افسانہ: شب خوں

” جج صاحب میں یتیم ہوں۔ یہ میرے باپ کی زمین ہے اور گاؤں کے لوگ میری زمین کو ہڑپ کر عید گاہ تعمیر کرنا چاہتے ہیں” ساحل جج صاحب کے سامنے انصاف کی بھیک مانگ رہا تھا۔

” نہیں۔۔۔۔ جج صاحب، یہ جھوٹ بول رہا ہے۔ وہ زمین سرکاری ہے اور ہمیں وہاں عید گاہ تعمیر کرنے کا پورا حق ہے”۔ گاؤں کا مکھیا چودھری خضر اپنی آواز بلند کر کے بولا۔

” چودھری صاحب، زمین سرکاری ہے یا اس بچے کی، اس کا فیصلہ کرنے کے لیے میں بیٹھا ہوں۔ آپ اس معاملے میں اپنی دخل اندازی بند کریں تو بہتر رہے گا”۔۔ جج صاحب نے قدرے سخت انداز میں حکم دیا۔

پچیس سالہ ساحل دنیا میں قدم رکھتے ہی اپنے باپ کلیم الدین کے سائے سے محروم ہوا تھا۔ کلیم الدین نے اپنی زندگی کے آخری لمحات میں اپنی جمع پونجی سے لبِ سڑک ایک زمین کا ٹکڑا خرید لیا تھا اور اس کی موت کے فوراً بعد مکھیا چودھری خضر اس پر ناجائز طریقے سے قبضہ کر کے وہاں مسجد کے لیے دکانیں تعمیر کرنے کی ترکیب سوچنے لگا، جس میں وہ ناکام رہا۔ ساحل کی زمین پر کبھی قبرستان تو کبھی عید گاہ کا بورڈ چڑھا دیا گیا۔

مکھیا کے قریبی ساتھیوں میں وہی لوگ شامل تھے جنہوں نے ساری عمر سرکاری نوکری کر کے رشوت کی حرام کمائی سے اپنے اپنے گھروں کو آباد کیا تھا۔ نوکری سے سبکدوش ہوتے ہی انہوں نے مکھیا کے ساتھ مل کر گاؤں کے اہم فیصلے لینے شروع کیے۔ جس آدمی نے اپنی زندگی میں تیس پنتیس سال تک مسلسل رشوت کی کمائی سے اپنا اور اپنے خاندان کا پیٹ پالا ہو، اس کے فیصلے کس حد تک انصاف پر مبنی ہو سکتے ہیں، اس بات کا اندازہ ایک عام آدمی بخوبی لگا سکتا ہے۔

ساحل اور اس کی بیمار ماں کو مکھیا گینگ نے در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور کیا۔ مکھیا گینگ کے علاوہ گاؤں میں اسجد کی سرپرستی میں ایک اور گینگ سرگرم تھی۔ اسجد چند جواں سال لڑکوں کی مدد سے گاؤں کے لوگوں کو مذہب کے نام پر اکسانے کا کام بخوبی انجام دیتا رہا۔ اسجد ایک تعلیم یافتہ نوجوان تھا اور اس کا والد گاؤں میں ایک معزز شہری کی حیثیت رکھتا تھا۔ اسجد گاؤں میں ہمیشہ نت نئے فتنوں کو اجاگر کرنے کا کام سر انجام دیتا اور مذہب کے نام پر لوگوں کو بلیک میل کرنا اسجد گینگ کا ایک ہنر تھا۔

ساحل کی زمین کو لے کر اسجد گینگ نے لوگوں کو کافی اکسایا۔ انہوں نے ساحل کا جینا حرام کر دیا تھا۔ اسجد اور اس کے ساتھیوں سے تنگ آکر ساحل نے اسجد کے والد سے شکایت کرنے کا فیصلہ کیا۔ بے بس ساحل بوجھل قدموں کے ساتھ اسجد کے گھر پہنچ گیا۔ اسجد کے گھر کے حالات دیکھ کر ساحل چونک گیا۔ اس نے ایک کمرے میں اسجد کے والد، اس کی ماں اور بھائی کو زار و قطار روتے ہوئے دیکھا۔ وجہ دریافت کرنے پر پتا چلا کہ اسجد نے اپنے اہل خانہ کی خوب مار پیٹ کی تھی۔ اسجد نے اپنے بزرگ باپ کو بھی نہیں بخشا تھا۔

ساحل حیران و پریشان یہ اندازہ لگانے کی کوشش کر رہا ہے کہ جو اسجد لوگوں کو اپنے والدین کی عزت کرنے کی ترغیب دیتا ہے، جو ہمیشہ دین اسلام کی تعلیمات سے لوگوں کو روشناس کراتا ہے، جو گاؤں کے لوگوں کے لیے ایک کامل انسان کی حیثیت رکھتا ہے، بھلا اس قسم کا ایک خود غرض اور مردہ ضمیر انسان کیسے ہو سکتا ہے؟

ساحل اسجد کی اصل حقیقت سے آشنا ہو چکا تھا۔ دراصل اسجد سیاست میں اپنے قدم سنبھالنے کے لیے کوئی گہری چال چل رہا تھا۔ ساحل نے اسجد کا پردہ فاش کرنے کی بے انتہا کوشش کی لیکن اس کی باتوں کا مذاق اڑا دیا گیا۔ مذہب کے اس کھیل میں اسجد نے واقعی لوگوں کو اندھ بھگت بننے پر مجبور کیا تھا۔

ساحل نے وقت کے سیاست دانوں سے مدد طلب کی۔ سیاست دانوں کے لیے یہ ایک دلچسپ موضوع تھا۔ ایک طرف ساحل تن تنہا اپنے حق کی لڑائی لڑنے میں سر گرداں تھا اور دوسری جانب پورے گاؤں پر ساحل کی زمین پر عید گاہ تعمیر کرنے کا بھوت سوار تھا۔ سیاست دانوں نے ہمیشہ کی طرح حق کا ساتھ نہ دیتے ہوئے اکثریت کو ساتھ دینے کا روایتی فیصلہ کیا۔

کسی یتیم کا حق مار کے عید گاہ تعمیر کرنا اسلامی تعلیمات کے بالکل برعکس ہے۔ کیا کسی یتیم کی زمین ہڑپ کر اس جگہ ایک بھی سجدہ اللہ کی بارگاہ میں قبول ہو سکتا ہے؟ کیا چودھری خضر اور اسجد خود سے پہل نہیں کر سکتے؟ کیا وہ اپنی تھوڑی سی زمین اس نیک کام کے لیے صرف نہیں کر سکتے؟ آخر وہ کس چیز کو جدوجہد کا نام دے رہے تھے؟ دین اسلام نے یتیموں کو جا بجا حقوق سے نوازا ہے۔ چودھری خضر اور اسجد جیسے لوگ خود کو دین اسلام کے ٹھیکیدار سمجھتے تھے۔ وہ ہمیشہ اپنی جھوٹی اور من گھڑت باتوں کو حق سے تشبیہ دیتے اور گاؤں کے لوگ بھی آنکھ بند کر کے ان پر بھروسہ کرتے۔

ساحل کی شکستگی کے لیے گاؤں سے چندہ جمع کرنے کا حکم رائج کیا گیا۔ آناََ فاناََ چار لاکھ کا چندہ جمع ہوا۔ مسجد کے خزانے سے بھی دو لاکھ روپے اس کام کے لیے لیے گئے جس کو وقت کے مولوی صاحب نے حق بجانب قرار دیتے ہوئے ساحل کے خلاف فتویٰ جاری کر دیا۔

لاچار ساحل اندر سے ٹوٹ چکا تھا۔ دن بھر مزدوری کر کے ایک تو اپنی بیمار ماں کا خیال رکھتا اور باقی پیسہ کیس کی سماعت پر خرچ ہوتا۔ ساحل اپنی قسمت سے بیزار تھا۔ اگر اس کا مرحوم باپ زندہ ہوتا، تو شاید آج اس کو یہ مصیبت کے دن نہ دیکھنے پڑتے۔ کیس کی سماعت کا خرچہ دھیرے دھیرے ساحل پر بوجھ بننے لگا۔

چودھری خضر اور اسجد بالآخر ساحل کے وکیل کو اپنے جال میں پھنسانے میں کامیاب ہو گئے۔ وکیل صاحب نے چھ لاکھ کے عوض حق کی لڑائی کو چھوڑ کر دنیاوی زندگی کو آباد کرنے میں ہی ترجیح دی۔

گاؤں والوں نے شرعی ہلاّ بول کر ساحل کی زمین پر قبضہ کیا اور وہاں ایک خوبصورت عید گاہ تعمیر کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ چودھری خضر نے الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا اور اسجد گاؤں کا نیا مکھیا بننے میں کامیاب ہوا۔

ایک سال بعد چودھری خضر کا نماز جنازہ اسی عید گاہ میں ادا کیا گیا۔ آج ساحل کی نظر جب عید گاہ پر پڑتی ہے، تو اسے اپنے یتیم ہونے پر افسوس ہوتا ہے اور وہ ہمیشہ اسی سوچ میں گم رہتا ہے کہ ایک یتیم کی اراضی پر دین کے نام پر شب خون مار کر کیا اس عیدگاہ میں لوگوں کی نماز اللہ کے حضور قبول بھی ہوتی ہوگی یا نہیں۔۔۔۔؟

افسانہ نگار: فاضل شفیع بٹ
اکنگام انت ناگ
رابطہ:9971444589

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے