھ نفل روزے ہجان انگیز ماحول میں شہوت اور غلط کاریوں سے روکنے کا ذریعہ بنتے ہیں ۔
(6)تلاوت قرآن، ترجمہ قرآن کا نسخہ ،احادیث اورنبی کریم صلی الله عليه وسلم کی سیرت مبارکہ، کچھ اسلامی لٹریچر ،آداب زندگی,دستور زندگی،تعلیم الاسلام ہر گھر میں موجود رہے۔اذکار، تقویٰ، مسنون دعاؤں سے اپنے بچّوں کی تربیت کیجیے-
(7)اگر شیطا ن تمہیں کچوکے لگائے تو الله کی پناہ مانگیے-شیطان کے چیلے ،فسطائیت کے علمبردار، اسلام کےدشمن مختلف بہانوں سے تاک لگائے ہوتے ہیں ان کے دام فریب میں پھنسنے سے بچنے کی ہمہ وقت کوشش کرتے رہنا اور الله سے پناہ ومدد چاہنا ضروری ہیے۔
(8)اپنی نوجوان نسل کو دینی جماعتوں،تنظیموں، اداروں اجتماعات اورد ینی تعلیم و تربیت کے مراکزسے جوڑے رکھیے۔ طلبہ کے لیے اسٹوڈنٹس اسلامک آرگنائزیشن آف انڈیا Sio کی شاخیں ملک کے بیشتر مقامات پر ہیں ۔اسی طرح کی بہت سی اسلامی انجمنیں بھی فعال ہیں ۔ کالج میں تعلیم حاصل کرنے والی لڑکیاں گرلزاسلامک آرگنائزیشن آف انڈیا (GIO) سے جڑ کر اپنی دینی تعلیم وتربیت اور نیک طالبات سے دوستی کرسکتی ہیں -گلی محلے کی سطح پر دینی اجتماعات اور نشستوں سے جڑنا تزکیہ نفس اوراصلاح ذات میں مددگار ثابت ہوگا ۔انشااللہ
(9)معاشرتی فیمیلی کونسلنگ اور مشاورت سے اپنے مسائل کے حل کے لیےمدد لیجیے-
معاشرے کی عملی اصلاح کی طرف پورا سماج مل جل کربھر پور توجّہ دےتو مسائل حل ہوں گے
۔(10) نوخیز نسل کے دو ستوں پر نظر رکھیے۔
صحبت صالح ترا صالح کنند
صحبت طا لع ترا طا لع کنند
بُری سنگت اور ،سہیلیوں پر نظر رکھیے۔ دیر گئے آنے جانے پر پوچھ گچھ کیجیے۔ضروری ہو تو والدین ساتھ جائیں-
"ایمان والوں کا حامی وناصر الله ہےاور کافروں کا حامی و ناصر کوئی نہیں” –
کون ہے جو دکھی دل کی دُعا سنتا ہے؟کہو الله! میرا رب*
از:عبدالعظیم رحمانی ملکاپوری (صدرمدرس) گوونڈی،ممبئ
9224599910
abdulazimmku@gmail. i