قربانی؛ سنت ابراہیمی

تحریر: محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
9431003131
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

اسلامی شریعت وتاریخ میں حضرت ابراہیم نبینا علیہ الصلوٰۃ والسلام کو خصوصی اہمیت حاصل ہے، بلکہ کہنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کا طریقہ جو بعض کو بعض پر فضیلت دینے کا ہے، اس میں آقا صلی اللہ علیہ وسلم سب نبیوں کے سردار اور خاتم النبین ہیں، ان کے مقام ومرتبہ کو تمام انبیاء اپنی عظمت کے باوجود نہیں پہونچ سکتے، آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جس نبی کو فضیلت دی گئی وہ حضرت ابراہیم نبینا علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ذات گرامی ہے، یہ اہمیت وفضیلت اس قدر بڑھی ہوئی ہے کہ ایک درود شریف ہی درود ابراہیمی کے نام سے منسوب ہے اور اس میں آقا صلی اللہ علیہ وسلم پر درود اور برکت کی دعا میں حضرت ابراہیم کا ذکر خاص طور پر مذکور ہے، اس کے علاوہ کسی انبیاء کے عمل کو امت محمدیہ کے لیے سنت نہیں قرار دیا گیا ، لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام کے عمل کو ہی نہیں ان کی زوجہ مطہرہ کے عمل کو بھی اسوۃ اور نمونہ بنادیا گیا، حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دین کی خاطر اپنا علاقہ، گھر ، در ، والدین کو چھوڑا اور دوسرے علاقہ میں پناہ لیا تو ’’ہجرت‘‘ دین کی حفاظت کے لیے امت محمدیہ کے لیے بھی مشروع قرار دی گئی ، حضرت ابراہیم نے وادیء غیر ذی زرع میں اللہ کے حکم سے اپنی اہلیہ اور بچے کو چھوڑا، تو دین کی خاطر اس کی بھی اہمیت بیان کی گئی، حضرت ہاجرہ نے پانی کی تلاش میں صفاء مروہ کے چکر لگائے تو عمرہ اور حج کی سعی اس کی یاد گار قرار پائی، بچے کے نظر سے اوجھل ہونے پر حضرت ہاجرہ کی بے قراری اور دوڑ کر اس راستے کو عبور کرنااور اس وقت تک دوڑتے رہنا جب تک بچہ پھر سے نظر نہ آنے لگے، میلین اخضرین کی دوڑ اسی کی تو یاد گار ہے، یہ دوڑ حضرت ہاجرہ کی قیامت تک تمام عورتوں کے لیے کافی ہو گئی ، اس لیے اب انہیں اس جگہ دوڑ نہیں لگانی ہے، مردوں کو لگانی ہے، تاکہ وہ بھی محسوس کریں کہ بچے کی جدائی کا کرب کیسا ہوتا ہے، پھر حضرت اسماعیل علیہ السلام کو اللہ کے حکم سے قربانی کے لیے لے جاتے وقت شیطان کا بھٹکانے کی کوشش کرنا اور اس کو بھگانے کے لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام کا کنکریاں مارنا تاریخ میں مذکور ہے، رمی جمار حج کے موقع سے اسی کی یاد گار ہے، تمام تر شفقت ومحبت کے باوجود اللہ کے حکم پر سِن شعور کو پہونچ رہے بچے کو قربانی کے لیے لٹا کر گردن پر چھری چلا دینا حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ہی دل گردے کا کام ہے، حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اس امت پر یہ بھی احسان ہے کہ انہوں نے ہی اس امت کا نام مسلمان رکھا، اسی لیے آقا صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام کے اس استفسار پر کہ قربانی کیا ہے؟ ارشاد فرمایا: حضرت ابراہیم ؑ کی سنت ہے، انہوں نے ہی تمہارا نام مسلمان رکھا۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پوری زندگی قربانی سے عبارت ہے، حضرت اسماعیل کی قربانی پیش کرنا تواس قربانی کا نقطۂ عروج ہے، ہم صرف جانور کی قربانی پیش کرکے مطمئن ہوجاتے ہیں، ایسانہیں ہے ، قربانی ہر طرح کی پیش کرنے کی ضرورت ہے اور جس طرح حضرت ابراہیم کو اس کے ذریعہ آزمایا گیا، اسی طرح امت مسلمہ آج بھی آزمائش میں مبتلا ہے، یہ آزمائشیں جان ومال ، فصل وتجارت ، پھل وباغات کے ضیاع اور خوف کے ذریعہ ہم پر مسلط ہے، احوال حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دور کی طرح ہیں تو اعمال اور قربانی بھی اسی انداز کی پیش کرنی ہوگی، ورنہ ہندوستان میں خصوصا دین وشریعت کے حوالہ سے مسلمانوں کو اور بھی ظلم وجور کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
جانوروں کی قربانی ہمارے اندر ہر طرح کی قربانی کا مزاج پیدا کرتا ہے ، اسی لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ قربانی کے ایام میں جانوروں کی قربانی سے زیادہ اللہ کے نزدیک کچھ بھی محبوب نہیں ہے، حالاں کہ یہ بھی یقینی ہے کہ اللہ رب العزت کے نزدیک جانوروں کے گوشت ، پوست کی کوئی اہمیت نہیں ہے اور وہ اس کے پاس پہونچتا بھی نہیں ہے، اصل چیز نیتوں کا خلوص اور دل کے احوال ہیں، نیت خالص اللہ کی رضا کی ہو، نمود ونمائش کی کوئی بات نہ ہو تو یہ قربانی دیگر چیزوں کی قربانی پر انسان کو آمادہ کرتا ہے اور تقویٰ کی کیفیت سے انسان سرشار ہوجاتا ہے، تقویٰ کی یہ کیفیت انسانی زندگی کو بیلنس ، معتدل اور متوازن کرتی ہے، یہ قربانی کا فلسلفہ اور حکمت ہے۔
اخروی اعتبار سے دیکھیں تو قربانی کے جانور کے ہر بال پر ایک نیکی ملتی ہے، جانور کے بالوں کو جس طرح گننا ممکن نہیں ، اسی طرح قربانی کے اجر وثواب کو کلکولیٹر سے شمار نہیں کیا جا سکتا ، یہ تو ہماری سمجھ کے لیے کہا گیا ہے، لیکن مراد یہی ہے کہ بے شمار اجر وثواب اس قربانی کے نتیجے میں حاصل ہوتا ہے، دوسرا اخروی فائدہ یہ بھی ہے کہ یہ پل صراط پر ہماری سواری کے کام آئیں گے، اسی لیے حکم دیا گیا کہ صحت مند اور توانا جانور کی قربانی کی جائے، ایسے لاغر ، بیمار اور عیب دار جانورکی قربانی نہ دی جائے جو مذبح تک چل کر نہ جا سکتا ہو اور جسے عرف میں عیب دار سمجھا جاتا ہو، اسکا مطلب یہ ہے کہ قربانی میں جانور کا انتخاب سوچ سمجھ کر کیا جائے اور غیر مسلموں کی طرح ’’سڑل گائے بابھن کودان ‘‘ کے فارمولے پر عمل نہ کیا جائے، اللہ رب العزت نے محبوب اور پسندیدہ چیزوں کے خرچ پر بھلائی تک پہونچنے کی بات کہی ہے ، ظاہر ہے لاغر، کمزور، عیب دار چیز تو انسان کی پسند ہی نہیں ہوتی اس لیے ایسے جانور کی قربانی کس طرح دی جا سکتی ہے ۔
جانور سے محبت ہوجائے ، اس لیے اس کے پوسنے پالنے اور اس کا خیال رکھنے کی بھی ضرورت ہے، اس محبت کی قربانی کے لیے ہی اس بات کو بہتر سمجھا گیا کہ ہر ممکن اپنے ہاتھ سے جانور ذبح کیا جائے، تاکہ ان احساسات کی بھی قربانی ہو جائے جو جانور کی محبت کے نتیجے میں گذشتہ چند دنوں میں پیدا ہوئے تھے صرف اللہ کی محبت قلب وجگر میں جاگزیں رہے، اگر خود سے ذبح نہیں کر سکتا ہوتو کم سے کم وہاں پر موجود رہے، تاکہ جانور کو قربان ہوتے ہوئے دیکھے۔
جانور کی یہ قربانی اللہ کے نام سے اللہ کی رضا کے لیے ہوتی ہے، ہمارے یہاں یہ جو مشہور ہے کہ قربانی کس کے نام سے ہوگی، صحیح نہیں ہے، قربانی تو سب اللہ کے لیے اللہ کے نام سے ہوگی، اسی لیے جو دعا پڑھی جاتی ہے اس میں اس شخص کی طرف سے قبولیت کی دعا کی جاتی ہے۔ اللھم تقبل ھذہ الاضحیۃ ۔ قربانی سے پہلے قرآن کریم کی ایک آیت پڑھی جاتی ہے، جس میں بندہ یہ اعلان کرتا ہے ، میری نمازیں، قربانیاں، حیات وموت سب اللہ کے لیے ہی ہیں۔
جانور ذبح کر دیا ، قربانی ہو گئی، حکم ہوا کہ گوشت کے تین حصے کرلو، ایک حصہ غرباء کو دو، ایک حصہ عزیز واقرباء کو اور ایک حصہ اپنے اہل خانہ کے لیے رکھ لو، تاکہ سب تمہاری قربانی سے فائدہ اٹھا سکیں، غربا ومساکین جو صاحب استطاعت نہیں ہیں، قربانی کے جانور نہیں خرید سکتے ان کو اپنی قربانی سے حصہ دو تاکہ وہ ایام تشریق میں اللہ کی میزبانی سے فائدہ اٹھا سکیں، اس معاملہ میں ہمارے یہاں بڑی کوتاہی پائی جاتی ہے، بڑے جانور کی قربانی میں تو گوشت غرباء تک پہونچ جاتا ہے ؛لیکن خصی کے گوشت میں ایمانداری سے تقسیم کا عمل نہیں ہوتا اور جب سے فِرج ہمارے گھروں میں آگیا ، بیش ترگوشت اسی میں ڈال دیا جاتا ہے؛ تاکہ دیر تک گھر والے کھائیں، کسی کا خاندان بہت بڑا ہو تو فتویٰ کی زبان میں اس کی گنجائش ہے، لیکن ایساکرنے سے یہ معلوم تو ہوہی جاتا ہے کہ جانور کی قربانی کے باوجود گوشت کی قربانی دینے کا مزاج نہیں بنا ورنہ گوشت کی تقسیم میں انصاف سے کام لیا جاتا ۔
گوشت کے بعد چمڑہ بچ جاتا ہے، یہ چمڑہ اگر بیچا گیا تو قیمت صدقہ کرنا ہے، غرباء ومساکین کا حق ہے، لیکن اگر آپ اسے خود استعمال کرنا چاہتے ہیں تو اس کی گنجائش ہے، البتہ اس کو دفن کر دینے کی بات سمجھ میں نہیں آتی کیوں کہ یہ مال کا ضیاع ہے، جب سے چمڑے کی قیمت کم ہو گئی ہے تب سے کئی گاؤں سے یہ خبر آ رہی ہے کہ قربانی کا چمڑہ دفن کیا جا رہا ہے، یہ صحیح نہیں ہے، جس قیمت پر بھی ہو اسے فروخت کرکے رقم مدارس کے غریب ونادار طلبہ یا سماج کے ضرورت مندوں تک پہونچا دینا چاہیے، جو صاحب استطاعت نہ ہوں، اگر یہ ممکن نہ ہو تواسے اپنے استعمال میں لے آئیں، دباغت کے بعد جائے نماز اور دوسری چیزیں اس سے بنا کر استعمال کی جاسکتی ہیں۔
قربانی کے جانور کے جو فضلات وباقیات ہیں اس کو راستوں کے کنارے ادھر ادھر نہ پھینکیں، اس سے فضائی آلودگی پیدا ہوتی ہے ، جو انسانوں کی صحت کے لیے مضر ہے، اس سے آپ بھی متاثر ہو سکتے ہیں، اس کے علاوہ راستوں کے بھی حقوق ہیں، ادھر اُدھر پھینکنے سے آنے جانے والوں کو تکلیف ہوتی ہے، اس لیے ان فضلات کو گڈھا کھود کر گاڑ دینا چاہیے تاکہ کتے اور دوسرے جانور اٹھا کر اِدھر ُادھر نہ لے جائیں، اور جو سرانڈ ہے، اس سے صحت متاثر نہ ہو۔ اس طرح آپ دیکھیں گے تو معلوم ہوگا کہ کہنے کو یہ ایک جانور کی قربانی ہے، لیکن اس ایک قربانی کو قربانی بنانے کے لیے کتنے اصول وہدایت کی پابندی ضروری ہے۔
ہمارے یہاں قربانی کے جانوروں کا گاؤں اور محلوں میں مقابلہ اور موازنہ شروع ہوتا ہے، اس سے نمود ونمائش اور ریا کاری کا کا جذبہ فروغ پاتا ہے، اس کی وجہ سے دل ودماغ کبر کی غلاظت سے آلودہ ہوتا ہے، اس آلودگی سے بچنے کے لیے عرفہ کے دن فجر کی نماز کے بعد سے تیرہ ذی الحجہ کی عصر تک تکبیر تشریق ہر نماز کے بعد کم از کم ایک بار پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے، مرد زور سے پڑھیں اور عورتیں دھیمی آواز میں، اس کے علاوہ عیدگاہ جاتے وقت تکبیر تشریق پڑھنا اور عید الاضحیٰ کی نماز میں چھ تکبیروں کے ذریعہ اللہ کی بڑائی کا اعلان کرنا ، اس بیماری کو کنٹرول کرنے میں انتہائی مفید ہے، آپ غور کریں گے تو معلوم ہوگا کہ تکبیر تشریق میں اللہ کی بڑائی کے علاوہ دوسرا کچھ نہیں ہے، اللہ کی بڑائی کا یہ خیال بندوں کو اپنی بڑائی کے خیال سے آزاد کر دیتا ہے، اور یہ اس شخص کے لیے ذاتی طور پر فائدہ مندتو ہے ہی سماج کے لیے ضروری ہے۔
عید الاضحی کے جو دس ایام ہیں ان کے فضائل بھی احادیث میں ہیں، ان کا خیال رکھیے، نو ذی الحجہ کا روزہ ہمارے دیار میں عرفہ کے روزہ کے نام سے منسوب ہے، یہ عوامی اصطلاح ہے، اسے حاجیوں کے یوم عرفہ سے کوئی تعلق نہیں ہے، اس لیے کہ حاجیوں کا عرفہ تو ایک دن قبل گذر چکا ہوتا ہے، اس دن کے روزہ کے فضائل بہت ہیں، البتہ یہ فرض واجب نہیں ہے، نفل اور مستحسن ہے، اس کو اسی درجہ میں رکھنا چاہیے اور جو لوگ نہیں رکھ رہے ہیں، ان کو ترغیب تو دے سکتے ہیں، لیکن نہ رکھنے پر انہیں بُرا بھلا نہیں کہنا چاہیے، شریعت میں عبادتوں کے بھی مدارج ہیں اور مدارج کی تعیین میں شریعت سے تجاوز کرنا درست نہیں ہے۔
عید الاضحی کے دس دن میں چاند دیکھے جانے کے بعد ان لوگوں کے لیے جن کی طرف سے قربانی ہونی ہے، بال، ناخن وغیرہ کا نہ تراشنا بہتر ہے، یہ حکم عام لوگوں کے لیے نہیں ہے، اسی طرح قربانی کے جانور کے گوشت سے اس دن کھانا شروع کرنا اچھی بات ہے، لیکن جو لوگ مریض ہیں ان کے لیے یہ حکم نہیں ہے، سماج میں جو بقرعید کے دن نماز کے پہلے روزہ کی بات عرف میں کہی جاتی ہے وہ اسی پس منظر میں ہے، صحیح بات یہ ہے کہ اس دن روزہ کا لفظ نماز سے پہلے کچھ نہ کھانے کے معنی میں ہے، اس کا اصطلاحی روزہ سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے