تحریر: ڈاکٹر محمد اسلم علیگ
چھ روزے پورے ہوئے. لاک ڈاؤن کی وجہ سے ہفتہ اور دن کا پتہ ہی نہیں چل رہا ہے. کب سنڈے کب منڈے کچھ خبر نہیں.
ہر رمضان سے پہلے بڑے نسخے آتے تھے اس سال نہیں آئے. جیسے سحری میں فلاں چیز کھا پی لیں دن میں بھوک پیاس کا احساس نہیں ہوگا.
دوسری گفتگو کا موضوع ہوتا تھا آٹھ رکعتیں یا بیس.
تیسری شبینہ تراویح. تین دن میں قرآن ختم پھر پورے رمضان فرصت. اس کے بعد تراویح کے وقت مارکیٹ کی زینت.(شبینہ تراویح کا رواج شہروں میں ہے)
اس سال چونکہ تراویح مسجد یا میدان یا کسی گلی و محلہ میں نہیں ہورہی ہے اس لیے آٹھ اور بیس پہ تحریریں کچھ خاص نہیں آئیں. شبینہ کا بھی آپشن نہیں ہے بلکہ حفاظ تو بہت سارے مشوروں اور فرمان سے بچ گئے ہیں کہ…..
"حافظ جی! رفتار تھوڑی بڑھادیں، قعدہ کی مقدار میں اضافہ کردیں، سدیس کے لہجہ میں پڑھائیں، ایک گھنٹے کے اندر اندر ختم کردیں، باآوازِ بلند تلاوت کریں، مسجد والوں ہی کو سنانا ہے آہستہ پڑھیں وغیرہ”
مارکیٹ کے تعلق سے ایک میسیج خوب آرہا ہے کہ عید کی خریداری نہ کریں کیونکہ یہ بنیا اور مارواڑی سامان بناتے ہیں. مسلمانوں کو بیچ کر پیسے کماتے ہیں اور سبزیاں خریدنے کی بات آتی ہے تو کہتے ہیں مسلم سبزی فروش سے سبزی نہ لینا.
عید کی خریداری والے میسیجز پڑھ کر مجھے احساس ہوتا ہے کہ انگور کھٹے والی کہاوت اس پہ صادق آتی ہے. ارے بھائی جب پیسے ہی نہیں ہیں تو خریداری کہاں سے کریں گے…؟
ان میسیجز میں ایک بات کہی جاتی ہے کہ مارواڑی بیچ کے ہم سے منافعہ کماتا ہے.
اللہ کے رسول صل اللہ علیہ وسلم نے تجارت کی ہے اور تجارت کو پسند کرتے تھے. آپ نے فرمایا دینے والا ہاتھ لینے والے ہاتھ سے بہتر ہے. لیکن ہمارے علماء جمعہ میں خطاب فرمائیں گے تو یہ بتائیں گے کہ اللہ کے رسول چٹنی روٹی کھاتے تھے اور پیوند لگے کپڑے پہنتے تھے اور چمچماتا کرتا پاجامہ نیل چڑھا ہوا پہن کر خطاب کررہے ہونگے. بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ تجارت پہ گفتگو کریں اور مسلمانوں کو رہنمائی کریں کہ تجارت کیا چیز ہے…
مسلمانوں کو تراویح میں رکعتیں، آمین بالجہر یا آمین بالسر، رفع الیدین کرنا ہے یا نہیں کرنا ہے، دیوبندی ہو یا بریلوی یا کوئی اور مسلک..؟ ان جیسے نہ جانے کتنے مسائل ہیں جن پہ سالہا سال سے اچھی خاصی اینرجی لگائی جارہی ہے اور کتابوں پہ کتابیں لکھی اور چھاپی جا رہی ہیں. لیکن بہت کم لوگوں کو توفیق ہوئی کہ وہ اس بات پہ بھی لب کشائی کریں کہ دینے والا ہاتھ کیسے بنیں…؟
مارواڑی کی دوکان سے ہم اور آپ کب تک نہیں خریدیں گے. ایک ماہ دو ماہ پھر تو خریدیں گے. کیون نہ اس پہ گفتگو ہو ہم خود اس میدان میں آگے. آئیں. تعلیم اور تجارت میں اپنا لوہا منوائیں. لو لو کا اس ملک میں صرف ایک مال ہے وہ بھی کوچی کیرالا میں. باقی سارے مال جی سی سی (عرب ممالک) میں ہیں. وہ بھی ایک مسلم تاجر ہیں. اس مہاماری میں کروڑوں روپے کی مدد کی ہے انہوں نے. اس مثال سے اشارہ یہ ہے کہ اگر ہم تجارت کریں تو صرف یہی ملک اسکی مارکیٹ نہیں ہے پوری دنیا ہے. آج بنگلہ دیش کافی تیزی سے ترقی کررہا ہے. ہندوستان پاکستان کے خلاف لاکھ چلانے لیکن بہت ساری چیزیں پاکستان سے ہندوستان امپورٹ کرتا ہے.
چھوٹے پیمانہ پہ تجارت کرنے پہ بے شمار مسائل ہوتے ہیں. لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ ان مسائل کا حل نہیں ہے. گورنمنٹ اور گورنمنٹ کے علاوہ بے شمار. لوگ ہیں جو تجارت میں رہنمائی کرتے ہیں. شرط ہے کہ ہم تجارت کرنے کے لیے تیار تو ہوں.
تجارت شروع کرنے لئے عام طور سے یہ کہا جاتا ہے کہ سب سے مسئلہ پیسے کا ہوتا ہے حالانکہ قاسم. علی شاہ کہتے ہیں کہ تجارت کے لئے سب اہم دو باتیں ہیں. نمبر ایک آئیڈیا نمبر دو عزم. وحوصلہ.
دوسرے کچا مال کہاں سے لیا جائے اور اس کو کم سے کم دام میں کیسے حاصل کیا جائے. اس کے بعد کا مرحلہ ہے کہ مال کہاں بیچا جائے. یہاں اب وہ مرحلہ آتا ہے کہ جو لوگ پیغام پہ پیغام دے رہے ہیں کہ مارواڑی سے نہ خریدیں وہ یہ مہم چلائیں کہ معاشی لحاظ سے مسلمانوں کو کیسے فائدہ پہنچایا جائے….. کسی بھی میدان میں مال بنانے میں اہم کردار مسلم مزدوروں کا ہی ہوتا ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ اصل ملائی مارواڑی کھاتا ہے.
جاری۔۔۔۔