قرآن مجید کا نزول جس دور میں ہوا تھا وہ دور تاریخ میں سیاہ دور کے نام سے جانا جاتا ہے جہاں ہر سمت تاریکی ہی تاریکی تھی، ظلم و جور کا دور دورہ تھا ، عدل و انصاف کو قتل کر دیا گیا تھا زمین و آسمان سے رشتہ منقطع ہوئے تقریباً چھ صدی سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا تھا بحر وبر ہر جگہ فساد ہی فساد تھی اور یہ کسی خطہ یا کسی علاقہ کے ساتھ مختص نہیں تھی بلکہ عالمگیر فساد پھیلی ہوئی تھی مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی حسنی ندوی قدس سرہ اپنی کتاب "نبی رحمت”میں لکھتے ہیں:
"اس زمانہ میں پوری انسانیت خودکشی کے راستہ پر تیزی کے ساتھ گامزن تھی،انسان اپنے خالق اور مالک کو بھول چکا تھا اور خود اپنے آپ کو اور اپنے مستقبل اور انجام کو فراموش کر چکا تھا اس کے اندر بھلائی اور برائی اور زشت و خوب میں تمیز کرنے کی بھی صلاحیت باقی نہیں تھی ،ایسا معلوم ہوتا تھا کہ انسانوں کے دماغ و دل کسی چیز میں کھو چکے ہیں ،ان کو دین و آخرت کی طرف سر اٹھاکر دیکھنے کی بھی فرصت نہیں اور روح و قلب کی غذا،اخروی فلاح،انسانیت کی خدمت اور اصلاح حال کے لئے ان کے پاس ایک لمحہ خالی نہیں ،بسا اوقات پورے پورے ملک میں ایک شخص ایسا نظر نہ آتا جس کو اپنے دین کی فکر ہو ،جو خدائے واحد کی پرستش کرتا ہو اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہراتا ہو ،جس کے جگر میں انسانیت کا درد ہو اور اس کے تاریک و ہولناک انجام پر کچھ بے چینی ہو یہ صورت حال اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی ہو بہو تصویر تھی کہ:
ظَهَرَ الۡفَسَادُ فِى الۡبَرِّ وَالۡبَحۡرِ بِمَا كَسَبَتۡ اَيۡدِى النَّاسِ لِيُذِيۡقَهُمۡ بَعۡضَ الَّذِىۡ عَمِلُوۡا لَعَلَّهُمۡ يَرۡجِعُوۡنَ ۞(الروم:41)
لوگوں نے اپنے ہاتھوں جو کمائی کی، اس کی وجہ سے خشکی اور تری میں فساد پھیلا۔ تاکہ انہوں نے جو کام کیے ہیں اللہ ان میں سے کچھ کا مزہ انہیں چکھائے، شاید وہ باز آجائیں۔”
(نبی رحمت:58)
جہاں کسی گاؤں ،شہر، ملک ہی نہیں بلکہ پوری دنیا تباہی کے دہانے پر پہنچی ہوئی تھی پوری دنیا اس شعر کی مصداق تھی
ہمہ بدن داغ داغ شد
پنبہ کجا کجا نہم
تمام بدن زخم آلودہ ہے روئی کے پھایوں کو کہاں کہاں رکھا جاتا۔
ایسی بھیانک صورت حال میں سسکتی اور بلکتی ہوئی انسانیت کے مرض کی تشخیص رب کریم ہی کرسکتے تھے اور کئے اور ایک ایسی دوا تجویز کی جس سے انسانیت کے تمام امراض یکلخت ختم ہو گئے اور وہ دوا”علم”ہے ۔
علم کی تشخیص اس وجہ سے کیا گیا کہ یہ تمام امراض روحانی کے لئے "تریاق”ہے ، یہ اگر کسی کو حاصل ہوجائے تو پھر وہ تمام امراض روحانی سے بہت جلد چھٹکارا اور نجات پاسکتا ہے ،اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی بیماری کو دور کرنے کے لئے قرآن مجید میں سب سے پہلے وہی آیت نازل کی جس کا تعلق علم سے ہے ارشاد ربانی ہے:
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اِقۡرَاۡ بِاسۡمِ رَبِّكَ الَّذِىۡ خَلَقَۚ ۞
پڑھو اپنے پروردگار کا نام لے کر جس نے سب کچھ پیدا کیا۔
جس وقت قرآن کا نزول ہوا تھا اس تک پوری دنیا تاریکی میں مستور تھی اور یہ مُسَلَّم ہے کہ تاریکی سے نکلنے کے لیے روشنی کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ روشنی صحیح معنی میں علم کی ہی روشنی ثابت ہوئی۔
اس دور میں علم کی ضرورت اور اس کے برپا کئے ہوئے انقلاب پر روشنی ڈالتے ہوئے مشہور عالم مولانا وحیدالدین خان رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
"اس وقت عرب میں ہر قسم کے سیاسی اور سماجی اور اقتصادی مسائل موجود تھے مگر قرآن میں لوگوں کو جو پہلی تعلیم دی گئی وہ نہ سیاسی تھی اور نہ اقتصادی بلکہ وہ یہ تھی کہ_پڑھو!
"اس کا مطلب یہ تھا کہ قرآن میں یہ بتایا گیا کہ اصلاحی عمل کا حقیقی آغاز کیا ہے وہ علم ہے،علم یا شعور کی تعمیر وہ بنیادی عمل ہے جہاں سے اصلاحی کوششوں کا آغاز ہوتا ہے،یہی واحد نتیجہ خیز طریقہ ہے،اس کے سوا کہیں اور سے آغاز کیا جائے تو وہ کبھی کوئی گہرا نتیجہ پیدا نہیں کرسکتا۔
قرآن کے بعد کی تاریخ بتاتی ہے کہ یہی صحیح ترین نقطہ آغاز تھا ،چنانچہ اولا عرب میں اس کے نتیجہ میں ایک مکمل انقلاب آیا اور اس کے بعد ساری آباد دنیا تک اس کے اثرات پھیل گئے ،علم سے آغاز کرنے کے نتیجہ میں بقیہ تمام چیزیں اپنے آپ ملتی چلی گئیں۔(نشری تقریریں:117)
اللہ تعالیٰ نے علم کی ترغیب دے کر عالم انسانیت کو ترقی کی راہ کی طرف بڑھایا اور ان پر بہت بڑا احسان کیا۔
آج دنیا میں جو بھی ترقی ہے وہ علم کی ہی بدولت ہے اور آئندہ بھی جو ترقی ہوگی اس کا انحصار اسی علم پر ہے، حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب مدظلہم العالی لکھتے ہیں:
اس میں ایک لطیف اشارہ اس طرف بھی ہے کہ آپ کا دورِ نبوت علمی انکشافات کا دور ہوگا اور بہت سی اَنجانی چیزیں اس عہد میں جانی جائیں گی ، اسی لئے ہم دیکھتے ہیں کہ انسانیت کے آغاز سے لے کر رسول اللہ ﷺ کی نبوت تک جو طویل عرصہ گذرا ہے ، اس کے مقابلہ میں نبوت محمدی کے گذرے ہوئے دور یعنی گذشتہ پندرہ سو سال کے عرصہ میں علم کے مختلف میدانوں میں بے حد ترقی ہوئی ہے اور ابھی بھی ترقی کا سفر جاری ہے ۔(آسان تفسیر قرآن مجید)
قرآن مجید کا ہم انسانوں پر دوسرا بڑا احسان یہ ہے کہ اس نے انسانوں کے درمیان سے تمام تفریقات کو ختم کیا اور اعلان کیا کہ کوئی بڑا اور کوئی چھوٹا نہیں ہے، کالے کو گورے پر اور گورے کو کالے پر کوئی فوقیت نہیں ہے بلکہ پوری دنیا کے انسان ایک ماں باپ سے ہے اور پھر انہیں کی اولاد پوری دنیا میں آباد ہے ہاں اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے محبوب بندہ وہ ہے جو سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والا ہے ارشاد ربانی ہے:
يٰۤاَيُّهَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقۡنٰكُمۡ مِّنۡ ذَكَرٍ وَّاُنۡثٰى وَجَعَلۡنٰكُمۡ شُعُوۡبًا وَّقَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوۡا ؕ اِنَّ اَكۡرَمَكُمۡ عِنۡدَ اللّٰهِ اَ تۡقٰٮكُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلِيۡمٌ خَبِيۡرٌ۞(الحجرات:13)
اے لوگو ! حقیقت یہ ہے کہ ہم نے تم سب کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ہے، اور تمہیں مختلف قوموں اور خاندانوں میں اس لیے تقسیم کیا ہے تاکہ تم ایک دوسرے کی پہچان کرسکو، درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ متقی ہو۔ یقین رکھو کہ اللہ سب کچھ جاننے والا، ہر چیز سے باخبر ہے۔
اس آیت کی تفسیر میں حضرت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہم العالی لکھتے ہیں:
اس آیت کریمہ نے مساوات کا یہ عظیم اصول بیان فرمایا ہے کہ کسی کی عزت اور شرافت کا معیار اس کی قوم اس کا قبیلہ یا وطن نہیں ہے، بلکہ تقوی ہے۔ سب لوگ ایک مرد و عورت یعنی حضرت آدم و حواء (علیہما السلام) سے پیدا ہوئے ہیں، اور اللہ تعالیٰ نے مختلف قبیلے خاندان یا قومیں اس لیے نہیں بنائیں کہ وہ ایک دوسرے پر اپنی بڑائی جتائیں، بلکہ ان کا مقصد صرف یہ ہے کہ بیشمار انسانوں میں باہمی پہچان کے لیے کچھ تقسیم قائم ہوجائے۔
قرآن نے صاف لفظوں میں اعلان کیا کہ اللہ کے ہاں وہی مقرب ہے جو سب سے زیادہ اللہ سے ڈرتا ہے ، نزول قرآن سے پہلے ہر بڑا چھوٹے کو دبا کر رکھا تھا ،اونچ نیچ اور بھید بھاؤ کا دور تھا قرآن مجید نے ان تمام برائیوں کو ختم کیا اور تمام تفریق کو مٹا دیا ۔
حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب مدظلہم العالی سورہ نساء کی پہلی آیت کے تحت اس سلسلے میں بہت عمدہ بات قلم بند کیے ہیں مولانا لکھتے ہیں:
یہ اسلام کا ایک انقلابی نظریہ ہے کہ جیسے خدا ایک ہے ، ویسے ہی پوری انسانیت ایک ہی باپ سے پیدا ہوئی ہے ، یہ وہ عقیدہ ہے جو انسانیت کی طبقاتی تقسیم اور رنگ و نسل کی بنیاد پر اونچ نیچ کے تصورکا قلع قمع کرتی ہے ، ہندو مذہب میں یہ تصور تھا کہ کچھ لوگ خدا کے منھ سے ، کچھ لوگ اس کے بازوؤں سے ، کچھ لوگ اس کی رانوں سے اور کچھ لوگ اس کے پاؤں سے پیدا ہوئے ہیں ؛ اس لئے پیدائشی طور پر انسانیت کا ایک طبقہ معزز اور دوسرا ذلیل ہے ، اس طرح کی طبقاتی تقسیم کم و بیش اکثر مذاہب اور نظام ہائے حیات میں موجود رہی ہے ؛ لیکن قرآن کہتا ہے کہ تمام انسان کی پیدائش انسان اول سے ہوئی ہے ؛ اس لئے وہ سب بحیثیت انسان برابر ہیں ، محض رنگ و نسل اور علاقہ و زبان کی بنیاد پر ان میں تفریق کی گنجائش نہیں ۔ (آسان تفسیر قرآن مجید)
قرآن مجید کا انسانوں پر یہ دو چیزیں (1) علم (2) اور تمام انسان یکساں ہے بہت بڑا احسان ہے، موجودہ دور میں ہم مسلمان ان دونوں چیزوں کو پس پشت ڈال دئیے ہیں اگر آج ہم مسلمان اٹھنا چاہتے ہیں اپنا وجود اسلامی تشخصات کے ساتھ باقی رکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں ان دونوں چیزوں کو یعنی علم سے آشنائی اور تمام انسان یکساں ہے اس کو اپنانا ہو
گا، اللہ تعالیٰ ہم مسلمانوں کو صحیح سمھجنے کی توفیق بخشے۔(آمین)
ازقلم: ابومعاویہ محمد معین الدین
ادارہ تسلیم ورضا سمری دربھنگہ (بہار)