تحریر: مزمل حسین قاسمی کھائیکھڑہ
مولانا عبدالکریم پاریکھ مرحوم نے اپنی کتاب”گائے کا قاتل کون الزام کس پر؟ ؛؛ میں لکھتے ہیں کہ جب ونوبابھاوے نے 1977میں گئوکشی کے خلاف
مرن برت رکھا تھا تو مصنف ان سے ملنے گئے تھے اور انہیں اعداد و شمار کے ذریعہ سمجھا یا کہ ہندوستان میں گئوکشی کے ذمدار مسلمان ایک فیصد بھی نہیں بلکہ دوسرے لوگ ہیں گائے کا گوشت سکھ، بودھ، کرسچن، نیپالی، گورکھا، بن باسی، گونڈ، بھیل، ماڈیا، ہریجن، چمار،(دلت) اور پارسی، کھاتے ہیں شمال مشرقی ہندوستان کے علاوہ جنوبی ہندوستان کے ہندو بھی گائے کا گوشت کھاتے ہیں جس کی وجہ ڈراوڈ جماعت بھی اچاریہ کے مرن برت کےخلاف تھی اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سرکش والے چڑیا گھر والے (zoo) میں لوگ اپنے جانوروں مثلاً شیر چیتا کو گاۓ کا ہی گوشت کھلاتے ہیں چونکہ بکرے اور پولٹری کا گوشت انہیں مہنگا پڑتا ہے! ہندوستان سے باہر جو بیف اور گائے کی چربی ایکسپورٹ کرتے ہیں وہ ہندو خاص کر جین مذہب کو ماننے والے ہیں جو کیڑے مکوڑوں کو بھی مارنا پسند نہیں کرتے گویا گئوکشی کا مسئلہ دھرم کا نہیں بلکہ خوراک کا مسئلہ ہےجس سے پیٹ پوجا ہوتی ہے اور جہاں پیٹ پوجا کا سوال ہو وہاں بہت ساری پوجائیں پتلی گلی سے نکل لیتی ہیں! لوگوں کو اس گوشت کے ذریعہ سستے داموں میں مقوی غذا یعنی پروٹین مل جاتا ہے۔ اور اسکے علاوہ گجرات کے بہت سے علاقوں میں پولٹری فارم ہیں جہاں ہزاروں، لاکھوں، مرغیاں، انڈا، پولٹری کا گوشت کھانے کے لیے فروخت کرتے ہیں۔ جبکہ، انکے مالکان اپنے آپکو سخت(vegetarian) سبزی خور بتاتے ہیں سری سرت چندر چکروتی جو سوامی وویکانند کے قریبی شاگرد یعنی چیلا ہیں اپنی کتاب وویکانند کے ساتھ جسے رام کرشنا مٹھ پرکاش دھنولی نے شائع کیا ہے صفحہ 4تا7میں لکھا ہے کہ:کچھ سادھؤں، کا وفد وویکانند کے پاس آوارہ گایوں کی دیکھ بھال کے لیے آیا یعنی(گئوشالا کھولنے کے لیے انکے چندہ کے لیے آۓ) تو وویکانند جی نے کہا کہ: وسط ہند میں لوگ قحط سے مر رہے ہیں اور قصائی کے ہاتھوں لوگ گائے کو کیوں بیچ رہے ہیں؟ تو سادھوؤں نے جواب دیا قحط میں لوگ اپنے کرموں کی وجہ سے مررہے ہیں اور گائے بھی اپنے کرموں کی وجہ سے قصائی کے ہاتھوں بک رہی ہے۔ اس پر سوامی وویکانند نے وفد سے کہا کہ میں پہلے ان دان دونگا، پھر دھرم دان، اور ودیا دان کے بعد اگر کچھ بچے گا تو آپ لوگوں کی سمیتی کو دونگا مطلب انکے کہنے کا یہ تھا کہ:میں پہلے انسان کی جان بچاؤں گا اور انکے دھرم اور ودیا کی ترقی کی سوچوں گا پھر بعد میں گائے کے متعلق سوچا جاۓ گا، جو کہ حقیقت پر مبنی ہے یہاں یہ ذکر کرنا بھی ضروری ہوگا کہ بی جے پی ہمیشہ مسلمانوں کو گائے کے گوشت کھانے کا ذمہ دار ٹہراتے رہی ہے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کی آمد سے بہت پہلے ہی سے ہندوستان میں گائے کا گوشت کھانے کا رواج عام تھا۔ہندوستان کی قدیم کتابوں بالخصوص "ویدوں”میں یہ لکھا گیا ہے کہ آریائی قوم جانوروں کو ذبح کرکے گوشت کا استعمال کیا کرتی تھی۔ویداس میں تو اس سے بھی بڑی باتیں لکھی ہوئی ہیں جن کا تذکرہ یہاں طوالت کا سبب ہوگا اور بدھ ازم کے آنے سے قبل برہمنوں کی شناخت بھی جانوروں کے ذبح کرنے والوں کی حیثیت سے کی جاتی تھی۔ اصل تاریخ یہ بتاتی ہے کہ برہمنوں نے اپنی برتری بنائے رکھنے کے لئے بدھ مذہب کو ہندوستان سے بے دخل کردیااور خود کو وقت کے سانچے میں ڈھالنے کے لئے جانوروں کو ذبح کرنا ترک کردیا اور گائے کو کافی اہمیت دینی شروع کردی ۔باجود اس کے نچلی ذات کے ہندؤں نے گائے کے گوشت کا استعمال جاری رکھا۔آج مسلمانوں سے کہیں زیادہ اس کا استعمال دوسری ذاتوں کے لوگ کرتے ہیں ۔جہاں تک مسلمان حکمرانوں کے متعلق کہا گیا ہے کہ گائے کا گوشت کھانے کی بنیاد انہوں نے ڈالی تھی یہ بالکل غلط ہے ۔اس لئے کہ مغل بادشاہ بابر نے گائے کی قربانی ترک کرنے کی وصیت بھی کی تھی تاکہ ہندوؤں کے جذبات مجروح نہ ہوں جس پر اکبر۔جہانگیر نے بھی عمل کیا اور گائے ذبح کرنے کے لئے چند حدود مقرر کئے۔اس سے تو یہ ظاہر ہوگیا کہ گائے کا گوشت کھانے کی بنیاد مسلمان حکمرانوں نے نہیں ڈالی تھی۔اور کٹھمانڈو (نیپال کی راجدھانی) میں واقع کالی ماتا مندر ہے جس میں ہر سنیچر کو تہوار مناتے ہیں پہلے تو گائے کی پوجا ہوتی ہے پھر اسکے بعد گائے کے منہ پر پانی کے چھینٹے مارے جاتے ہیں اور جیسے ہی گائے سر ہلاتی ہے تو اس کو ہاں تعبیر نکالتے ہیں کہ وہ بلی کے لیے تیار ہے اسکے بعد، پجاری خود اس کو جھٹکا کے طریقہ سے مارتا ہے مندر کا پجاری گائے کا سر اپنے لیے رکھ لیتا ہےاور چمڑا اتارکر گائے کا گوشت دیوی کے بھگتوں کو پرساد کے طور پر دیا جاتا ہے جسے وہ اپنے ساتھ گھر لے جاتے ہیں اور ملنے جلنے والوں کو عقیدت کے ساتھ تحفے کے طور پر پیش کرتے ہیں ۔ جانور ذبح کرنے کا رواج پڑوسی ممالک بھوٹان، تبت،میانمار، میں بھی عام ہے مندروں میں بلی دینے کا رواج ابھی تک جاری ہے اور مسلمانوں کو ناحق”” گائے کا قاتل”” کہکر پکارا جاتا ہے اور فرقہ پرست لوگ گاؤکشی کو مذہبی رنگ دے کر سیاسی فائدہ اٹھا نے کی کوشش کرتے ہیں اس لئے جو بات اب تک ہمیں سمجھ میں آئی ہے کہ ہندو قوم کو اب گائے کو اپنی ماتا کہنا چھوڑدینا چاہئے آخر میں چند ایک سوال بھی گائے کو اپنی ماں کہنے والوں سے کرنا چاہتے ہیں۔۔۔۔ 1- گائے کو ماتا آپ کیسے کہ سکتے ہیں جس کا جنم آپ کی آنکھوں کے سامنے ہوتا ہے کیا ماں کا جنم بیٹے کے سامنے ہوتا ہے؟ 2-گائے اگر آپ کی ماں ہے تو آپ کی اصلی ماں اس کی بہن لگے گی اور اس لحاظ سے اصولا گائے کا بیٹا اپ کا بھائی بننا چاہئے لیکن یہاں تو گنگا ہی الٹی بہائی جاتی ہے سب گائے کو ماں کہتے ہیں اور آگے پیچھے کی رشتہ داریوں کو سگریٹ کے دھوئیں کی طرح ہوا میں اڑادیتے ہیں ۔۔۔ 3-بھائی چارے کے طور آپکی آستھا مان لیا جائے تو مسلمانو ں کی بھی تو آستھا، ہے مسلمانوں کی سب سے بڑی آستھا، توحید ہے تو شرک شرک چھوڑ دیجئے مندروں سے بتوں کو باہر لائیے