ہندوستان میں لاک ڈاؤن کا 40 روزہ چلہ

تحریر: محمد ظفر نوری ازہری
آج پورے ملک میں لوک ڈاؤن کے ۲١ دن مکمل ہو گئے ہیں اور مزید ١۹ دن اور بڑھا دیئے گئے   ہیں یعنی چالیس دن کا مکمل ایک چلہ ہوجائےگااور ابھی پتہ نہیں کہ  یہ سلسلہ کب تک چلے گا؟! لاک ڈاؤن کی وجہ سے سب لوگ اپنے اپنے گھروں میں ہیں آفس، فیکٹری،دوست احباب،رشتےدار،دعوت، پارٹی،سیرو تفریح ،جلسے جلوس سب ختم ہو گئے ہیں اور "سوشل ڈسٹینگ” کی وجہ سے سب نے ایک دوسرے کاساتھ چھوڑدیا ہے گھروں میں کورنٹائین ہو گئےہیں اب تو بس ہم ہیں اور گھر کی چار دیواری ہے، خلوت اور تنہائی ہے اور کہا جارہا ہے اگر کورونا کو ڈاؤن کرنا چاہتے ہو تو اپنے آپ کو گھروں میں لاک کرلو اس کی وجہ سے کورونا اٹو میٹیکلی ڈاؤن ہوجائےگا! 
 لاک ڈاؤن کی وجہ سے ایک طرح ہمارا سب کے ساتھ  تعلق ختم سا ہو گیا ہے لاک ڈاؤن نے ہمیں تنہا کردیا ہے اگر ہم چاہیں تو اس لاک ڈاؤن کی تنہائی سے بہت کچھ حاصل کرسکتے ہیں اور اپنے رشتے کو اپنے مولی سے مضبوط کرسکتے ہیں جس کا درس ہمیں انبیاء کرام اولیاء عظام  اور صوفیاء صالحین کی زندگیوں سے ملتا ہے آج ہم آپ کے ساتھ "خلوت” "گوشہ نشینی” "تنہائی” کی کیا اہمیت ہے ہم اس کو شیئر کریں گے تو بس اس تنہائی میں  ابھی تھوڑی دیر ہم سے جوڑ جائیں!
  قارئین کرام! 
خلوت اور تنہائی کی بڑی اہمیت ہے خلوت میں  آدمی جلوت کے  بہت سے گناہوں سے دور ہوجاتاہے اور اللہ سے قریب ہوجاتا ہے ہمیں پچھلی امتوں میں رہبانیت کا کانسیپٹ ملتاہے جس میں ایک راہب دنیا سے دور ہوکر الگ تھلگ کسی جنگل ویران میں بیٹھ کر اللہ اللہ کر کے اپنے مولی کو راضی کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے پھرجب اللہ تعالی اپنے بندےسے راضی ہوجاتاہے اس پر رحمت خدا بندی بھی ساون بھادوں کی طرح برستی ہیں اس کی چند مثالیں پش خدمت ہیں!
 (1)حضرت موسی علیہ السلام نے چالیس دن اور رات  سب سے الگ تھلگ تنہائی میں اپنے رب کے ساتھ "کوہ طور” پر عبادت میں گزارے کسی سے بات تک نہیں کی (تفسر خازن) جس کا ذکر اللہ نے اپنے مقدس کلام میں اس طرح فرمایا "وَإِذْ وَاعَدْنَا مُوسَىٰ أَرْبَعِينَ لَيْلَةً”(سورہ بقرہ ٥١) ترجمہ: ” اور یاد کرو! جب ہم نے موسی (علیہ السلام)سے چالیس راتوں کا وعدہ فرمایا ” اسی خلوت نشینی کا انعام بارگاہ الہی اس طور پر ملا کہ اللہ تعالی نے آپ کو اپنے کلام سے مشرف فرمایا اور آپکی امت کو توریت شریف کا تحفہ بھی عطا فرمایا۔

(2)حضرت مریم رضی اللہ عنہا نےجب بیت المقدس کے ایک حجرے میں اپنے اپ کو اللہ کی عبادت کے لئیے تنہا کرلیا جس کو اللہ نے اپنے کلام میں یوں فرمایا”وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ مَرْيَمَ إِذِ انتَبَذَتْ مِنْ أَهْلِهَا مَكَانًا شَرْقِيًّا”(سورہ مریم16) ترجمہ: "اور کتاب میں مریم کو یاد کرو جب اپنے گھر والوں سے پورب کی طرف ایک جگہ الگ ہو گئیں”تو اللہ تعالی نے انہیں بے موسم کے پھل عطا فرمائے اس کو بھی قرآن نےبیان فرمایا "كُلَّمَا دَخَلَ عَلَيْهَا زَكَرِيَّا الْمِحْرَابَ وَجَدَ عِندَهَا رِزْقًا ۖ قَالَ يَا مَرْيَمُ أَنَّىٰ لَكِ هَٰذَا ۖ قَالَتْ هُوَ مِنْ عِندِ اللَّهِ ۖ إِنَّ اللَّهَ يَرْزُقُ مَن يَشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ” (سورہ ال عمران37) ترجمہ:  جب بھی حضرت زکریا علیہ السلام ان کے پاس انکی عبادت کے حجرے میں آتے تو ان کے پاس تازہ رزق (بے موسم کے پھل) پایاانہوں نے کہا اے مریم ! تمہارے پاس یہ رزق کہاں سے آیا ؟ مریم نے کہا یہ رزق اللہ کے پاس سے آیا بے شک اللہ جسے چاہتا ہے بے حساب رزق عطا فرماتا ہے” 
 (3)نزول قرآن سے پہلے ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم بھی تنہا رہتے کئی کئی مہینے غار حراء میں اپنے اپ کو آئیسولیٹ کرلیتے اور وہیں اللہ کی عبادت فر ماتے پھر کیا تھا اللہ کی رحمت جوش میں آئی رمضان کے مقدس مہینے میں  حضرت جبریل علیہ السلام قرآن شریف کی پہلی پانچ آیتیں لیکر تشریف لائے  اس طرح قرآن شریف کا نزول شروع ہوا جو ۲٣ سال تک چلتا رہا(بخاری شریف )
  جو اللہ کی عبادت کے لئے گوشہ نشیں ہوجائے اس کی عظمت کا اندازہ اس بات سے بھی لگا سکتے ہیں کہ جو گوش

ہ نشیں کی خدمت کرے اللہ اس کے درجے کس طرح بلند فرماتا ہے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہاکو  "کوئین آف دی عرب” کہاجاتا تھا آپکی لائف آف اسٹائل بہت لگزری تھی مگر اسلام قبول کر نے کےبعد آپ نے اپنی سب دولت اسلام اور مسلمانوں پر لٹادی پھر گھر کا صاف صفائی بھی خود ہی کرتیں اور اپنے ہاتھوں سے کھانا پکا کر ٹفن تیار کر کے حضور کے لیے غار حراء لیجاتی تھیں جو مکہ سے تقریبا تین میل کے فاصلے پر ہے حضرت خدیجہ کی اس  خدمت پر اللہ تعالی نے ان پر ایسا کرم فرمایا کہ حضرت جبریل علیہ السلام کو حضور کی بارگاہ میں بھیجا اور فرمایا میرے حبیب سے کہنا کہ ہم خدیجہ سے راضی ہیں اور ہمارا سلام خدیجہ کو کہنا حضرت جبریل علیہ السلام حضور کی بارگاہ میں تشریف لائے اور اللہ کا پیغام حضور تک پہونچایا اور ساتھ یہ بھی کہا اللہ کے سلام کے ساتھ میرا بھی سلام خدیجہ کو کہہ دینا (بخاری شریف)گوشہ نشین پر تو اللہ اپنا فضلِ خاص  فرماتاہی ہے جو ان کی خدمت کرے ان پر بھی اللہ کے فضل کی بارش جھوم کے برستی ہے

 (4)اسلام کے نظام میں عبادت میں "اعتکاف” بھی ہمیں یہ درس دیتا ہے کہ اللہ کی رضا کے لیے کچھ دن اپنے آپ کو دنیا کے جھمیلوں سے الگ کرکے مسجدوں میں لاک ڈاؤن ہوجاؤ اور اپنا پورا وقت اپنے مولی کی یاد ،تسبیح و تہلیل،ذکر و اذکار،اوراد و وظائف  اور عبادت وغیرہ میں گزارو  اور یہ اعتکاف امت محمدیہ کے علاوہ پچھلی امتوں میں بھی تھا(عمدۃ القاری)
 (5)حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا! نجات کا ذریعہ کیا ہے؟تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "اپنی زبان کو قابو میں رکھو اور اپنے گھر میں رہو اور اپنی غلطیوں پر رویا کرو”(ترمذی کتاب الزہد باب ماجاء فی حفظ اللسان)
اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں” بلا ضرورت گھر سے باہر نہ جاؤ,لوگوں کے پاس بلا وجہ نہ جاؤ, گھر سے نہ گھبراؤ,اپنے گھر کی خلوت کو غنیمت جانو کہ اس میں سنکڑوں آفتوں سے امان ہے”(مرأۃالمناجیح جلد ٦)
(6)حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے فرمایا "ہمنشینی سے گوشہ نشینی میں راحت اور سکون ہے”(ماہنامہ دختران اسلام جولائی ۲۰١٦)
 مذکورہ بالا باتوں سے پتہ چلا کہ خلوت نشینی جب اللہ کے لیے ہو تو اس کے بہت فائدے ہیں اور خلوت نشین پر  اللہ کی رحمت رم جھم  برستی ہے اس لئے لاک ڈاؤن کے فرصت بھرے لمحات اپنے گھروں پر ہی  اپنے رب کے ساتھ گزار نے کی کوشش کریں جب دل چاہے کی اللہ کی باتیں سنیں تو قرآن شریف کی تلاوت شروع کردیں اور جب دل چاہے اپنے دل کی دکھ بھری داستان اپنے رب کو سنائیں تو نماز پڑھنا شروع کردیں اس طرح   روزانہ کچھ دیر ہی سہی اپنے رب کے حضور گزاریں ایسا کریں گےپھر دیکھنا آپ  کو دلی سکون محسوس ہونے لگےگا  ان شاء اللہ تعالی ۔
  اب جو لوگ گوشہ نشینی اختیار کرنا چاہتے ہیں وہ اتنا اور جان لیں کہ عربی میں تنہائی کو عُزْلَۃٌ کہتے ہیں ، عارفین فرماتے ہیں کہ عُزْلَۃ میں اگر علم کا  ’’عین ‘‘ نہ ہو تو ذلت ہے اور اگر زُہد کی‏ ’’ ز ‘‘  نہ ہو تو نری علت ہے یعنی خلوت وہ اختیار کرے جس کے پاس علم بھی ہو زُہد بھی۔ ‘‘(مرأۃ المناجیح جلد ٦)اور ہمارے اعلی حضرت رضی اللہ عنہ سے جب خلوت نشینی کے متعلق سوال ہوا تو آ پ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  نے ارشاد فرمایا: ’’ آدمی تین قسم کے ہیں : (۱) مُفِیْد (۲) مُسْتَفِیْد (۳) مُنْفَرِد۔ مفید وہ کہ دوسروں کو فائدہ پہنچائے،  مستفیدوہ کہ خود دوسرے سے فائدہ حاصل کرے،  منفرد وہ  ہے جو  دوسرے سے فائدہ لینے کی اسے حاجت نہ ہو اور نہ ہی دوسرے کو فائدہ پہنچاسکتا ہو۔ مفید اور‏مستفید کو عزلت گز ینی (یعنی خلوت)حرام ہے اور منفرد کو جائز بلکہ واجب۔ ‘‘ (ملفوظات اعلی حضرت)
          المختصر بس یہی ہے لوک ڈاؤن کے فرصت بھرے لمحات کو اس طرح گزاریں جس سے ہماری دنیا اور آخرت دونوں سنور جائے۔
اللہ تعالی ہم سب کو دارین کی سعادتوں سے مالا مال فرمائے۔ آمین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے